ہمارے بچپن میں ہم نے ہمیشہ ، کُڑک مرغی کو انڈوں پر 21 دن بیٹھ کر چوزے نکالتے دیکھا ۔ گندے انڈے کم ہوتے تھے ۔ کیوں کہ مرغی کُڑک ہونے سے پندرہ دن پہلے والدہ مرحومہ ،گرمیوں میں انڈوں کو دھو کر آٹے کے ڈبّے رکھتیں اور سردیوں میں انڈے کھائے جاتے ، مرغی بے شک اپنے کٗڑک ہونے کا زور زور سے اعلان کرے ، بے چاری 7 دن بعد تھک ہار کر اپنا کُڑک پن ختم کرتی اور 10 دن بعد دوبارہ انڈے دینا شروع کر دیتی ۔ایک ہی مرغی کو سال میں دو بار ہی انڈوں پر بیٹھنے کی اجازت دی جاتی۔10 انڈوں سے زیادہ انڈوں پر مرغی کو بیٹھنے کی اجازت نہ دی جاتی ، کیوں کہ مرغی کے پروں کی حدود سے باہر نکلنے والے انڈوں کے خراب ہونے کا سو فیصد چانس ہوتا تھا ، دیگر پرندوں کی طرح مرغے نے کبھی اپنی مرغی کا ہاتھ بٹانے میں کوئی دلچسپی کبھی نہیں دکھائی ۔
مرغی اور اُس کے چوزوں کو بکریوں کی طرح جہاں تک ہمت ہو چُگنے کی اجازت ہوتی تھی ۔
مرغیوں کو گھر آئے ہوئے رشتہ داروں یا کام کاج کرنے والی ماسیوں کو تحفہ میں دینے کا رواج تھا ۔ ہاں مرغوں پر کسی کو نظر ڈالنے کی اجازت نہ ہوتی تھی ، جس کی یخنی اور گوشت مہمانوں کی آمد پر اُڑائی جاتی ، مرغے کے پر کو مکئی کے سٹّے کے آدھے حصے میں لگا کر چڑی بنا کر ہوا میں اُڑئی جاتی ۔
مرغوں کو لڑانے کا تصّور گناہ کےتندورکی آماج گاہ ہوتا ، جس کے کہیں نیچے جہنم کی آگ کی لپیٹیں مچل رہی ہوتیں ، ہاں اگر وہ خود سر بکف ہو کر اپنی مرغیوں کو دوسرے مرغ کے نظرِ بَد سے بچانے کے لئے یُدھ کی بانگ دیں تو اُنہیں روکنا ایک صحتمندانہ تفریح سے خود کو محروم رکھنے میں شمار ہوتا تھا ۔
چِنکو اور پِنکو کر طرح وہ بھی اپنی حدود میں کسی اجنبی انسان تک کو داخل ہونے کی اجازت نہ دیتے ۔ اصیل ، دیسی ، سندھی ، مصری مرغے مرغیوں کا راج تھا ، ابھی بدیسی مرغے مرغیوں نے ہمارے مُلک میں قدم نہیں رکھا تھا ۔
پھر ہم نے سنا کہ ایوب خان نے مصنوعی انڈے اور چوزے پیدا کرنے کی مشینیں یہودیوں سے خرید لی ہیں ۔ جن کو، پی آئی اے شیور کا نام ملا ۔ بس یہیں سے قومی ائر لائن کا زوال شروع ہوا ۔
مشینوں سے حاصل کئے گئے ، انڈوں اور مرغیوں کو کھانا مکروہ بطرفِ حرام قرار پایا ۔
کیوں کہ ایک تو وہ مغرب کی دوشیزاؤں کی طرح سفید تھے اور سب سے بڑا ظلم کہ مشینی انڈوں سے پیدا ہونے والیاں اور مزید ستم یہ کہ مرغوں کے بغیر وہ دھڑا دھڑ انڈے دینے کی ماہر تھیں ۔ جن سے یتیم چوزوں کا ایک جم غفیر 2مہینے میں جوان ہو کر دو سے ڈھائی کلو گرام وزن کے ساتھ دکانوں پر بکنے لگا ۔
کہاں دس مہینوں میں جوان ہو کر سینہ پُھلا کر بانگ دینے والے طاقت سے بھرپور ، چِنکو اور پِنکو اور کہاں دو مہینوں کے یہ مشینی جوان !
جس طرح دریا کے پانیوں سے بجلی نکال کر اُس کی خوردنی طاقت ختم کر دی ۔ اِسی طرح حکمرانوں نے قوم کو پھُوکے انڈوں کے کاروبار میں گروی رکھنے کی بنیاد رکھ دی ۔
آٹومیٹک رفتار سے بغیر کُڑک ہوئے انڈے دینے والی یہ مرغیاں، دس بارہ انسانی بچوں کو جنم دینے والی خواتین کی طرح اپنا وزن بے تحاشہ بڑھا کر " اُمِ چکن " کے رُتبے پر فائز ہوکر ، بڑے گوشت کے ناغہ کے دن چھوٹا گوشت بن کر فوجی لنگروں کی زینت بننے لگیں ۔جن کی ٹانگ سے بوٹیاں اُتارنے کی کوشش میں ٹانگ اُڑ کر کسی کے منہ پر لگتی یا پھر تاک میں بیٹھی ہوئی آوارہ بلّی کے ہتھے چڑھتی ۔
ہاں تو بات ہورہی تھی ، کڑک مرغیوں کو انڈوں پر بٹھا کر سے چوزے حاصل کرنے کی ۔ بدیسی مرغیوں کی طرح دیسی مرغیوں نے بھی نخرے دکھانے شروع کر دئیے، جس کا اثر اُن کی اولاد پر بھی پڑا ، جنہوں نے کڑک ہوکر 21 دن جم کر بیٹھنے کو ڈھکوسلہ، وقت کا ضیاع اور جسم کے بے ڈول ہونے سے بچانے کے لئے کڑک ہونا ہی ختم کر دیا ۔ جس سے کہرام مچ گیا ۔
دیسی مرغوں کی نسل تقریباً ناپید ہونے کو تھی اور دیسی مرغیاں تھیں کہ بس انڈے پر انڈے دیئے جا رہی تھیں وہ بھی کسی مرغے کی منکوحہ ہوئے بغیر !
لہذا پانچ پانچ ہزار چوزے نکالنے والی مشینوں سے متاثر ہو کر چھوٹی چھوٹی مشینیں بنائی جانے لگیں ، تاکہ مرغوں کو اپنی بغل میں دبا کر پھرنے والوں کی شان میں کمی نہ آنے پائے ۔
دیسی الہڑ مرغیوں کی بہتات کی وجہ سے ، حکومت نے اعلان کیا کہ ایک مرغا اور ایک مرغی کے بجائے ، ہر گھر میں ایک مرغا اور چھ مرغیاں لازمی رکھی جائیں ۔
ویسے دیسی انڈے ، دسمبر کی اِس سردی میں 200 روپے درجن مل رہے ہیں ۔اگر چھ مرغیاں روزانہ انڈے دیں تو مہینے میں 3 ہزار روپے کی بچت ہو !
سنا ہے کہ اب یتیم انڈوں کی زردی میں کولیسٹرول نہیں ہوتا ،اگر تھوڑا بہت ہوتا بھی ہے تو اُن سے ڈاکٹروں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا ۔ ویسے بھی ناشتے میں دو انڈے کھانے کے بعد دوپہر کے کھانے کی بچت ہوجاتی ہے ، یہ بھی قومی آمدنی میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے ۔
٭-پہلا جانباز - چوزہ - پیدائش و وفات
٭- انڈوں سے چوزے نکالنا
٭- فیس بُک سے چِکن بُک تک
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں