Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 23 فروری، 2021

میں ملکی خزانے پر کبھی بوجھ نہیں رہا ۔ ایک ریٹائر فوجی

  أعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ

  بِسْمِ  اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي ۔ وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي۔

 وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي ۔ يَفْقَهُوا قَوْلِي ۔(دعائے موسیٰ کلیم اللہ کے ساتھ)

 

جناب وزیر دفاع حکومت، پاکستان

!کے نام کھلا خط

كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ

 

پاکستان کے برف پوش پہاڑوں  کے دفاعی علاقوں میں یہ نوجوان محو رقص ہیں اِن کی خوشی کا سبب  وہ  جوش اور ولولہ ہے جو مادرِ وطن کی حفاظت کے لئے اِن کی رگوں میں لہو بن کر دوڑ رہا ہے ۔

 یہ اپنے خاندان سے دور اُن کی معاشی کفالت بڑے سکون سے کر رہے ہیں کیوں کہ بھرتی ہوتے وقت اُن سے جو وعدے کئے وہ حکومتِ پاکستان اپنی پوری مساعی سے پورے کر رہی ہے ، اِن پر ہونے والا بلا حساب خرچ حکومتِ پاکستان پر بوجھ نہیں ،  کیوں کہ حکومتِ پاکستان اِن کی قربانیوں سے کرارض پر قائم ہے ۔ ورنہ خون خوار دشمن 1947 سے پاکستان پر نظریں جمائے بیٹھے ۔ اِنہیں معلوم ہے کہ اُن کی ملک کے لئے قربانی اُن کے خاندان کی کفالت کی راہ میں  حائل نہیں ہوگی ۔  کیوں کہ حکومت پاکستان نہ صرف اُن کے لئے ایک شفیق ماں ہے بلکہ اُس کی سرکار میں خدمت انجام دینے والی تمام سرکاری ملازموں کی بھی ماں ہے ۔

جو ہر سال بڑھتے ہوئی مہنگائی سے نپٹنے کے لئے نہ صرف تنخواہ   اور الاؤنسز سے اُن کی کفالت کرتی ہے بلکہ ،  اپنی   خدمت کا معاوضہ ، تاج برطانیہ کے کفالت الاؤنس  کی طرح ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن  دے کر

اُن کی خدمات کو 1947 سے بطور حق سراہا رہی ہے ۔

اگر برف پوش پہاڑوں پر خوشیاں مناتے ہوئے اِن پاکستانی محافظوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ اِنہیں حکومتِ پاکستان سے اپنا حق مانگنے کے لئے ، دیگر سرکاری ملازموں کی طرح عمر رسیدگی میں سڑکوں پر بینر لے کر کھڑا ہونا پڑے تو اِن کی خوشیوں کے اِس رقص پر  مستقبل کی مایوسیوں کا سایہ چھا جائے گا ۔ جناب ۔ یکم دسمبر  1999 کو ریٹائر ہونے والا یہ 68 سالہ بوڑھا ،  جب کل اپنی پنشن میں اضافے کے لئےاپنے سے بھی عمر رسیدہ ،   پنشنرز اور ریٹائرڈ  ڈیفنس فورسز کے ملازمین  کے ساتھ   بینرلے کراسلام آباد پریس کلب کے باہر کھڑا ہوا ، تو مجھےایک خفت کا احساس ہوا کہ    ،میں بھی اِنہی جیسے ملکی دفاع میں سرشار نوجوانوں کے ساتھ  14 اگست  1993 کے دن سیاچین پر پاکستان کے قیام کی 46 ویں سالگرہ پر محو رقصاں تھا ۔  مجھ سمیت یہ سب نوجوان ریٹائر ہوچکے ہیں اور اپنے خاندان کی  کفالت کی گاڑی اِس امید پر کھینچ رہے ہیں ، کہ شاید  پچھلے 73 سالوں کی طرح اِس سال بھی حکومتِ پاکستان معاشی مہنگائی کے اِس دور میں اُن کی کفالت کرتے ہوئے  ، ملک کی خدمات کرنے والے  اِن  میں نوجوانوں کی اشک سوئی کرتے ہوئے 25 فیصد الاؤنس  اضافے کے ساتھ  ، موجودہ حکومت کے نئے پاکستان میں پنشنرز  کے کفالت الاؤنس ( پنشن) میں اضافہ کرے گی اور دولتمند مشیروں کی تجاویزِ کہ تمام پنشنرز ملکی خزانے پر بوجھ ہیں ۔

جناب  47 سال  کی عمر میں پاکستان آرمی سے ریٹائر ہونے والا ،یہ بوڑھا پنشنر دیگر پنشنر  سمیت یہ سوچ رہا ہے کہ نئے پاکستان کے انصاف پرست حکمران کیوں نہ پاکستان کے تمام پنشنرز    کو  ریٹائر منٹ کے بعد زہر کے ٹیکوں سے نوازیں ، تاکہ ملک کی خدمت  کا دعویٰ کرنے والے ،سرکاری ملازموں  کے ووٹ منتخب وزراء کے تنخواہوں ، الاؤنسز  اور دیگر اضافی مراعات کے لئے  قومی خزانہ وافر مقدار میں موجود ہو ۔    

والسلام

 

میجر (ر) محمد نعیم الدین خالد

22 -02-2021

 

 

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔