"پاکستان
کے تمام پنشنرز ایک پلیٹ فارم پر جمع
ہوجائیں ۔ چلو چلو اسلام آباد چلو "
18
فروری
کو مجھے ایک دوست لیفٹننٹ کرنل (ر)
محمد
عمران بٹ نے وٹس ایپ کیا ۔ جو مجھے بہت
پسند آیا ۔ میں نے اُسے وٹس ایپ کیا کہ،
بٹ صاحب ہم سوچ رہے تھے ، آل پاکستان
پنشنرز کے اتحاد کا یہ نعرہ مجھے بہت پسند
آیا ۔
میں نیچے اُس کا وائس میسج ڈال رہا ہوں ۔
چؤا سیدن شاہ ، کا بوٹا جو اپنی سروس کا آخری سال 1993 میں مکمل کر رہا تھا ، اُس سے میری ملاقات ۔ 29 نومبر 1976 میں ہوئی تھی - جب اُسے وادیءِ نیلم میں دھنّی کے مقام پر مجھے بطورِ بیٹ مین دیا گیا ۔ بوٹا خان ، ٹھیٹھ پنجابی بولنے والا ، تعلیم کے حساب سے چٹّا اَن پڑھ لیکن تربیت کے مطابق ایک بہترین ملازم ثابت ہوا ۔افغان وار میں کرم ایجنسی کے بارڈر پر ایک آبزرویشن پوسٹ پر میرے ساتھ رہا ۔ 1979 تک میرے پاس رہنے کے بعد ،وہ میرے بیٹری کمانڈر میجر ارسل نواز کے پاس بھجوادیا گیا ۔ وقت گذرتا گیا ۔ پھر اَن پیڈ لانس نائیک محمد بوٹا خان سے میری ملاقات مارچ 1993 میں ہوئی جب میں کوئیٹہ سے لاہور ۔ اپنی یونٹ کا سیکنڈ اِن کمانڈ بن کر پوسٹ ہوا ۔پوسٹ کیا ہوا ۔ کمانڈنگ آفیسر نے مجھے فون کیا ،
نعیم یونٹ سیاچین جارہی ہے ، میں چاہتا ہوں آپ ہمارے ساتھ چلو ۔
سر مجھے ابھی پوسٹ ہوئے صرف آٹھ ماہ ہوئے ہیں یہاں دو سال کا پیریڈ ہے ۔
نعیم ، کیا یونٹ کی خاطر یہ پیریڈ کم نہیں کروا سکتے ؟
کیوں نہیں سر ! یونٹ کی خاطر میری جان بھی حاضر ہے ۔
میں ملٹری سیکریٹری برانچ میں بیٹھا ہوں ۔ آپ ان سے بات کرو ۔
یوں میں بچوں کو کوئیٹہ چھوڑ کر لاہور سیاچین جانے کے لئے پہنچ گیا ۔
کیپٹن عمران بٹ یونٹ میں ایجوٹنٹ تھا ۔ کرنل زاہد وحید بٹ ( مرحوم) کمانڈنگ آفیسر اوریونٹ کو سیاچین لے جانے کے لئے ، کرنل نور الامین نئے کمانڈنگ آفیسر ۔ میں نے جب 57 ماونٹین رجمنٹ آرٹلری کو 28 نومبر 1976 دھنّی میں جائن کیا تو بعد میں کیپٹن نور الامین اور میں ایک پہاڑ کی چوٹی پر ہفتہ ساتھ رہے ۔ پھر وہ چھٹی لاہور چلے گئے اور میں اتھلیٹک کی ٹیم لے کر مظفر آبادا ور پھر اوجھڑی کیمپ راولپنڈی آگیا ۔
اپریل 1993 سے جون 1994 تک سیاچین میں بطور سیکنڈ اِن کمانڈ اور ایکٹنگ کمانڈنگ آفیسر رہنے والی جنگی یادیں میری فوجی زندگی کا سرمایہ ہیں ۔موقع ملا تو تحریر میں لاؤں گا ۔
میں آفس میں بیٹھا تھا کہ رنر نے بتایا کہ ، سر ، اَن پیڈ لانس نائک محمد بوٹا خان آپ سے ملنا چاہتا ہے ۔
اَن پیڈ لانس نائک محمد بوٹا خان آفس میں داخل ہوا ۔ وہ اندر داخل ہوا ۔ میں پہچان گیا ۔ اُس نے زور سے سلیوٹ مارا ۔ میں کھڑا ہوا اور بولا،
بوٹے خانا ۔تینوں کدروں پُٹ کے ۔میرے مغر مار دتا جے ۔
اَن پیڈ لانس نائک محمد بوٹا خان ، شرمندہ ہو کر ویسے ہی مسکرایا ۔جیسے وہ 18 سال پہلے مسکرایا کرتا تھا اور پہلی بار جواب دیا :
سر جی تہاڈی ماسی دے پنڈ، توں !
میری ماسی ( گلزار خالہ )کے لئے پڑھیں ،" نمّو کی پہلی اُڑان "
میں اُس سے اُٹھ کر گلے ملا۔ پاس کرسی پر بٹھایا اور بوٹے نے چائے پینے تک اپنی پوری کہانی سنا دی ۔ اُس کاریٹائرمنٹ آرڈر آچکا تھا اُس نے جولائی میں آرٹلری سنٹر رپورٹ کر نا تھا ۔لہذا وہ پنڈی ٹرانزٹ کیمپ میں ڈیوٹی دینے کے لئے نامزد کیا گیا تھا ۔
لیکن وہ مجھے سیاچین تک چھوڑنے میں بضد تھا ۔ بلکہ وہ میرے ساتھ سیاچین میں ہی شہادت پانا چاھتا تھا ۔ کیوں کہ اُس نے سن رکھا تھا کہ سیاچین جانے والے واپس نہیں آتے ۔
اُس کے جذبہءِ شہادت کو دیکھ کر ، میں نے کمانڈنگ آفیسر سے بات کی،
یوں، اَن پیڈلانس نائیک بوٹا خان میرا بیٹ مین بن کر سیاچین کے میدانِ جنگ میں آگیا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب یونٹ کے پہنچنے کے پہلے ہی ہفتے میں ، ابھی ہم نے اپنے ٹروپس واپس جانے والی یونٹ کی جگہ تعینات نہیں کئے تھے کہ گیاری سیکٹر سے دو شہداء کے جسم لائے گئے تو ۔ لانس نائک اَن پیڈ بوٹا خان کی حالت خونخوار شیروں جیسی ہو گئی ۔
" سر جی مینوں گن پوزیشن تے گھل دیو ، میں انڈین نو سبق سکھاواں گا ۔
میراا نشانہ حالے وی سُچا اے میں ،
فائرنگ وچ پورے نمبر لینا آں "
بوٹا خان تو کیا ہم سب کی یہی حالت تھی ۔ لیکن سیاچین میں برفانی پہاڑوں کے پیچھے چھپی ہوئی توپوں کے گولے ہی منفی 20 سے 40 ڈگری سنٹی گریڈ تک دشمنوں یا ہمیں نقصان پہنچاتے تھے ۔ بندوق ، مشین گن ، یا کوئی اور ڈائریکٹ فائر ہتھیار وہاں بے کار تھا ۔
جولائی کے پہلے ہفتے میں وہ سنٹر چلا گیا اور پھر چؤا سیدن شاہ ، جہاں اُس کے آبا و اجداد کی زمینیں تھیں جو تقسیم درتقسیم ہوکر 4 ایکڑ بن کر اُس کے پاس آئیں جس پر اُس کا نکما مگر اکلوتا بیٹا اب بکریاں چراتا اور گذارہ کرتا تھا ۔ بوٹے کا پروگرام تھا کہ وہ پنشن کی رقم سے اپنا گھر پکا کرے گا اور بیٹے کی شادی کردے گا میں نے بہت سمجھایا پکے گھر کو رہنے دو اپنی پنشن قومی بچت میں جمع کروا کر ، منافع لو تاکہ پنشن اور منافع سے اُس کا گذارہ اچھا ہوجائے ۔ لیکن مولوی کے فتویٰ نے اُسے سود(کالی کمائی ) کھانے سے باز رکھا ۔
بوٹےنے یونٹ سے میرا موبائل نمبر لیا اور جولائی 2019 میں فون آیا :
یہ سب گفتگو پنجابی میں ہوئی ۔
بوٹے کیسا حال ہے ؟ بہو اور بچے کیسے ہیں ؟
سر جی ۔ اللہ کا شکر ہے ۔ سر جی کوئی ملازمت دلا دو ؟
بوٹے ملازمت کہاں ملتی ہے ؟
سر جی آپ نے پہلے احسان کیا تھا ، اب ایک اور کردو ، پنشن بہت کم ہے ۔ بوڑھا ہوگیا ہوں ملازمت نہیں ملتی ، بہو تنگ کرتی ہے -آپ تو لوگوں کو بیٹ مین کی ملازمت دلواتے ہو مجھے بھی دلوادو ۔
پڑھیں : گھریلو ملازمین ، برائے فوجی افسران
بوٹے 70 سال کا ہوگیا ہے اب تجھے ملازمت پر کون رکھے گا ۔ اگر رکھوا دوں تو اگلا بندہ کہے گا ، میجر صاحب : اے بوٹا کدروں پُٹ کے میرے مگر مار دتا جے ۔
سر جی : مجھے اپنے ہاں گیٹ پر چوکیدار رکھوادو ، آپ کی گاڑی صاف کروں گا ، آپ کے لئے گیٹ کھولوں گا، بس مجھے کھانا کھلا دینا اور برانڈے میں چارپائی رکھ دینا ۔
بوٹے ، تیرا پنشن میں گذارا نہیں ہوتا ، پھر بیٹا بھی ہے، پنشن کے پیسوں سے تو نے گھر بھی بنایا تھا ، روٹی تو تجھے بیٹا بھی کھلاتا ہوگا ، 6 ہزار روپے گھر بیٹھے کافی نہیں ؟
" سر جی بیٹا کہندا جے ، ابّا تیری پنشن نال ساڈا گذارا نئی ہونا ، نالے توں ٹاپاں بہوں کھاندا جے، کسی صاب کو ل چوکیدار دی ملازمت کر لے "
یہ سُن کر ، یہ بوڑھا سُن سا ہو گیا ۔ لیکن پھر غصے میں بھر گیا،
بوٹے اپنے خبیث بیٹے کو بتاؤ ، کہ گھر تمھارا ، پنشن تمھاری ، بچے کے بیٹی اور بیٹے کے چوکیدار تم ، تم نے اُسے پالا ، پڑھایا اب وہ کیسے کہتا ہے ؟ کہ بڑھاپے میں تم چوکیداری کرو ۔ اُسے تمھاری خدمت کرنا چاھئیے تم اُس کے باپ ہو، اب باپ بنو ، رات کو درخت کے نیچے سونے اور بارش میں چھپّر کے نیچے سونے کے بجائے ، اُسے بولو اپنا گھر تلاش کرے ۔ یا تمھیں چوکیداری کے بدلے کھانا کھلائے۔
سر جی میں ،بہت بیمار ہوا تھا ، رشتہ داروں کے کہنے پر گھر اُس کے نام کر دیا ہے ۔
پنشنر دوستو، یہ جملہ کہانی کا کلائمکس تھا ۔
جب میں جولائی 2020 میں عدیس ابا با سے واپس آیا ، بوٹے کے نمبر پر فون کیا ، تو معلوم ہوا ۔اَن پیڈلانس نائیک بوٹا خان روٹیوں سے بے نیاز ہو چکا تھا ۔
یوں یہ پوسٹ اِس بوڑھے نے دیگر بوڑھوں کو ایک نیک کاز کے لئے ڈالی :
19 فروری کی صبح مجھے سبزواری کا فون آیا کہ میجر صاحب ، اسلام آباد و راولپنڈی کے تمام پنشنر کی میٹنگ ، رانا محمد اسلم ریٹائرڈ پی ایس تو سیکریٹری وفاقی مذہبی امور کے گھر ہوگی جہاں 22 فروری کی پریس کانفرنس کے انتظامات کے بارے میں ، ڈسکشن ہو گی اگر آپ جاسکتے ہیں تو وہاں اپنے پنشنر ساتھیوں کے ساتھ پہنچ جائیں اور باقی پنشنرز جن کو آپ جانتے ہیں اُنہیں بھی بتائیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میں
نے سبزواری سے بات کی اُس نے بتایا کہ وہ
22 فروری
کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس
کانفرنس کرے گا ۔ میں نے پوچھا اسلام آباد
کب آنے کا پروگرام ہے ؟ اُس نے بتایا کہ
وہ 21
فروری
کو اسلام آباد پہنچے گا ۔
مجھے
18 فروری
کو جناب رانا محمد اسلم کی طرف سے میسج
ملا کہ 19
فروری
کو اُن کے گھر میں میٹنگ ہے آپ تشریف لائیں
۔ میں وہاں پہنچا وہاں جو بھی کاروائی
ہوئی اُس کی مکمل گُفتگو کی وڈیو میں نیچے
ڈالتا ہوں ۔
وہ
دیکھ کر آپ سمجھ جائیں گے ۔ کہ 65
سے
70 سال
کے سمجھدار ، لوگوں نے ایسوسی ایشن بنانے
کے لئے کیا گُفتگو کی ۔
٭- پنشنرز کی اسلام آباد میں پہلی میٹنگ
٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مزید پڑھیئے :
٭۔ایک پنشنر کے سوالات کے حل کا، دوسرا راستہ
٭۔ پاکستان کی ترقی میں ریٹائر ہونے والی سپاہوں کا کردار
٭۔19 فروری تا 31 مئی ۔ داستان ایک سفرِ مسلسل
٭۔ 31مئی پاکستان کے تمام پنشنرز کا دن
٭٭٭٭واپس ٭٭٭ ٭
بیشک افواج پاکستان کی لازوال قربانیاں ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان ملٹری اکاونٹس کا ایک یونٹ اکاونٹنٹ ہر محاز پر آرمی کی ہر یونٹ کی خدمت کے لئے موجود رہتا ہے ان میں سے ایک میں یعقوب گل کے جس نے اپنی ذندگی کے 40 سال فوج کو وقف کیئے اور ریٹائرمنٹ کے بعد اللہ نے توفیق دی اور میں بطور چیف میڈایا کوارڈینیٹر آل پاکستان پنشنرز ایسوسی ایشنز خدمات سر انجام دے رہا ہوں ( یونیٹی ) سب کو لے کر ساتھ چلو تب قامیابی ہمارا مقدر بنے گی منجانب یعقوب گل CMC
جواب دیںحذف کریںیعقوب گُل : The C.M.Cیاد رہے کہ پاکستان ڈیفنس فورسز کا ہر فرد جو ملکی خزانے سے تنخواہ لیتا ہو ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لئے ایک انمول ہیرا ہوتا ہے ۔
جواب دیںحذف کریںجو پاکستان کی سرحدوں کا دفاع کرنےوالوں کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہے مثال ہے ۔
میں تمام سویلیئن کو سلام پیش کرتا ہوں ۔
پڑھیں رنگروٹ سے آفسر تک !
جواب دیںحذف کریںمزیدار آپ بیتی:
https://ufaq-kay-par.blogspot.com/2014/03/blog-post_20.html