Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 19 اپریل، 2021

19 فروری کو پنشنرز کی میٹنگ

  19 فروری کی صبح مجھے سبزواری کا فون آیا   کہ  میجر صاحب ،  اسلام آباد و راولپنڈی کے تمام  پنشنر کی  میٹنگ  ،جی سیون ٹو  اسلام آباد میں ،  رانا   محمد اسلم  ریٹائرڈ پی ایس  ٹو سیکریٹری وفاقی مذہبی امور کے گھر ہوگی  جہاں 22 فروری کی پریس کانفرنس کے انتظامات کے بارے میں  ، ڈسکشن ہو گی اگر آپ جاسکتے ہیں تو وہاں اپنے پنشنر ساتھیوں کے ساتھ پہنچ جائیں  اور باقی پنشنرز جن کو آپ جانتے ہیں اُنہیں بھی بتائیں ۔

بوڑھا عسکری 14 سے نکلا اور ٹھیک 3 بجے دوپہر رانا محمد اسلم کے گھر پہنچ گیا۔ بوڑھا پریشان کہ اسلام آباد و راولپنڈی کے پنشنرز یہاں کیسے سما سکیں گے؟

 گھر کے مغرب کی طرف خالی علاقہ تھا وہاں چل پڑا شاید وہاں کرسیاں وغیرہ رکھ دیں ہوں ۔جاکر دیکھا   وہ جگہ بالکل خالی تھی ۔ واپس رانا صاحب کے گھر آیا ڈور بیل  کا بٹن دبایا  کوئی جواب نہیں 5 منٹ بعد ایک اور صاحب موٹر سائیکل پر آئے ،  بوڑھے نے موبائل پر رانا صاحب کو فون کیا ۔ رانا صاحب باہر نکلے تعارف کروایا جہاں 20 کرسیاں پڑی ہوئی تھیں ۔ بوڑھے نے رانا صاحب سے پوچھا۔

رانا صاحب ۔ جن لوگوں کو وٹس ایپ پر یا موبائل پر دعوت دی ہے وہ یہاں سما جائیں گے ؟
رانا صاحب نے جواب دیا ، 

جو پہلے آئیں گے وہ بیٹھ جائیں گے باقی کھڑے ہو کر باتیں سُن لیں گے۔

یہ کہہ کر رانا صاحب اپنے ڈرائینگ روم میں چلے گئے۔ آہستہ آہستہ کرسیاں بھرنا شروع ہو گئیں ۔

یوں سمجھیں  کہ اسلام آباد کوپنشنرز اکٹھا کرنے کے لئے یہ پہلا قدم تھا ۔ جو رانا اسلم نے اٹھایا ۔ تمام شرکاء کسی نہ کسی تنظیم ، ایسوسی ایشن ، یونئین  یا آرگنائزیشن سے تعلق رکھتے تھے جو پنشنروں  کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک متحد  پلیٹ فارم بنانے کے لئے کوششیں کر رہے تھے تاکہ     11 فروری کو ملازمین کو 25 فیصد بڑھنے والی ماہانہ رقم جو بڑھتی ہوئی  مہنگائی  کے سیلاب کو روکنے کے لئے  احتجاج اور آنسوگیس  کے بادلوں سے گذر کر ملازمین حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے  اور آئین کے آرٹیکل 260 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خزانے کے امینوں کے کمینگی اختیار کرتے ہوئے ، پنشنرز کو محروم کردیا ۔

آئین کے آرٹیکل 260 میں وضاحت کے ضمن میں " سروس آف پاکستان " میں واضح کیا ہے کہ صدر پاکستان کے حکم سے سروس کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائر ملازمین کی پنشن میں اضافہ کیا جائے گا ۔ لیکن اگر صدرِ پاکستان منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھا ہو تو ملازمین  اُس کا منھ کھلوانے کے لئے وہ تمام حربے استعمال کرتے ہیں ، جن سےا ُن کی آہ و فغاں صدر پاکستان کےکان تک پہنچائی جاسکے ۔تاکہ اُس کے قلم میں جنبش آئے ۔ 

ڈی چوک اسلام آباد میں ملازمین اور پنشنرز کے ہونے والے دھرنے نے صدرِ  پاکستان کے کانوں پر جوں کو رینگنے پر مجبور تو کردیا لیکن اُس کے طبلچیوں نے پنشنرز کی پنشنوں میں اضافہ   معیشت پر ایک گراں بار بنا کر اُسے صدر پاکستان کے لئے آرٹیکل کی خلاف ورزی کا راستہ دکھایا ۔ یوں پنشنرز بشمول اِس بوڑھے کے رانا صاحب کے لان میں بیٹھے ہوئی اپنی اپنی رائے حاضرین تک پہنچا رہے تھے ، اور یہ بوڑھا بھی اپنے 1993 میں سیاچین پر خدمت کرنے والے اِن پیڈ لانس نائیک محمد بوٹا  فرام چؤا سیدن شاہ ۔ کی خاطر   !

میٹنگ کیا تھی ؟ ایک بولنے کا مقابلہ ہو رہا تھا ۔

 وہاں وہاں ہر کوئی پوچھ رہا تھا کہ یہ سبز واری کون ہے اِس کا حدود اربعہ کیا ہے ؟ 

کسی کو نہیں معلوم تھا ۔ وہاں جو بھی کاروائی ہوئی اُس کی مکمل گُفتگو کی وڈیو میں نیچے ڈالتا ہوں ۔

 وہ دیکھ کر آپ سمجھ جائیں گے ۔ کہ 65 سے 70 سال کے سمجھدار ، لوگوں نے ایسوسی ایشن بنانے کے لئے کیا گفتگو کی اور یہ بیل کیسے منڈھے چڑھی؟

میٹنگ 19 فروری  کی 2021   کی وڈیو

میری سبزواری صاحب سے پہلے ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی میں اُن کے بارے میں جانتا ہوں ، بس اتنا معلوم ہے کہ جب تین رُکنیِ کمیٹی نے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد  الاؤنس کا اعلان کیا  تو پنشنرز کے لئے  پنشن  میں کسی بھی اضافے کا  اعلان کیا اور نہ ہی یہ نوید دی کہ اُن کی پنشن میں اضافے کا اعلان بجٹ 2021-2022 میں کیا جائے گا ۔

٭۔ پنشنرز حکومت پر بوجھ ہیں ۔

٭۔ ہر سال حکومت پنشن کی مد میں ہر سال اربوں روپے پنشنرز کو دیتی ہے ۔

٭- لاکھوں گھوسٹ پنشنرز ہیں ۔

٭۔ آئی ایم ایف نے تمام ملکوں سے پنشن کا نظام لپیٹ دینے کو کہا ہے ۔ اگر معاشی ترقی کی رفتار بڑھانا ہے ۔

کیا حکومت ، عوام کو ماموں بنا رہی ہے ۔ کہ اپنے  معاشی جموندروں کو قلابازیاں کھلوا رہی ہے ۔

 ایک ایک مشیر 35 لاکھ ماہانہ تنخواہ لے رہا ہے ،  وزیر اِس بہتی گنگا میں ،  دل بھر کر اشنان کر رہے ہیں ۔ اور اگر خزانہ خالی ہو رہا ہے تو ۔ پنشنرز کو پنشن دینے اور اُس میں حکومت کی معاشی ناکام کا مقابلہ  تو نہیں       ہاں سسکتی لائن سے اوپر  زندگی گذارنے کے معمولی سے اضافہ  نہیں کر سکتی ؟؟

کہاں ہے وہ دعوے مدینہ ریاست بنانے والے ؟؟

٭۔ میٹنگ 21 فروری 2021  

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مزید پڑھیئے :

  ٭۔ایک پنشنر کے سوالات کے حل کا، دوسرا راستہ

٭۔ پاکستان کی ترقی میں ریٹائر ہونے والی سپاہوں کا کردار

٭۔19 فروری تا 31 مئی ۔ داستان ایک سفرِ مسلسل

   ٭۔  31مئی پاکستان کے تمام پنشنرز کا دن

 ٭٭٭٭واپس ٭٭٭ ٭

 

 


  

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔