نوجوانو!
یہ تمھاری پیدائش سے پہلے کا واقعہ ہے یا شائد آپ لوگ پوتڑوں میں لپٹے
ماں کی گود سے نکل کر باہر دوڑ جاتے ہوگے، اور تمھیں کسی نے نہ سنایا
ہو یا شائد تم لوگوں نے بیرونِ ملک ِجدید کے نظریات پڑھنے کی خاطر سنی
ان سنی کر دی ہو گی !
یہ بہت پرانی کہانی ہے ایک لوہار کی ، جس کو سونے سے زیادہ قیمتی وہ لوہا لگتا تھا ، جسے وہ آگ میں تپا کر کوٹتا تھا ،
ڈھا ، ڈھا ، ڈھا ، دھک ،
دھک ، دھک دھک ،ٹن
ٹن، ٹن ، ٹن ٹرررن
ٹن، ٹن ، ٹن ٹرررن
ٹرررن
کی آواز آتے ہی اُس کے محنتی چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ، کیوں کہ
لوہا اُس کے مضبوط ہاتھوں سے لگنے والے ہتھوڑے کی ضربوں سے سٹیل میں
تبدیل ہونے لگتا ۔ اور سٹیل سب سے مضبوط اور قیمتی دھات ہے ۔ جو بڑی بڑی
عمارتوں ، پلّوں اور سب سے بڑھ کر کسی ملک کے دفاع کو تلواروں سے سہارا
دیتی ہے ۔
معمولی لوہے کو سٹیل میں تبدیل کرنے والا، اُس بچے کا دادا تھا ۔
جو
سٹیل بناتے بناتے ، بہت بڑی جائداد کا مالک بن چکا تھا، جسے انڈسٹری
کہتے ہیں ، یعنی فونڈری جو اُس کے ساتھ کام کرنے والوں کی محبت اور
"اتفاق" کا ثمر تھی ۔
جو بھی اُس کے پاس جاتا وہ اُسے اُس کی مرضی کی مشینیں ڈھال کر دے دیتا ۔
پھر کیا ہوا ، اُس کے ساتھیوں کی خون پسینے کی کمائی،ملکہ
کے وزیراعظم نے اُس کی جائداد ہتھیا کر ملکہ کے خزانے میں شامل کردی ۔ وہ
بہت رویا ، چلایا ۔ہر عدالت کے دروازے لیکن اُسے معلوم نہ تھا کہ
عدالتیں بہری ، اندھی اور گونگی ہوتی ہیں وہ صرف ملکہ یا وزیراعظم سے
ملنے والی گدگدیاں یا ٹہوکے محسوس کرتی ہیں ۔
تو نوجوانو !
جس
کے خون پسینے کی جائداد ملکہ کے وزیر اعظم نے ہتھیا لی تھی ۔ اُس لوہار
کے بھائی ، بہنیں ، بیٹے اور بیٹیاں، پوتے پوتیاں ، نواسے اور نواسیاں ،
اُسی جائداد سے گذر بسر کرتے تھے ، وہ لوہار دوبارہ 25 سال پہلے کے دور
میں پہنچ گیا جہاں سے وہ امن اور انصاف کی خاطر دوسری ریاست سے ، اِس
ریاست میں آیا تھا ، جو کو مملکتِ خداداد، مشہور کیا گیا تھا ، لوہار نے
بڑی محنت سے پھر کاروباری طبقے میں اپنا دوبارہ اپنا کھویا ہوا وقار حاصل
کرنا شروع کیا۔
اور
آہستہ آہستہ پھر وہ مقام حاصل کرنے کی لگن میں شہد کی مکّھی کی طرح
دوبارہ مصروف ہو گیا ۔جس کا شہد اُس کے بچوں سے چھین کر ہم کھا جاتے ہیں !
تھڑا ہوٹل پر بیٹھی ہوئی نوجوانوں کہ یہ ٹولی ، دم ساھے بوڑھے کی باتیں سن رہی تھی !
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں