شگُفتہ نثر۔ ڈاکٹر عزیز فیصل !
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہماری دادی جان بتا رہی تھیں کہ جب ہم پیدا ہوئے تو فلسفیوں کی طرح سیریس تھے اورباتونی عورتوں کی طرح چپ چاپ تھے۔
سب رشتہ دار حیران ہی نہیں پریشان بھی تھے کہ یہ بچہ روتا کیوں نہیں۔
اب ہم کیا بتائیں کہ ہمیں رلانے کے لئے کون کونسے نسخے آزمائے گئے؟
ہماری ایک سوتیلی خالہ نے تو، بقول شخصے، ہمیں ایک زناٹے دار تھپڑ بھی رسید کیا جبکہ دیگر رشتے داروں نے بھی اسی شدت کے دیگر ہم پلہ ٹوٹکے آزمائے لیکن ہم پھر بھی چیخے نہ چلائے۔
سب کے سب جنگی حربے کم سنی ہی میں جوانوں کی طرح سہے اور چپ ہی رہے۔
اسی نہ رونے کی وجہ سے ہم پیدا ہوتے ہی مشہور ہو گئے۔ ہم نے کچھ بھی نہ کیا لیکن پھر بھی ہمارے نام کے ڈنکے بجنے لگے۔
ہماری لمبی چپ نے ہمیں لمحوں میں مقبول ہی نہیں، قابل رحم بھی بنا ڈالا۔ عزیز، رشتے دار ، بہی خواہ سب کے سب نومولود کا نام پوچھنا بھول گئے اور ہمارے گھر آکر یہی پوچھتے رہے،
" سناو جی بچہ رویا یا نہیں؟ "۔
ہماری دادی جان رو رو کر سب سے کہتی رہیں، " بس جی دعا کرو،دعا کرو"۔
جس نے بھی یہ ماجرا سنا تو پیدائش کی مبارکباد دینے کی آڑ میں ہماری چپ پر تعزیت کرنے آ دھمکا۔
شکر ہے کہ وہ موبائل فون کا زمانہ نہیں تھا ورنہ ہمارے مرحوم و مغفور والدین تو فون کالوں اور ایس ایم ایس کا جواب دیتے دیتے نڈھال ہو جاتے۔ اسی تعزیتی ماحول میں گھنٹوں بیت گئے اور ہم چُپ کے چُپ ہی رہے۔
ہماری چپ توڑنے کو کئی ہتھوڑا گروہ حرکت میں آ گئے۔ ہم مصیبت زدہ تھے ہی نہیں لیکن پھر بھی امدادی کاروائیوں کے مستحق ٹھہرے۔ کسی نے ہمیں کڑوی چیزیں کھلانے پلانے کو کہا تو کسی اور نے گلہ ٹٹول کر ہماری ننھی سانسوں سے چھیڑ خوانی کی۔ کسی نے ہماری بند آنکھوں کو سکس بائی سکس کھول کر دیکھا تو کسی نے ہمارے پیٹ کا آنت بھر دبا تے ہوئے طبی معائنہ کیا۔
ہماری سخت گیر دادی جان ہماری صحتیابی کی امید پر یہ ساری بدسلوکیاں خندہ پیشانی سے سہتی رہیں۔ یہ سفاک نسخے اور جان لیوا ٹونے دھرے کے دھرے ہی رہے کیونکہ ہم تو پھر بھی چُپ ہی رہے۔
ہمیں ہنسانے کی بجائے رلانے پر مائل یا قائل کرنے کو معتددگھریلو ٹاسک کمیٹیاں بن گئیں۔ ہر کمیٹی کا سرغنہ رلانے کی مختلف ترکیبوں پر کمیٹی اراکین سے آزمودہ نسخے طلب کرنے لگا۔ مردو خواتین، بڑے بوڑھے، جوان اور بچے سر جوڑے اس مسئلہ کے حل پر غور کرنے لگے۔
پہلی اولاد نرینہ ہونا بھی کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے اور محبت کا افراط "چوم چوم کر مارنے" کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے لیکن اس کا داراک ہمارے اس معصوم ذہن کو کیا ہوتا جسے مختلف نسخوں سے فرصت ہی نہیں مل رہی تھی۔ یہ علاج معالجہ اس لئے بھی بھیانک تھا کہ ہمیں بیک وقت متضاد حالتوں سے گزارا گیا۔
کسی نے برف سے ہماری آنکھوں کو ٹکورا تو کسی نے گرم ریت کو کپڑے میں رکھ کر ہمارے سر میں سرگرمی لانے کی کوشش کی۔
کسی نے ہمارے ننھے رخساروں کو دائیں بائیں سات اعشاریہ پانچ کی شدت کے جھٹکے دئیے تو کسی نے ہمیں کچھ دیر الٹا لٹکا کر اس کے اثرات کا مشاہدہ کیا۔
کسی نے ہماری آنکھوں کو گلیسرین سنگھائی تو کسی نے ہماری پلکوں کے پاس پیاز کاٹنے کا مطاہرہ کیا۔
کسی نے ہمیں دکھیارا سا گانا سناڈالا تو کسی نے ہمارے کانوں میں لطیفہ سنانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
کسی نے ہمارے کان مروڑے تو کسی نے ہمارے رخساروں پر بوسے دیئے۔
کسی شریر نے ہماری گدگدی کی تو کسی اور نے ہمیں" ہاؤ "کہہ کر ڈرانے کی کوشش کی۔
لیکن ان سب کا نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات کیونکہ ہم سے ہوسکی نہ کوئی بات اور یہ سب تیر اندھیرے ہی میں چلتے رہے اور تباہ کن علاج معالجوں کے باوجودہم چُپ ہی رہے۔
ایک حکیم کو بھی ریسکیو کے طور پر بلایا گیا۔ ہماری "شامت معصومیت" کہ اس نے ہمیں گونگے بہرے بچوں کی قوت گویائی بحال کرنے والے قطرے پلادئیے۔ہم پر کوئی اثر نہ پڑا، چپ کے چپ ہی رہے۔ حکیم جی کو غصہ آ گیا۔
دادی جان ہم پر ہوتا غصہ برداشت نہ کرسکیں اور حکیم جی کو ڈانٹیں پلا کر وہاں سے چلتا کیا،اور اس بات کا عملی ثبوت دیا کہ دادیاں واقعی پوتوں سے دلی محبت کرتی ہیں۔
ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر کو بھی زحمت دی گئی۔ موصوف نے ننھی منی گولیوں والی کئی پٹاریاں کھولیں، سر کو کھجایا اور ہماری سنجیدہ شخصیت کا سرسری مشاہدہ کیا اور یہ کہتے ہوئے تیزی سے باہر چلا گیا کہ یہ بچہ ناقابل علاج ہے۔
ہماری دادی نے تو دھاڑیں مار مار کر آسمان سر پہ اٹھا لیا ، بھلا ہو دادے جان کی بروقت ڈانٹ کا کہ جس نے دادی جان کو فوری طور پرچُپ کرا دیا۔
ہم یہ سب تماشا دیکھتے رہ گئے لیکن لب ذرا سے بھی نہ ہلے اور ہم بدستور چُپ ہی رہے۔ ہماری چُپ نے جادو ٹونے پر یقین رکھنے والے رشتہ داروں کو بھی زبان دے دی۔ انھوں نے اس خاموشی کو جادو قرار دے دیا اور اسے کسی جن کی کارستانی کہنے لگے۔ دادا جان اور دادی جان بھی اس بہکاوے میں آگئے اور فوری طور پر ایک عامل کو بلانے کا حکم دے ڈالا۔ اب خاندان میں کس کی مجال کہ ان بزرگوں سے اختلاف کر سکے۔
ہمارے ابو امی اور دیگر پڑھے لکھے افراد خانہ بھی بادل ناخواستہ عامل بلانے پر آمادہ ہو گئے۔
عامل ایک چھ فٹا ادھیڑ عمر کا میلا کچیلا شخص تھا۔ اس نے سب خاندان کی موجودگی میں عجیب و غریب قسم کا منتر پڑھا اور اپنے نسوار زدہ منہ سے ایک تیز رفتار پھونک ہمارے معصوم منہ پر ماری تو نسوار کی بھینی بھینی خوشبو نے ہماری چیخیں نکال دیں اور اور ہم ڈر کے مارے ہڑ بڑا کر جاگ گئے۔
خواب بھی کیا کیا مناظر دکھا دیتے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ہماری دادی جان بتا رہی تھیں کہ جب ہم پیدا ہوئے تو فلسفیوں کی طرح سیریس تھے اورباتونی عورتوں کی طرح چپ چاپ تھے۔
سب رشتہ دار حیران ہی نہیں پریشان بھی تھے کہ یہ بچہ روتا کیوں نہیں۔
اب ہم کیا بتائیں کہ ہمیں رلانے کے لئے کون کونسے نسخے آزمائے گئے؟
ہماری ایک سوتیلی خالہ نے تو، بقول شخصے، ہمیں ایک زناٹے دار تھپڑ بھی رسید کیا جبکہ دیگر رشتے داروں نے بھی اسی شدت کے دیگر ہم پلہ ٹوٹکے آزمائے لیکن ہم پھر بھی چیخے نہ چلائے۔
سب کے سب جنگی حربے کم سنی ہی میں جوانوں کی طرح سہے اور چپ ہی رہے۔
اسی نہ رونے کی وجہ سے ہم پیدا ہوتے ہی مشہور ہو گئے۔ ہم نے کچھ بھی نہ کیا لیکن پھر بھی ہمارے نام کے ڈنکے بجنے لگے۔
ہماری لمبی چپ نے ہمیں لمحوں میں مقبول ہی نہیں، قابل رحم بھی بنا ڈالا۔ عزیز، رشتے دار ، بہی خواہ سب کے سب نومولود کا نام پوچھنا بھول گئے اور ہمارے گھر آکر یہی پوچھتے رہے،
" سناو جی بچہ رویا یا نہیں؟ "۔
ہماری دادی جان رو رو کر سب سے کہتی رہیں، " بس جی دعا کرو،دعا کرو"۔
جس نے بھی یہ ماجرا سنا تو پیدائش کی مبارکباد دینے کی آڑ میں ہماری چپ پر تعزیت کرنے آ دھمکا۔
شکر ہے کہ وہ موبائل فون کا زمانہ نہیں تھا ورنہ ہمارے مرحوم و مغفور والدین تو فون کالوں اور ایس ایم ایس کا جواب دیتے دیتے نڈھال ہو جاتے۔ اسی تعزیتی ماحول میں گھنٹوں بیت گئے اور ہم چُپ کے چُپ ہی رہے۔
ہماری چپ توڑنے کو کئی ہتھوڑا گروہ حرکت میں آ گئے۔ ہم مصیبت زدہ تھے ہی نہیں لیکن پھر بھی امدادی کاروائیوں کے مستحق ٹھہرے۔ کسی نے ہمیں کڑوی چیزیں کھلانے پلانے کو کہا تو کسی اور نے گلہ ٹٹول کر ہماری ننھی سانسوں سے چھیڑ خوانی کی۔ کسی نے ہماری بند آنکھوں کو سکس بائی سکس کھول کر دیکھا تو کسی نے ہمارے پیٹ کا آنت بھر دبا تے ہوئے طبی معائنہ کیا۔
ہماری سخت گیر دادی جان ہماری صحتیابی کی امید پر یہ ساری بدسلوکیاں خندہ پیشانی سے سہتی رہیں۔ یہ سفاک نسخے اور جان لیوا ٹونے دھرے کے دھرے ہی رہے کیونکہ ہم تو پھر بھی چُپ ہی رہے۔
ہمیں ہنسانے کی بجائے رلانے پر مائل یا قائل کرنے کو معتددگھریلو ٹاسک کمیٹیاں بن گئیں۔ ہر کمیٹی کا سرغنہ رلانے کی مختلف ترکیبوں پر کمیٹی اراکین سے آزمودہ نسخے طلب کرنے لگا۔ مردو خواتین، بڑے بوڑھے، جوان اور بچے سر جوڑے اس مسئلہ کے حل پر غور کرنے لگے۔
پہلی اولاد نرینہ ہونا بھی کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے اور محبت کا افراط "چوم چوم کر مارنے" کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے لیکن اس کا داراک ہمارے اس معصوم ذہن کو کیا ہوتا جسے مختلف نسخوں سے فرصت ہی نہیں مل رہی تھی۔ یہ علاج معالجہ اس لئے بھی بھیانک تھا کہ ہمیں بیک وقت متضاد حالتوں سے گزارا گیا۔
کسی نے برف سے ہماری آنکھوں کو ٹکورا تو کسی نے گرم ریت کو کپڑے میں رکھ کر ہمارے سر میں سرگرمی لانے کی کوشش کی۔
کسی نے ہمارے ننھے رخساروں کو دائیں بائیں سات اعشاریہ پانچ کی شدت کے جھٹکے دئیے تو کسی نے ہمیں کچھ دیر الٹا لٹکا کر اس کے اثرات کا مشاہدہ کیا۔
کسی نے ہماری آنکھوں کو گلیسرین سنگھائی تو کسی نے ہماری پلکوں کے پاس پیاز کاٹنے کا مطاہرہ کیا۔
کسی نے ہمیں دکھیارا سا گانا سناڈالا تو کسی نے ہمارے کانوں میں لطیفہ سنانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
کسی نے ہمارے کان مروڑے تو کسی نے ہمارے رخساروں پر بوسے دیئے۔
کسی شریر نے ہماری گدگدی کی تو کسی اور نے ہمیں" ہاؤ "کہہ کر ڈرانے کی کوشش کی۔
لیکن ان سب کا نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات کیونکہ ہم سے ہوسکی نہ کوئی بات اور یہ سب تیر اندھیرے ہی میں چلتے رہے اور تباہ کن علاج معالجوں کے باوجودہم چُپ ہی رہے۔
ایک حکیم کو بھی ریسکیو کے طور پر بلایا گیا۔ ہماری "شامت معصومیت" کہ اس نے ہمیں گونگے بہرے بچوں کی قوت گویائی بحال کرنے والے قطرے پلادئیے۔ہم پر کوئی اثر نہ پڑا، چپ کے چپ ہی رہے۔ حکیم جی کو غصہ آ گیا۔
دادی جان ہم پر ہوتا غصہ برداشت نہ کرسکیں اور حکیم جی کو ڈانٹیں پلا کر وہاں سے چلتا کیا،اور اس بات کا عملی ثبوت دیا کہ دادیاں واقعی پوتوں سے دلی محبت کرتی ہیں۔
ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر کو بھی زحمت دی گئی۔ موصوف نے ننھی منی گولیوں والی کئی پٹاریاں کھولیں، سر کو کھجایا اور ہماری سنجیدہ شخصیت کا سرسری مشاہدہ کیا اور یہ کہتے ہوئے تیزی سے باہر چلا گیا کہ یہ بچہ ناقابل علاج ہے۔
ہماری دادی نے تو دھاڑیں مار مار کر آسمان سر پہ اٹھا لیا ، بھلا ہو دادے جان کی بروقت ڈانٹ کا کہ جس نے دادی جان کو فوری طور پرچُپ کرا دیا۔
ہم یہ سب تماشا دیکھتے رہ گئے لیکن لب ذرا سے بھی نہ ہلے اور ہم بدستور چُپ ہی رہے۔ ہماری چُپ نے جادو ٹونے پر یقین رکھنے والے رشتہ داروں کو بھی زبان دے دی۔ انھوں نے اس خاموشی کو جادو قرار دے دیا اور اسے کسی جن کی کارستانی کہنے لگے۔ دادا جان اور دادی جان بھی اس بہکاوے میں آگئے اور فوری طور پر ایک عامل کو بلانے کا حکم دے ڈالا۔ اب خاندان میں کس کی مجال کہ ان بزرگوں سے اختلاف کر سکے۔
ہمارے ابو امی اور دیگر پڑھے لکھے افراد خانہ بھی بادل ناخواستہ عامل بلانے پر آمادہ ہو گئے۔
عامل ایک چھ فٹا ادھیڑ عمر کا میلا کچیلا شخص تھا۔ اس نے سب خاندان کی موجودگی میں عجیب و غریب قسم کا منتر پڑھا اور اپنے نسوار زدہ منہ سے ایک تیز رفتار پھونک ہمارے معصوم منہ پر ماری تو نسوار کی بھینی بھینی خوشبو نے ہماری چیخیں نکال دیں اور اور ہم ڈر کے مارے ہڑ بڑا کر جاگ گئے۔
خواب بھی کیا کیا مناظر دکھا دیتے ہیں۔
٭٭٭٭٭واپس ٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں