Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 11 دسمبر، 2018

شگُفتگو - ک سے کوفتہ ۔۔ف سے فالودہ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
        اسلام آباد کی ایک سہانی شام میں بزم متاثرین میں آج ہم کوفتے اور فالودے کا نفسیاتی تجزیہ کریں گے۔ پھر اسکے بعد اس کے بخیے ادھیڑیں گے  پھر باتوں کے ساتھ بالوں کی بھی کھال اتاریں گے۔
 مانا ہوا سچ ہے کہ ہم خواتین کوفتے پکانے کے ساتھ ساتھ باتوں کے بگھار لگانے میں بھی ماہر ہوتی ہیں البتہ یہ نہ پوچھیئے گا کہ بھلا کوفتے میں بال کہاں سے آئے؟
  کوفتہ تو خود بال ہوتا ہے اور انگلش میں اسے meat ball ہی کہتے ہیں۔
کوفتے کا نام سنتے ہی ہمارے کانوں میں پانی آجاتا ہے۔ معاف کیجیے ہم دو باتوں کو خلط ملط کر گئے ہیں۔پہلی بات یہ کہنا چاہی تھی کہ ہمارے کانوں میں مشہور مزاح گو شاعر انور مسعود صاحب کا نام گونجنے لگتا ہے جن  کی مقبول عام نظم" کوفتہ "ہے جسے وہ ہر مشاعرے میں لازمی سناتے ہیں اور سننے والے بار بار کوفت زدہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔
دوسری بات یہ تھی کہ کوفتے کا نام سنتے ہی منہ میں پانی بھر آتا ہے۔ کوفتے یوں بھی ہماری پسندیدہ ڈش ہیں۔ سادہ کوفتے کا سالن، آلو کوفتے کا سالن، انڈوں اور کوفتوں کا سالن، بیف کے سوا چکن کوفتوں کا سالن اور سب سے بڑھ کر نادر و شاہی پکوان نرگسی کوفتے جن کو قبولیت خاص کا درجہ حاصل ہے، اس کی وجہ نام سے ہی ظاہر ہے۔


انور مسعود صاحب نے اپنی نظم میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ کوفتہ بنانے والے، بلکہ والیاں، بڑی محنت کرکے پہلے تو گوشت کا قیمہ بناتے ہیں پھر اس قیمے کو دوبارہ ٹھوس شکل میں لے کر آتے ہیں ۔اس قسم کی حیرتوں کا ہم تو اکثر ہی شکار ہوتے ہیں۔ جیسے ماں باپ اپنے بیٹوں کو پال پوس کر بڑی محنت سے آدمی بناتے ہیں اور پھر وہی اسے ایک عورت کے حوالے کردیتے ہیں جو اسے بے وقوف بناتی ہے۔ ویسے یہ خواتین کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کو جو ان کی ذاتی ملکیت ہوتا ہے،  مرغا بنائیں یا گدھا  اور پھر اس کا قیمہ بنائیں یا کوفتہ بنائیں۔ 
ہنسنے کی بات نہیں ہے اگر آپ غور سے سوچیں گے تو پتہ چلے گا کہ شادی کے کچھ ہی عرصے کے بعد کوئی بھی شریف آدمی شریف تو رہ جاتا ہے آدمی نہیں رہتا۔ بیوی کی لگاتار فرمائشوں کی کوفت، اسے کوفتے میں تبدیل کردیتی ہے اور بیچارے کی کوفتے جیسی شکل نکل آتی ہے۔ بہر حال اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ ادھر ادھر شادی شدہ لوگوں کو دیکھنا شروع کردیں اور پھر ان کی شکل پر کوفتے تلاش کریں، کیونکہ پکوڑے تو بہت سے چہروں پر نظر آجاتے ہیں مگر کوفتوں کو دیکھنے کے لیے خاص نظر چاہیے۔ 
واصف علی واصف کا قول زریں ہے کہ "مقامات صبر تو مقامات شکر بنانا خوش نصیبوں کا کام ہے"۔
چند کوفت زدہ شوہروں کی قسم ایسی بھی ہے جو ان فرمائشوں کو پورا کرنے کی سکت رکھیں نہ رکھیں لیکن ظرف بھی نہیں رکھتے۔

ایک شیخ صاحب اپنے دیرینہ دوست کو بتا رہے تھے۔۔۔یار تمہاری بھابھی بہت فضول خرچ عورت ہے۔ روز مجھ سے رقم مانگتی ہے کبھی دو ہزار کبھی پانچ ہزار ۔۔۔۔آج تو حدہی ہو گئی صبح صبح  ناشتے کے دوران دس ہزار مانگ لیے ۔۔۔اکھٹے دس ہزار۔۔۔۔سارا ناشتہ برباد ہوگیا اور میں کوفت زدہ نکل آیا۔
دوست سے حیرانگی سے پوچھا ۔.اتنی رقم بھلا کیا کرتی ہے بھابھی؟
  پتا نہیں یار! میں نے بھی کون سا کبھی دیئے  ہیں۔ "
 انور مسعود کے علاوہ دلاور فگار نے بھی کوفتوں پہ خامہ فرسائی فرمائی ہے۔ لیکن فالودے جیسی عوامی ڈش پر ہمیں ڈھونڈے سے کچھ کلام نہ مل سکا ہے۔ چونکہ اب یہ حقوق کی جنگ ہے۔ عوام کی پسند کو اظہار کا راستہ ملنا چاہیے۔ ان کو اردو ادب میں ممتاز مقام دینا ہمارا فرض ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر عزیز فیصل صاحب سے استدعا کی جاتی ہے اب کے اس جانب ضرور توجہ کیجیے ۔
بات فالودے کی بھی کرنی پڑے گی ۔ورنہ متاثرین، ٹیکنیکل بنیادوں پر ہمیں ناک آؤٹ کردیں گے۔ ویسے تو ہمارے بزرگ، جن میں بڑے بھائی بہن، ٹیچرز، مولوی صاحبان، محلے والے سب ہی شامل ہیں، ساری زندگی ہمیں ناک آؤٹ، کان آؤٹ اور ہونٹ آؤٹ کرتے ہی آئے ہیں۔ مگر وطن میں اس اجنبی شہر میں کسی بھی قسم کا آؤٹ ہونا ہمیں وارا نہیں کھاتا اس لیے ہم بات کرتے ہیں۔ ورنہ!!!
حالات ملک کے ایسے تھے۔۔۔۔ ایسے ہی ہیں۔۔اور ایسے ہی رہیں گے۔۔چند لوگ اٹھ کر سب کو کوفت میں ضرور ڈالتے ہیں لیکن پرسکون حالات میں جینے والی قوم کو تبدیلی لانا یا تبدیلی کے لیے اٹھنا بہت کوفت میں مبتلا کرتا ہے۔۔۔۔۔
فالودے کے بارے میں سب سے پہلے یہ تحقیق کرنی پڑے گی کہ یہ مائع ہے یا ٹھوس۔ جو لوگ اسے مائع کہتے ہیں وہ ہاتھ اٹھائیں۔ ٹھیک ہے، ورنہ اندیشہ اس بات کا ہے کہ مائع اور ٹھوس گروپوں کے درمیان کہیں جنگ و جدل نہ شروع ہوجائے اور ہم تاریخ کے اس نازک موڑ پر کسی قسم کا خون خرابہ برداشت نہیں کرسکتے۔ مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو فالودے جیسی نازک مخلوق کو ٹھوس کہنے کی جرات کرسکتے ہیں۔ انہوں نے شائد ٹھوس چیزیں دیکھی نہیں ہیں۔ انہوں نے شائد ٹھوس دلائل بھی کبھی نہ دیکھے ہوں گے۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ دنیا کی سب سے ٹھوس دلیل ڈنڈا ہوتا ہے۔ وطن عزیز میں ہر میدان میں ہر دلیل کا جواب یہی ڈنڈا ہے۔ 

فالودے کا نام اتنا ہی پیچیدہ ہے جنتا فالودہ خود ہے۔ اس نام کو سنتے ہی سب سے پہلے تو 'follow' کا لفظ ذہن میں گونجتا ہے، پھر "لوُ " کا خیال آتا ہے، پھر آلودہ کا لفظ سامنے آتا ہے۔ اور جتنا اس کا نام پیچیدہ ہے اتنا ہی اس کو کھانے کا کام بھی پیچیدہ ہے یعنی ایک تو آپ کو اس کے لچھوں کو فالو کرنا پڑتا ہے جو چمچے کی گرفت میں آنے سے ویسے ہی انکار کردیتے ہیں جیسے ووٹر امیدواروں کے پھندے میں پھنسنے سے مکر جاتے ہیں اور سائیکل والوں سے مال کھا کر شیر کو آشیرباد دے آتے ہیں۔
 فالورز سے یاد آیا۔۔۔۔فیس بک پر مقبولیت کی دلیل ہی فالوروز کی تعداد ہے۔
اللہ معاف کرے پانچ دس ہزار فالورز تو کوئی بات ہی نہیں۔
کچھ مقبول عام شخصیات کے 25 ہزار فالورز ہوتے ہیں۔
 اوہو بات پھر کہیں نکال گئی واپس آتے ہیں فالودہ پر ۔
جدھر مینڈک کے انڈوں جیسا تخم بالنگہ جو لُو کے موسم میں گرمی کو دور کرتا ہے منہہ سے پھسل پھسل جاتا ہے اور ساتھ ساتھ قلفی بھی آپ کے کپڑوں کو آلودہ کرتی جاتی ہے۔ بلکہ میرا تو ذاتی اور بڑی حد تک بدذاتی خیال یہ ہے کہ فالودہ کا لفظ "فیر آلودہ"سے ہی نکلا ہے۔

اب ہم کوفتے اور فالودے کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ:

 کوفتہ نمکین ہے اور فالودہ میٹھ۔

کوفتہ ٹھوس ہے اور فالودہ پلپلا۔
کوفتہ گول ہے اور فالودہ لمبا۔
 کوفتہ گرم ہے اور فالودہ ٹھنڈا۔
 کوفتہ سورج ہے اور فالودہ چندا۔
 لیکن ان دونوں میں اتنا ہی فرق ہونے کے باوجود جتنا تیر اور شیر میں ہے دونوں کی جوڑی ہے بہت خوب، اور ہمارا مطالبہ ہے کہ ڈائننگ ٹیبل کی کابینہ میں دونوں کی نمائندگی ہونی چاہیے اور اس سلسلے میں ہمارا نعرہ ہے.....
KOFTA FOLLOWED BY FALOODA


(حبیبہ طلعت)
٭٭٭٭٭٭واپس  ٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔