Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 9 مئی، 2017

وہ کیسی عورتیں تھیں؟

جو گیلی لکڑیوں کو پھونک کے ،چولھا جلاتی تھیں

جو سِل پر سرخ مرچیں پیس کر، سالن پکاتی تھیں
صبح سے شام تک مصروف ،لیکن مسکراتی تھیں
بھری دوپہر میں سر اپنا ڈھک کر،ملنے آتی تھیں
جو دروازے پہ رک کر،دیر تک رسمیں نبھاتی تھیں
 پلنگوں پر نفاست سے، نئی چادر بچھاتی تھیں
بصد اسرار مہمانوں کو،سرہانے بٹھاتی تھیں
دعائیں پھونک کر بچوں کو، جو بستر پر سلاتی تھیں
کوئی سائل جو دستک دے، اسے کھانا کھلاتی تھیں
وہ کیسی عورتیں تھیں ؟
جو رشتوں کو برتنے کے، کئی نسخے بتاتی تھیں
 محلے میں کوئی مر جائے تو، آنسو بہاتی تھیں
کوئی بیمار پڑ جائے، تو اُس کے  پاس جاتی تھیں
کوئی تہوار ہو تو خوب، مل جل کر مناتی تھیں
وہ کیسی عورتیں تھیں ؟
 اُنھیں میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں ،گلیوں اور مکانوں میں
کسی میلاد میں، جزدان میں، تسبیح کے دانوں میں
کسی برآمدے کے طاق پر، باورچی خانوں میں
مگر اپنا زمانہ ساتھ لےکر،کھو گئی ہیں وہ
کسی اک قبر میں ساری کی ساری، سو گئی ہیں وہ
 وہ کیسی عورتیں تھیں ؟

1 تبصرہ:

  1. یہ نظم شاعرہ اسنی بدر کی ہے جو ان کے شعری مجموعے منظر نامہ میں شامل ہے اور یہ کتاب ریختہ پر موجود ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔