اٹھائیس ستمبر 2021کو دن دس بجے اسلام آباد کے نواحی علاقے کے ایک مکان میں تین خواتین داخل ہوتی ہیں اور ’ڈینگی سروے‘ کا کہہ کر معمر خاتون خانہ سے ان کے صحافی بیٹے سے متعلق سوالات کرتی ہیں۔
گفتگو کی آواز سے مکان کے ایک کمرے میں سوئے صحافی کی آنکھ کھل جاتی ہے اور وہ اجنبی خواتین سے آنے کا مقصد دریافت کرتے ہوئے ان کی شناخت کا ثبوت طلب کرتے ہیں، جس پر وہ خواتین رخصت ہو جاتی ہیں۔
’ڈینگی سروے سے منسلک‘ خواتین جس مکان میں آتی ہیں، وہ اسلام آباد کے سینیئر صحافی رانا ابرار خالد کا ہے، جنہوں نے معلومات تک رسائی کے حق کے قانون (Right of Access to Information Act, 2017) کے تحت وزیراعظم عمران خان کو غیر ملکی شخصیات کی جانب سے ملنے والے تحائف کی تفصیلات طلب کر رکھی ہیں۔
کارکن صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں نے رانا ابرار کے گھر ڈینگی سروے کے بہانے آنے والی خواتین کی آمد کے واقعے کو صحافی کو ہراساں کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس (آر آئی یو جے) نے سینیئر صحافی کو مبینہ طور پر خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے ہراساں کرنے کی مذمت کرتے ہوئے ایسے ہتھکنڈوں کو ناپسندیدہ اور غیر ضروری گردانا، اور ملوث سرکاری اہلکاروں کے خلاف انکوائری کا مطالبہ کیا۔
رانا ابرار نے ا بتایا کہ اجنبی خواتین نے اپنا تعارف اسلام آباد کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) سے منسلک ڈینگی سروے ٹیم کی حیثیت سے کروایا، تاہم وہ اپنی شناخت کا کوئی ثبوت پیش نہ کرسکیں۔
بقول رانا ابرار: ’وہ میری والدہ سے عجیب قسم کے سوالات پوچھ رہی تھیں، جو میرے روزانہ کے معمولات اور سیاسی وابستگی سے متعلق تھے، جن کا کسی بھی طرح ڈینگی سروے سے تعلق نہیں تھا۔‘
دوسری جانب این آئی ایچ کے ایک سینیئر ڈائریکٹر نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ان کے ادارے کی طرف سے کوئی ڈینگی سروے نہیں کروایا جا رہا اور نہ ہی صحافی کے گھر کسی ٹیم کو بھیجا گیا ہے۔
رانا ابرار خالد نے گذشتہ سال نومبر میں سیکریٹری کیبنٹ ڈویژن سے ایک درخواست کے ذریعے توشہ خانہ میں موجود وزیراعظم عمران خان کو 18 اگست 2018 سے 13 اکتوبر 2020 کے دوران غیر ملکی شخصیات کی جانب سے ملنے والے تحائف کی تعداد، ان کی تفصیلات و تصریحات، وزیراعظم نے جو تحائف اپنے پاس رکھے ان کی تعداد و تفصیلات بمعہ ماڈل نمبر وغیرہ اور قیمت (مارکیٹ ویلیو)، وزیراعظم نے ان تحائف کے بدلے کتنی رقم قومی خزانے میں جمع کروائی اور جس بینک اکاؤنٹ اور بینک میں یہ رقم جمع کروائی گئی، ان کی تفصیلات طلب کی تھیں۔ حکومتی اہلکاروں کو غیر ملکی شخصیات کی طرف سے ملنے والے تحائف توشہ خانہ میں جمع کروائے جاتے ہیں اور حکومتی اہلکار ایک مخصوص رقم ادائیگی کرکے ان میں سے کوئی تحفہ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔
تاہم وفاقی سیکریٹری کیبنٹ ڈویژن نے رانا خالد کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سوالات کے جواب دینے سے انکار کر دیا تھا۔
اس سلسلے میں وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ 1992 میں توشہ خانہ سے متعلق بنائے گئے قواعد و ضوابط کے تحت حکومت یہ معلومات فراہم کرنے کی پابند نہیں ہے۔
چوہدری فواد حسین کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو غیر ملکی سربراہان مملکت و حکومت اور دوسری اہم شخصیات کی طرف سے ملنے والے تحائف کی تفصیلات ظاہر کرنے سے دو طرفہ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض غیر ملکی شخصیات بھی نہیں چاہتیں کہ وزیراعظم کو دیے گئے تحائف کی تفصیلات منظرعام پر آئیں، کیونکہ اس سے افواہیں پھیل سکتی ہیں، جس سے غیر ضروری پیچیدگیاں پیدا ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف حکومت نے توشہ خانہ سے متعلق قواعد و ضوابط کو مزید سخت بنایا ہے اور اب کوئی تحفہ حاصل کرنے کے لیے اس کی قیمت کا 50 فیصد حکومتی خزانے میں ادا کرنا لازمی ہے۔
رانا ابرار کے مطابق انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو تحفہ دینے والی کسی غیرملکی شخصیت کا نام طلب نہیں کیا بلکہ صرف تحائف کی تفصیلات کے لیے درخواست جمع کروائی ہے، معلومات نہ دینے سے افواہیں پھیلنے کا زیادہ امکان رہتا ہے نہ کہ معلومات کو عوام تک پہنچانے سے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے انکار کے بعد رانا ابرار نے معلومات تک رسائی کے حق سے متعلق قانون کے تحت قائم اپیلیٹ فورم پاکستان انفارمیشن کونسل میں درخواست دائر کی، جو کونسل نے منظور کرتے ہوئے معلومات کی فراہمی 10 دن میں یقینی بنانے کی ہدایت کی۔
تاہم وفاقی حکومت نے پاکستان انفارمیشن کونسل کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی، جس کی آئندہ سماعت 13 اکتوبر کو ہونا ہے۔
پاکستان میں صحافتی آزادی پاکستان میں حکومت تو ہر حکومت صحافیوں کو مکمل آزادی دینے کے دعوے کرتی رہی ہے لیکن خود صحافی حالات سے مطمئن نہیں۔ فریڈم نیٹ ورک پاکستان میں صحافیوں کو درپیش خطرات کی جانچ کرتا ہے، اس کے مطابق مئی 2020 سے اپریل 2021 کے دوران صحافیوں کو درپیش خطرات اور حملوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے اور صرف ایک سا ل کے دوران 148 ایسے واقعات ہوئے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلی کہانیاں :۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں