Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 14 اکتوبر، 2019

اگر آپ نے:

٭اگر آپ نے:
گولی والی بوتل پی ہوئی ھے،
ریڑھی سے تازہ لچھے بنوا کر کھائے ہوئے ہیں،
کپڑے کا بستہ استعمال کیا ہوا ہے،
 رات کے وقت کالا دھاگہ باندھ کر لوگوں کے گھروں کی کنڈیاں "کھڑکائی" ہوئی ہیں ،
بنٹے کھیلے ہوئے ہیں،
سائیکل کے ٹائر کو چھڑی کے ساتھ گلیوں میں گھمایا ہوا ھے،
استاد سے مار کھائی ہوئی ھے،
ریاضي کا مسئلہ اثباتی حل کیا ہوا ھے،
عاد اعظم نکا لے ہوئے ہیں،
پٹھو گرم کھیلے ہوئے ہیں،
سکول کی آدھی چھٹی کا لطف اٹھایا ہوا ھے،
تختی کو گاچی لگائی ہوئی ھے،
گھر سے آٹا لے جا کر تنور سے روٹیاں لگوائی ہوئی ہیں،
سکول کی دیوار پھلانگی ہوئی ھے،
میلے میں تین دن تک سائیکل چلتی دیکھی ھے،
کتاب کے لیے ابا جی سے پیسے لیکر عمران سیریز خریدی ہوئی ھے،
بارات میں پیسے لوٹے ہوئے ہوں،
کسی دشمن کی دیوار پر کوئلے سے بھڑاس نکا لی ہو،
رسی لپیٹ کر لاٹو چلایا ہو،
گھر کی چھت پر مٹی کا لیپ کیا ہو،
گرمیوں میں چھت پر چھڑکاؤ کیا ہو،
جون جولائی کی تپتی دوپہر میں گلی ڈنڈا کھیلا ہو،
پھولوں کی کڑھائی والے تکیے پر سنہرے خواب دیکھے ہوں ،
گھر کے کسی کونے میں خوش آمدید لکھا ھے،
غلے میں پیسے جمع کیے ہوئے ہیں،
سائیکل پر لڑکیوں والے تانگے کا پیچھا کیا ہوا ھے،
لالٹین میں مٹی کا تیل بھروایا ھے،
ہاتھ والا نلکا چلا کر بالٹیاں بھری ہیں،
یسو پنچو کھیلا ھے،
ہوائی چپل میں "ودریاں" ڈلوائی ہوئی ہیں،
تختی کے لیے بازار سے قلم خرید کر اسکی نوک بلیڈ سے کاٹ کر درمیاں میں ایک کٹ لگایا ھے،
خوشخطی کے لیے مارکر کی نب کاٹی ھے،
ہولڈر استعمال کیا ھے،
زیڈ اور جی کی نب خریدی ھے،
فلاوری انگلش لکھی ھے،
گھی کے خالی "پیپے" کو تار سے باندھ کر لوکل گیزر کا لطف لیا ھے،
سر پر تیل کی تہہ اور سرما لگا کر خوبصورت لگنے کی کوشش کی ھے، 
رف کاپی استعمال کی ھے،
کھلی لائنوں والا دستہ خرید کر اس پر اخبار چڑھایا ھے،
مرونڈے کی لذت سے سرشار ہوئے ہیں،
کلاس میں مرغا بنے ہیں،
ہمسائیوں کے گھر سے سالن مانگا ھے،
مہمان کی آمد پر خوشیاں منائي ہیں،
سائیکل کی قینچی چلائي ھے،
والد صاحب کی ٹانگیں دبائی ہیں،
سردیوں میں ماں کے ہاتھ کا بنا سویٹر پہنا ھے،
چھپ چھپ کر سگرٹوں کے سوٹے لگائے ہیں،
کاغذ کے اوپر کیل اور لوہ چون رکھ کر نیچے مقناطیس گھمانے کا مزا لیا ھے،
محلے کے لڑکوں کے ساتھ مل کر پانچ وقت نماز کے منصوبے بنائے ہیں، 
صبح سویرے ڈول پکڑے گوالے سے دودھ لینے جاتے رھے ہیں،
 برفی کا سب سے بڑا ٹکڑا باوجود گھورتی نظروں کے اٹھانے کی جسارت کی ھے،
لاٹری میں کنگھی نکلی ھے،
رات کو آسمان کے تارے گنے ہیں،
سائیکل پر نئی گھنٹی لگوائی ھے،
زکام کی صورت میں آستینوں سے ناک پونچھی ھے، 
ڈیموں(بھڑ) کو دھاگا باندھ کر اڑایا ہوا ھے،
شہد کی مکھیوں کے چھتے میں پتھر مارا ہوا ھے،
مالٹے کے چھلکے دبا کر اس سے دوستوں کی آنکھوں پر حملہ کیا ہوا ھے،

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نائٹ رائیڈر، ایئر وولف سیریز دیکھی ہوئی ھے،
ایک روپے کے نوٹ پر پٹرول لگا کر وی سی آر کا ہیڈ صاف کیا ہوا ھے،

شب برات پر مصالحہ لگی "چچڑ" سمینٹ والی دیوار سے رگڑی ہوئی ھے،
دو روپے والا نیلا نوٹ استعمال کیا ہوا ھے،

جمعرات کو پی ٹی وی پر اردو فلم دیکھی ہوئي ھے،
سہ پہر چار بجے "بولتے ہاتھ" دیکھا ہوا ھے،
پی ٹی وی پر کشتیاں دیکھی ہوئي ہیں،
چھت پر چڑھ کر انٹینا ٹھیک کیا ہوا ھے،
بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی دیکھا ہوا ھے،
اپنے لینڈ لائن فون کو لکڑی کے باکس میں تالا لگا کر بند کیا ہوا ھے،
نیشنل کے ٹیپ ریکارڈر پر "شادمانی شادمانی " سنا ہوا ھے،
پانی کے ٹب میں موم بتی والی کشتی چلائی ہو،
سرکاری ہسپتال سے اپنی ذاتی بوتل میں کھانسی والی دوائی بھروائی ہو،
سردیوں میں رضائی میں گھس کر ڈراؤنے قصے سنے ہوں،
سرکٹے انسان کی افواہیں سنی ہوں،
کھڑکھڑاتے ریڈیو پر سیلاب کی تازہ صورتحال ستی ہو،
 سمیع اللہ کو ہاکی کے میدان میں قومی نشریاتی رابطے پر فتح سے ہمکنار ہوتے دیکھا ہو،

پینٹ پہن کر محلے والوں کی طنزیہ نظروں کا سامنا کیا ہو،
ٹی وی پر غلاف چڑھایا ھے،
ایک روپے میں کریم کی خالی شیشی ری فل کروائی ھے،
لڈو کھیلتے ہوئے انتہائی خطرناک موقع پر تین دفعہ چھ آیا ھے،
ڈھیلی تیلیوں والی ماچس استعمال کی ھے،

ون ٹین کیمرہ استعمال کیا ھے،
ٹچ بٹن والی شرٹ پہنی ھے،
اپنے گھر کی سفیدی کی ھے،
آگ میں کاغذ جلائے ہیں،
بالٹی میں آم ٹھنڈے کر کے کھائے ہیں،

گندھے ہوئے آٹے کی چڑی بنائی ھے،
الارم والی گھڑی کے خواب دیکھے ہیں،
بلی مارکہ اگر بتی خریدی ھے ،

 امتحانوں کی راتوں میں " گیس پیپرز" کے حصول کے لیے دوستوں کے گھروں کے چکر کاٹے ہیں،
قائد اعظم کے چودہ نکات چھت پر ٹہل ٹہل کر یاد کیے ہیں ،
 چلوسک ملوسک، عمرو عیار، چھن چھنگلو، کالا گلاب اور عنبر ناگ ماریا کی کہانیاں پڑھی ہیں،
 فرہاد علی تیمور سے متاثر ہو کر موم بتی کو گھور گھور کر ٹیلی پیتھی حاصل کرنے کی کوشش کی ھے،

سردیوں کی تراویح میں پنکھے چلا کر مسجد سے فرار ہوئے ہیں،
 اور صبح سویرے گلی میں کسی کے درود شریف پڑھتے ہوئے گزرنے کی آواز سنی ھے اسکا ایک ہی مطلب ھے کہ اب آپ بوڑھے ہو رھے ہیں۔
 کیونکہ یہ ساری چیزیں اسوقت کی ہیں جب زندگیوں میں عجیب طرح کا سکوں ہوا کرتا تھا لوگ ہنسنے اور رونے کی لذت سے آشنا تھے لڑائی کبھی جنگ کا روپ نہيں دھارتی تھی۔ رشتے اور تعلقات جھوٹی انا کے مقابل طاقتور تھے تب غریب کوئی بھی نہیں ہوتا تھا کیونکہ سب ہی غریب تھے۔ مجھے فخر ھے کہ میرا تعلق اس دور سے ھے جب نہ کسی کے پاس موبائل تھا نہ کوئی اپنی لوکیشن شیئر کر سکتا تھا لیکن سب رابطے میں ہوتے تھے سب کو پتا ہوتا تھا کہ اس وقت کون کہاں ھے کیونکہ سب کا نیٹ ورک ایک ہوتا تھا
جہاں بہت کچھ آیا وہاں بہت کچھ انمول  کھو بھی دیا.افسوس
٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔