Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 11 ستمبر، 2020

ایتھوپیا - متحدہ ہندوستان کے کھانے اور عدیس کے دال سیو

بوڑھے کو ایتھوپیا جانے کا اتفاق ہوا ، جہاں 200 سال سے رہنے والے   ھندوؤں کا معلوم ہوا ۔ یہ اپنے انگریز آقاؤں کی چاکری میں یہاں آئے اور پھر یہاں ہی بس گے اور تو اور اپنے رشتہ داروں کو بھی بلا لیا - 
گوکہ اب ،  ہندوستان سے صرف واجبی سا تعلق ہے  لیکن یہ تعلق ایک مضبوط رسی سے جڑا ہوا ہے ، اور یہ رسی ہندوستان سے آنے والے  مختلف ملازمین کی ہے ۔ جو اِنہیں اپنے باپ داداؤں یا نانا نانیوں کے علاقوں کی خبربتاتے ہیں اور اِس کے علاوہ ہندوستان کے مصالحہ جات  اور وہاں پکنے والے کھانوں   کے تمام  ذائقے ، عدیس ابابا کے ہندوستانی ریستوران میں دستیاب ہیں ، جنہیں ہندوستان سے آئے ہوئے خانساماں بناتے ہیں ۔
عدیس گردی کے دوران  بوڑھے کا کئی ہندوستانی ریستوران میں جانے اور کھانے کا اتفاق ہوا  ، لیکن رہائش کے نزدیک ،" جیول آف انڈیا "  کے خانساماں یادیو شنکر  ، کی ہاتھ کی لذت  اب بھی یاد ہے ۔ 
گو کہ یہاں کی مٹھائیوں  اور پاکستان کی مٹھائیوں میں زیادہ فرق نہیں ، لیکن، نمکین میں   سیو ، چیوڑہ ، مونگ کی دال اور مکس دالی سیو   کا جواب نہیں - واپسی پر آتے ہوئے بڑھیا نے 4 کلو دال سیو پاکستان لانے کے لئے منگوا لئے ۔ اب بوڑھا پریشان  کہ امارات ائر لائن نے 35 کلو فی فرد سے سا مان 20 کلو کر دیا  ، بڑھیا کے کپڑوں کے علاوہ تحائف کا وزن   35 کلو بنتا تھا ۔ اب کیا کیا جائے ؟
خیر بڑھیا ایک کلو دال سیو  لانے میں کامیاب ہوگئی ۔   یہاں نہ تہذیب کے ، نہ شکار پوری کے اور نہ ہی کسی کے دال سیو ، یادیو  شنکرکے ہاتھ کے بنے ہوئے دال سیو کا مقابلہ کرسکتے ہیں ۔
 بڑھیا کو یہی دُکھ کیوں نہ وہ بوڑھے کی تین کلو کافی چھوڑ آتی جو کسی نہ کسی سے بعد میں منگوائی جا سکتی تھی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
حیدرآباد دکن والوں کا ذوق ِ  خورد و نوش اور مہمان نوازی ‎ نواب محمود آباد کا ذوق ِ  خورد و نوش  اپنی وسعت میں ضرب المثل تھا -  اُن کے مطبخ میں 102اقسام کے پکوان تیار ہوتے تھے ۔
 نواب صاحب بھوپال کب کسی سے کم تھے ۔ ان کے خانساماں نے نئے  تجربوں کے ساتھ خوش ذائقہ ، خوش رنگ اور خوشبودار پکوانوں کی فہرست کو 148 پکوانوں تک پہنچایا ۔
  ‎ناشتے میں نان ورقی ، نان پنیری ، مونگ کی کھچڑی، چرونجی کی کھچڑی ، انڈے نیم برشت ، گردہ پالک ، نہاری ، پایہ زبان ، قیمہ ، اچار ، پاپڑ ، پھریری ماش کی دال ، تِل اور پودینے کی چٹنی ، مسور کی کھڑی دال تو ایسی کہ ترشے ہوئے پکھراج ، اسی لئے تو مثل مشہور ہوئی کہ یہ منہ اور مسور کی دال ۔ البتہ مونگ کی دال کا رواج نہ تھا کہ یہ پرہیزی کھانوں میں استعمال ہوتی تھی ۔ 
کباب تو صدیوں سے رائج ہیں لیکن حیدرآباد کی پسند ، ٹٹی کے کباب ، کباب بازاری ، طاس کباب ، برق کباب ، کباب چالکی ، کباب گولر ، جگر کباب ، کباب خطائی ، کباب اکبری ، پتھر کا گوشت ، شامی کباب ، شکم پور ، پسندہ کباب ، پتیلی کباب ، چاپ کباب ، کباب گورک ، کباب ماہی ، کباب ماہی سالم (گل دم)، جھینگوں کے کباب-
 مرغ مسلم ، بھیڑ مسلم ، سالم ران بھونی ہوئی بہت پسندیدہ تھے ۔ 
حیدرآبادی سالن اپنے ذائقے میں منفرد تھے ۔ خاص طور پر آصفیہ دوپیازہ ، آسمان جاہی دوپیازہ ، بھنا گوشت ، گردہ سینہ مغلئی ، کلیجی کا سالن ، اچاری گوشت ، ہری مرچ کا دوپیازہ ، کوفتہ ، آلو کا قورمہ ، سہ منی قورمہ ، شب دیگ شلغم ، مرغ کا قورمہ ، مرغ مغلئی ، ماہی قلیہ آصفجاہی ، ماہی قلیہ آسمان جاہی ، چمکورہ کا قلیہ ، چُگر گوشت ، بھنڈی گوشت ، بھنڈی کا قلیہ ، قیمہ آسمان جاہی ، مچھلی کا قورمہ ، مچھلی تلی ہوئی ، مچھلی کے کوفتے ، جھینگے کا سالن ، انڈوں کا خاگینہ ، خاگینہ سبزی ، مشہور عالم بگھارے بیگن ، پچمڑہ ، مٹر پنیر ، ملونی ترکاری ، دال گوشت ، کچی املی کا دالچہ ، ارہر کی دال محبوب پسند ، دم کی دال آسمان جاہی ، ٹماٹر کا کٹ ، کچے گوشت کے کوفتوں اور ابلے انڈوں کے ساتھ بورانی ، رائتہ آلو ۔ بریانی تو تھی ہی حیدرآباد پر تمام ۔
 بقول پروفیسر آغا حیدر حسن مرحوم 
"بریانی ہے اس شہر پرتمام کہ جیسا ذائقہ یہاں کے الٹے ہاتھ کے پکائے میں آوے سو کسی اور شہر کے دہنے ہاتھ کے پکائے میں نہ آئے" ۔ 
سو حیدرآباد میں کئی اقسام کی بریانی کا رواج تھا مثلاً ، رومی بریانی ، خام بریانی ، دلہن بریانی ، بریانی دوپیازہ ، مجبوبی بریانی ، شانہ بریانی ، مرغ بریانی ، مچھلی بریانی ان کے علاوہ قبولی اور ترکاری کی بریانی کا ذائقہ اور تھا۔ 
یہ سب اپنی جگہ لیکن مٹی کے ہانڈی میں پکی کھٹی دال جس پر رائی زیرہ سرخ مرچ کا تڑکہ دیا جاتا تو محلہ محلہ بگھار کی خوشبو پھیل جاتی ۔
کرڑ کا تیل اور مونگ پھلی کا تیل صرف بگھارے بیگن اور اچار میں استعمال ہوتا تھا ۔
 انباڑے کی بھاجی اور اسکے ہم وزن ہری مرچ پاؤ بھر لہسن نہ ہو تو دوپہر کے کھانے کا ذائقہ کیا ! 
یہ نہیں کہ اہل حیدرآباد کو میٹھا پسند نہ تھا لیکن مٹھائیوں میں یہاں پسند محدود تھی ۔
  شمالی ہندوستان اور بنگال جیسی مٹھائی کی بہت زیادہ خواہش یہاں نہیں رہی ۔

٭٭٭٭واپس ٭٭٭

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔