Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 12 ستمبر، 2020

شگفتگو- بجٹ اور علمِ نجوم - آصف اکبر

https://www.youtube.com/watch?v=A-f_ppxuDfQ&list=PLzcKFFkG4lWMunvQ3Y0egUKZRB24D9cD4&index=4&t=253sکل (7 ستمبر 2020 کو) میرے چھوٹے بیٹے انس کا ابوظہبی سے فون آیا۔ خیر خیریت کے بعد اس نے مجھے بتایا کہ اسے آسٹریلیا سے واپس آئے  ایک ہفتہ ہو چکا ہے۔ یہ ایک ہفتہ اس نے اپنے گھر پر ہی قرنطینہ میں گزارا ہے۔ اور ابھی  ایک ہفتہ اور  اسے قرنطینہ میں رہنا ہے۔
مجھے ہنسی آئی۔ اسے سڈنی میں ایک ہفتے کا کام تھا۔ لیکن وہاں پہنچنے کے بعد دو ہفتے قرنطینہ میں رہنا پڑا۔ ہفتہ دس دن میں اس نے اپنے کام کیے۔ اس طرح ایک ہفتے کے کام کے لیے اسے 35 دن کی چھٹّی لینی پڑی۔
لیکن، اس نے بتایا کہ، اس کے مینیجر نے صرف 8 دن کی چھٹی گنی اور باقی دنوں کی حاضری لگا دی۔  اس طرح اسے چار ہفتے کی تنخواہ سے محروم نہیں ہونا پڑا۔
میں نے پوچھا تمہارے پاس ایسی کون سی جادو کی چھڑی ہے جو تمہارا مینیجر تم پر اتنا مہربان ہے۔ اب تو تمہاری شادی بھی ہو چکی ہے اور اس بات کا بھی اندیشہ نہیں کہ مینیجر کو کوئی امکانی داماد نظر آ رہا ہو۔
اس سے پہلے، جب اس کی شادی نہیں ہوئی تھی،    کبھی ایسا بھی  ہوتا تھا کہ  وہ پاکستان ایک ہفتے کے لیے آتا تھا تو ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ والیاں  اس کی تین دن کی چھٹی لگا دیتی تھیں۔
پھر اس کی شادی ہو گئی۔ یوں تو ایک در  بند ہوتا  ہے تو ہزار در کھلتے ہیں۔ جہاں در ہی کم ہوں وہاں سو   در کھلتے ہیں۔  مگر شادی ایسا   در ہے  کہ ایک در کھلتا ہے تو ہزار بند ہو جاتے ہیں، اور مردِ بیچارہ اسی ایک در کی دربانی کرتا رہ جاتا ہے۔
تو پھر اس مہربانی کی وجہ؟ میں نے پوچھا۔
یہ نوجوان ایک پلانٹ سیفٹی انجینیرنگ کنسلٹنٹ ہیں۔ اور سیفٹی کے لوگوں کو عوام اتنا ہی پسند کرتے ہیں جتنا اسکول کے بچے گیٹ کے چوکیدار کو۔
اس نے کہا میں نے یہ تیر مارا اور وہ تیر مارا۔ لاک ڈاؤن کے دنوں میں کمپنی کے چھ ملکوں  کی آپریشنز کی زیادہ سے زیادہ گھر سے کام کرنے کے ہدف کی پلاننگ کی۔ اور  اب تو بجٹ بنانے کا کام بھی مجھے دے دیا گیا ہے۔ اس لیے میرے مینیجر نے  چونکہ مجھ سے آن لائن کام لیا تھا،  اس کے عوض مجھے آن ڈیوٹی شمار کیا۔
اس پر میں نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا۔ خیر فلک کا تو کچھ نہیں بگڑا اس قہقہے سے۔ ویسے بھی اسے مجھ سے ایسی ہی توقع رہتی ہے۔
مگر نوجوان ضرور حیران ہوا کہ  اس میں ہنسنے اور وہ بھی ایسا ہنسنے کی کیا بات ہے۔
میں نے کہا بیٹا اگر بجٹ بنانے کی ذمّہ داری لے ہی لی ہے تو علم نجوم بھی سیکھ لو۔
اس پر اس نے بھی ایک قہقہہ لگایا اور بولا جی مجھے بھی اس بات کا احساس ہو رہا ہے۔
میں نے کہا کہ میں نے بھی اپنی ملازمت کے آخری پانچ چھ سال یہ ناخوشگوار فریضہ انجام دیا ہے اپنے ڈپارٹمنٹ کا بجٹ بنانے کا۔ اور انسان چاہے کچھ کر لے جب تک نجومی نہ ہو کبھی ایک کامیاب   بجٹ نہیں بنا سکتا۔ کسے خبر کل کسے کس چیز کی ضرورت پڑ جائے۔ اسی لیے  ہر بجٹ میں ایک خطیر رقم  اضطراری کیفیات کے لیے رکھی جاتی ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ نے بجٹ میں رقم نہیں رکھی اور  اس چیز کی ضرورت پڑ جائے تو بجٹ بنانے والے کی شامت۔   اور اگر آپ نے رقم رکھ دی ہے اور ضرورت نہ پڑی تو بھی شامت۔ مثلاً بارش سے احاطے کی دیوار گر پڑی تو اس کی مرمّت کے لیے بجٹ میں پیسے کون پہلے سے رکھ سکتا ہے۔
مسئلہ سارا جب پیدا ہوتا ہے جب  انتظامیہ اچانک کوئی بڑا فیصلہ کر لے یا اسے کرنا پڑ جائے۔ جونیجو صاحب کی حکومت آئی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ تمام سرکاری افسران سے بڑی کاریں واپس لے کر ان کو 600 سی سی کی سوزوکی کاریں دی جائیں۔ سرکاری تالیاں بجانے والوں نے تو سماں باندھ دیا۔ مگر بجٹ ہر جگہ کم پڑ گیا۔ایک کار کی  قیمت شاید کسی بھی زمانے میں  افسر کی ایک سال کی تنخواہ سے  کم نہ رہی ہو۔ اب بیچارے بجٹ بنانے والوں کو کیا خبر تھی کہ یہ نئی افتاد آ پڑے گی۔
ہم کو جب بجٹ بنانے کا کہا گیا تھا تو ایک سال کا نہیں تین سال کا بجٹ بنانا تھا۔ اور بجٹ بھی اپنے ڈپارٹمنٹ کا بنانا تھا۔ یعنی یک نہ شد سہ شد۔ اور سونے پر سہاگہ یہ  کہ زیادہ تر اخراجات ایسے تھے جن کے بارے میں نجومی بھی زائچہ بناتے ہوئے گھبرائے۔ جیسے کاغذ  اور پرنٹر  کا خرچ۔ اب ٹریننگ کے بزنس میں کاغذ تو ایک بڑا خرچ ہوتا ہے۔ تو یہ بات تو نجومی بھی  نہیں بتا سکتا تھا کہ آنے والے تین سالوں  میں کتنے لوگ ٹریننگ کے لیے آئیں گے اور آئیں گے بھی یا نہیں، کیونکہ جب کبھی اخراجات میں کمی کی کوئی مہم چلتی ہے تو اس کا پہلا شکار ٹریننگ کے اخراجات ہی ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی کوئی نجومی نہیں بتا سکتا تھا کہ کب کوئی پرنٹنگ مشین خراب ہو جائے گی اور نئی لینی پڑے گی۔
ویسے تو سائنس اور  ٹیکنالوجی نے بڑی حد تک نجومی کی جگہ لینے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً اگر آپ کسی ماہر شماریات کو جنوری سے جون تک زمین کے  روزانہ کے درجہ حرارت کے  اعداد و شمار دے دیں اور کہیں کہ بتاؤ تین سال بعد زمین  کا درجہ حرارت  کتنا ہوگا تو  وہ بڑی صحت کے ساتھ آپ کو بتا سکتا ہے کہ تین سال بعد اوسط درجہِ حرارت دو سو ڈگری سینٹی گریڈ ہوگا۔ لیکن ہم اتنے بھی ٹیکنالوجی پرور نہیں تھے۔ سو کام اپنے بجٹ خیز ذہن سے ہی لیتے رہے۔
اس ضمن میں آسان طریقہ تو یہی تھا کہ توپ کا لائسنس  مانگو تو پستول کا ملے گا۔ یعنی آپ بجٹ میں ہر امکانی خرچ ڈال دیں۔ اب منظور کرنے والوں کی مرضی منظور کریں یا نہ کریں۔ لیکن ایک لطیفہ اس ضمن میں بھی ہوا۔
ہمارے پاس ایک ڈرلنگ سیمولیٹر تھا۔ وہ ہو گیا خراب۔ اور تھا اتنا پرانا کہ ٹھیک کرنے سے خود بنانے والوں  نے انکار کر دیا تھا۔  یہ شاید 2000 کی بات تھی جب لاکھ روپے بھی بڑی بات ہوتے تھے اور اس سیمولیٹر کی قیمت پاکستانی رپیوں میں 3 کروڑ بنتی تھی۔   سو ہم نے یہ رقم بجٹ میں ڈال دی۔ جب بجٹ پر غور و خوض ہونے لگا تو معاملہ فہم نظریں  اس تین کروڑ پر پہنچ کر رک گئیں۔
محکمہ خزانہ  کے کرتا دھرتا نے ہم سے پوچھا کہ یہ اتنی بڑی رقم تین کروڑ؟ شاید ان کو یقین تھا کہ ہم نے غلطی سے تین لاکھ کی جگہ تین کروڑ لکھ دیا ہے۔ ہم نے کہا جی ہاں جناب  یہ مشین اتنی ہی قیمت کی آتی ہے۔ کہنے لگے اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ ہم ہم نے ان کو یقین دلا دیا کہ اس سے بغیر بالکل کام نہیں چل سکتا تو انہوں نے ایک نیا شگوفہ چھوڑا۔ فرمانے لگے ایسا کرتے ہیں ڈیڑھ کروڑ  اس سال کے بجٹ میں رکھ دیتے ہیں اور ڈیڑھ کروڑ آئندہ سال کے بجٹ میں۔ ہماری تو ہنسی چھوٹتے چھوٹتے رہ گئی۔ ہم نے عرض کیا کہ جناب کیا یہ ممکن ہے کہ آپ آدھا ہوائی جہاز اس سال خریدلیں اور آدھا آئندہ سال تو وہ بھی سوچ میں دھنس گئے۔ اور پھر پرنالہ  وہیں گرا کہ بجٹ  میں یہ آئٹم نامنظور۔ اور پھر وہ چیز کبھی خریدی ہی نہیں گئی۔
بہرحال جو ہوا  اچھا ہوا۔ اس کے چار سال بعد ہم نے وہ ملازمت چھوڑ کر اپنی ایک کمپنی بنا لی تو اس سمولیٹر کا نہ خریدا جانا ہمارے لیے بہت فائدہ مند ہوا۔ اور ہم  نےاسی چیز کی تربیت ایک غیر ملکی کمپنی کے تعاون سے فراہم کر کے بہت اچھا کاروبار کیا۔
ویسے لوگ گھر کا بجٹ بھی بناتے ہیں مگر ہم نے یہ بجٹ ہمیشہ فیل ہی ہوتے دیکھا ہے۔ گھر کا بجٹ بنانا دبلا ہونے کا ایک اچھا طریقہ ہے کیونکہ اس صورت میں آپ  قاضی شہر بن جاتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے نہ آمدنی بڑھانا آپ کے اختیار میں ہوتا ہے نہ اخراجات کم کرنا۔ کم کرنا تو بہت دور کی بات ہے اخراجات بڑھنے نہ دینا بھی ایک ناممکن بات ہوتی ہے۔ تو بجٹ بنانے کا مطلب آنے والی پریشانیوں کی پیشکی بکنگ کرنا ہی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
اسی طرح لوگ ملک کا بجٹ بھی بناتے ہیں اور سادہ لوح اس کو غور سے سنتے اور پڑھتے بھی ہیں۔ ان کو یہ اندازہ کم ہی ہوتا ہے کہ بجٹ تو اصل بجٹ کا ضمیمہ ہی ہوتا ہے۔  اصل بجٹ تو ضمنی بجٹ کے نام پر یا گاہے بگاہے ٹیکس بڑھا کر ہی نافذ کیا جاتا ہے۔ یعنی قبلہ کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں۔
  ہاں گھریلو بجٹ کے مقابلے میں ملکی بجٹ بنانے والوں کے پاس آمدنی بڑھانے کا پورا اختیار ہوتا ہے۔ ملک کا بجٹ بنانا نسبتاً آسان ہے اور اس کے لیے علم نجوم کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی، اس لیے ملکی بجٹ ہم تو کیا کوئی بھی وزیرِ خزانہ آسانی سے بنا سکتا ہے۔ بس اس  کی جبلّت مویشیوں والی ہونی چاہیے، یعنی جہاں ذرا سی گھاس اگنی شروع ہوئی فوراً اس پر منہ مارا اور جڑ تک کھود ڈالی۔
ویسے ہم ہمیشہ حیران ہوتے ہیں کہ علم نجوم ہمارے یہاں تعلیمی اداروں میں کیوں نہیں پڑھایا جاتا۔ حالانکہ ہمارے پاس اس شعبے کے عالمی سطح کے ماہرین موجود ہیں۔ جنتر منتر کے ہم یوں تو ہزاروں برسوں سے دھتی رہے ہیں مگر اب منتریاں حکومت کے قبضے میں چلی گئیں  اور جنتریاں ہمارے لیے رہ گئیں۔ ہم جنتریاں تو بچپن  سے دیکھتے آئے ہیں، منتریوں کو بڑے ہو کر دیکھنا پڑا۔  تو جب ہم ایسی ایسی مستند جنتریاں  وجود میں لا سکتے ہیں تو ایک نجوم یونیورسٹی کیوں نہیں بنا سکتے جس  سے علم نجوم کے پی ایچ ڈی پیدا ہوں اور بجٹ سیکشنز کے سربراہ بنیں۔
------------------
آصف اکبر
------------------

٭٭٭٭٭واپس٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔