وہ ایک انقلابی شخصیت آزادی پسند جنگجو تھا ، جس نے چوتھے نظام حیدرآباد اور انگریز کے حکمران سسٹم کے خلاف بغاوت کی تھی۔
٭1857 کی جنگِ آزادی کے تناظر میں ، دہلی ، میرٹھ ، لکھنؤ ، جھانسی اور میسور میں ہونے والی سرگرمیوں کی دستاویزی دستاویزی دستاویزات ہیں ، لیکن حیدرآباد میں آزادی کی سرگرمیوں نے شائد اس زور نہیں پکڑا کہ نظام حیدرآباد انگریزوں کے اتحادی تھے۔
طورباز خان، کا جنگ آزادی کا دورانیہ مختصر تھا، جب حیدر آباد کے عوام برٹش اور نظام راج سے آزادی کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔
٭17 جولائی ، 1857 کو ، طورباز خان نے برطانوی آندھرا اور ’نظام آندھرا‘ کے خلاف میں کالونی ازم سے ناامید عوام کی ایک بہت بڑی فوج کی قیادت کی اور حیدر آباد دکن کے آزادی کے 6،000 متوالوں کےساتھ برٹش ریذیڈنسی پر حملہ کیا۔
طوری باز خان اپنے ساتھیوں سمیت ایک مقابلے کے بعد گرفتار ہوا اور حراست میں لے کراسے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ ایک سال کے بعد ، وہ فرار ہوگیا ، اور پھر حیدرآبادسے 60 کلومیٹردور، طوپران کے جنگل سےوہاں کے تعلقہ دار قربان علی بیگ ، کے ھاتھوں مخبری پر پکڑا گیا۔
طوری باز سے پوچھا گیا کہ کیا اُس کی بوڑھی ماں کی اُس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ؟
طوری باز نے جواب دیا، مادر ملت اُس کی والدہ سے زیادہ اہم ہے۔ اگر وہ مارا گیا تو دنیا اسے یاد رکھے گی۔ قربان علی بیگ کو کوئی بھی یاد نہیں کرے گا۔
طوری باز خان کو قید میں رکھا گیا
پھر اسے گولی مار کر اُس کی لاش کو شہر کے وسط میں لٹکا دیا گیا تاکہ مزید سرکشی کو روکا جاسکے۔
تیلگو زبان میں اِس پر ایک فلم طرّم خان بھی بنی ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں