تو اُفق کے پار رہنے والے دوستو۔
چم چم نے درست لکھا ، کہ، میرے گرینڈ فادر الماریاں بناتے ہیں ۔
بوڑھا اور بڑھیا بمع چم چم عدیس ابابا سے پاکستان پہنچے۔ پہلے 7 دن تو قرنطائن میں گذارے ، پھر عسکری 14 کے کرائے کےگھر میں برفی کے بابا کے ساتھ شفٹ ہو گئے ۔
لہذا بوڑھے نے پھر ، ترکھان کے کام کو وُڈ ورک آرٹ میں تبدیل کرنے کے لئے ۔ اپنی مکمل آٹو میٹڈ ورکشاپ کی تیاری۔
اب
سوال یہ پیدا ہوا کہ بوڑھا اپنی ورکشاپ کہاں لگائے؟
تو جناب بوڑھے نے
اپنی ورکشاپ کی تیاری کر دی ۔ بازار سے کیکر کی لکڑیوں کی ٹیبل بنوانے کا
پروگرام بنا ، کہ اتوار کو گالف کھینے کے بعد بازار جاؤں گا ۔
جب بڑھیا نے سنا کہ بحریہ میں قاضی کے ساتھ گالف کھیلنا ہے تو فرمائش جھاڑ دی ۔ کہ برفی بھی نہیں ہے ، میں اکیلی ہوں مجھے ، مسز رانی قاضی کے پاس چھوڑ دیں ۔ وہ کافی عرصے سے بلا رہی ہیں ۔
گالف کے بعد، قاضی کے گھر پہنچا ۔ تو پورچ میں پرانی لکڑیوں کا انبار دیکھا ۔
نوجوان بھابی ! یہ کیا ۔امریکن پنشن سے گذارا نہیں ہو رہا ، جو قاضی نے نئے تعمیر شدہ گھر میں کباڑیئے کی دکان کھول لی ہے ؟
ار ے بھائی کیا بتاؤں ؟ اِن کے بڑے بھائی اپنے آبائی گھر کو از سر نو ٹھیک کر رہے ہیں یہ سب کاٹھ کباڑا وہاں پڑا تھا ۔ یہ ٹرک بھر کر اُٹھا لائے ۔
کاٹھ کباڑا ؟؟ خدا کا خوف کریں بھابی ۔ یہ تو نہایت نایاب اور قیمتی لکڑی ہے ، اِن سے وُڈ ورک آرٹ کے بہترین شاہ پارے بن سکتے ہیں ۔ بوڑھے نے کہا ۔
یہ دونوں کورس میٹس کباڑیئے ہیں - ٹین ٹپڑ جمع کرتے ہیں ، بڑھیا نے پورچ میں آتے ہوئے کہا ۔ کل یہ لکڑی کے بڑے بڑے گٹکے لائے ہیں شائد جلا کر ،تاپیں گے ۔
قاضی کے گھر سے ، کھڑکیوں کی بلیاں اُٹھائیں اور اُنہیں جوڑ کر اپنی ورکنگ ٹیبل کی بنیاد رکھی ۔
باقی آئیندہ ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں