Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 12 ستمبر، 2020

شگفتگو-سوشل میڈیا کی پرلطف سطحی پوسٹیں- ڈاکٹر عزیز فیصل

انسان طبعاً آزاد پیدا ہوا ہے لیکن ڈیجیٹل انسان سمجھتا ہے کہ وہ "کچھ زیادہ" ہی آزاد پیدا ہوا ہے۔ گوکہ ریاضی میں کل دس ڈیجٹ ہوتے ہیں لیکن ڈیجیٹل نسل نو نے آزادی کے نام پر کئی اضافی ڈیجٹ بھی بنا رکھے ہیں جنھیں وہ عشق کی ریاضیاتی تشریح کے دوران استعمال کرتی ہے۔ یہ  "مابعد دس" ڈیجٹ بالکل اسی طرح کے ہیں جیسے کوئی جعلی نوٹ چھاپ رہا ہو یا جیسے حکومت  فالتو نوٹ چھاپ  رہی ہو۔  سوشل میڈیا وہ لاوڈ سپیکر ہے جہاں آپ دوسرے لوگوں کو مولوی سے بھی زیادہ تنگ کر سکتے ہیں۔اس چھیڑ خوانی میں یہ سہولت بھی موجود ہے کہ  کوئی آپ کا بال بیکا بھی نہیں کرسکتا چاہے آ  پ بالکل ہی  گنجے نہ ہوں۔ بڑی عمر کےآزاد خیال لوگوں کی سوچ کا سی ٹی سکین کیا جائے تو اس میں ان سیٹیوں کا عکس بھی نظر آتا ہے جنھیں وہ گلی کوچوں میں بجا بجا کر بوڑھے ہوئے ہیں۔
سوشل میڈیا کے کئی رنگ ہیں جو گرگٹ سے بھی زیادہ تیزی سے بدلتے رہتے ہیں۔ مردوں نے "قبول ہے" تین بار کہہ کر اس دوشیزہ کو منہ بولی بیوی بنایا ہوا ہے  جبکہ خواتین نے   اسے "غیرراز دار ترین "سہیلی کا سٹیٹس دے رکھا ہے۔ساشل میڈیا پر شئیر کی جانے والی سطحی پوسٹوں کی نوعیت درج ذیل ہو سکتی ہے:بھڑاس نکالنی ہو، علمیت جھاڑنی ہو، جہالت کی سیلفی لگانی ہو،  اپنے ذاتی دکھ سکھ  کی وڈیوشئیر کرنا ہو، پگڑی یا ساڑھی اچھالنی ہو،  خیالات بالجبر تھوپنے ہوں، شادی، منگنی، طلاق کا بیانیہ جاری کرنا ہو، کسی خاس برے واقعے  کا اپنے علاوہ سب کو ذمہ دار قرار دینا ہو،   دوسرے کی آنکھ کا تنکا  صراحت سےدکھانا ہو، اپنی آنکھ کا شہتیر چالاکی سے چھپانا ہو، کسی کے مرنے کی اطلاع اس کے ساتھ کھنچوائی گئی تصویر کی مدد سے دینی ہو،  میک اپ سے لے کر خضاب تک کی رونمائی کرنی ہو،  جوانی کا کلپ نشر کرنا ہو ،   مبارکباد دینے کی خارش  پر گڈ مارننگ،جمعہ مبارک، ہیپی رینی ڈے  وغیرہ کا سہارا لینا ہو،  خااندان کے کسی  دور پار کےبڑے چھوٹے عزیز رشتہ دارکی افسوس ناک موت کی اطلاع دینی ہو،  وغیرہ وغیرہ۔
اگر فیس  بک کو چھوڑنے والے خواتین و حضرات کی بات کی جائے تو صاف لگتا ہے کہ یہ محصوص افراد اپنے کسی نفسیاتی عیب یا سچ مچ کے عیب  کی وجہ سے خود کو فیس بک پر اتنے ہی کھٹکنے لگتے ہیں جتنا کوئی اکیلا مرد  خود کو  خواتین کی شعری نشست کی صدارت کرتے ہوئے کھٹکتا ہے۔   فیس بک چھوڑنے میں مردوں کے زنانہ مسائل اور عورتوں کے مردانہ مسائل کا ہاتھ ہوتا ہے بلکہ بسااوقات تو فریق مخالف کا دل اور آنکھ بھی ملوث ہوتے ہیں۔سب سے دلچسپ وہ ٹیکسٹ ہے جس میں فیس بک چھوڑنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی کسی دل جلے یا دل جلی نے فیس بک چھوڑنے کا اعلان کچھ یوں کیا۔۔۔"دوستو اللہ حافظ، فیس بک نے مجھے بہت دکھ دیے  ہیں۔ مزید یہاں رہنا ممکن نہیں رہا۔ آپ دوستوں کو چھوڑ کر بہت افسوس ہو رہا ہے لیکن کیا کروں مجھے  ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہاں سے جانا پڑا ہے۔ میرا وٹس ایپ نمبر چوبیس گھنٹے آن رہے گا۔کوئی ایمر جیسی ہو تو فورا مجھ سے رابطہ کرنا، میرے دروازے ہمیشہ آپ کے لئے کھلے ہیں۔" یہ لوگ فیس بک سے اپنی غیرموجودگی کو سب کے لئے اتنا اندوہناک تصور کرتے ہیں جیسے ان کے بغیر  کسی کی گزران کی گاڑی کا ٹائی راڈ ٹوٹ جائے گا،   کسی کے دل کے ہیلی کاپٹر  کے پر جل جائیں گے یا کسی کی زندگی کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو "نائن الیون" ہو جائے گا۔ سب فیس بکی "نسوڑے"   نہایت خشوع و خضوع سےدفع دور ہونے کی اجازت طلب کرتے ہیں۔ انھیں کوئی کہنے والا نہیں ،جو یہ پوچھے کہ جب فیس بک پر آنے کی ہم سے اجازت نہیں مانگی تھی تو یہ جانے کی اجازت کا تکلف کیسا؟  ایسی پوسٹوں پر اکثر کمنٹس ایسے بھی آتے ہین جن کا سادہ اور سلیس ترجمہ "خس کم جہاں پاک" کے قریب قریب ہوتا ہے۔ دوچار کمنٹس ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں موسوف یا موصوفہ کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اگر تم فیس بک سے رخصت ہوئے تو سارا نظام فیس بک رک جائے گا اور اس کی رونق  کی آستینوں میں شیش ناگ گھومنے لگیں گے۔ اگر فیس بک چھوڑنے والا مرد ہوتو  اس کا نوٹس نسبتا کم لوگ لیتے ہیں لیکن اگر فیس بک چھوڑنے والی حسینہ  بے ضرر اکھ مٹکے کی حوصلہ افزائی کرنے والی بھی ہو تو اسے فیس بک چھوڑنے  کا مشورہ نہ دینے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔  اب کمنٹس میں ایک بحث چھڑ جاتی ہے کہ اس "مائنس ون" کا پس ماندگان پر طبی اور کیمیائی اثر کیا ہو گا۔کچھ نرم دل لوگ تو  اس جدائی کے بعد  خود کو ایسا اجڑا اجڑا بیان کرتے ہیں کہ اُتنا تو رانجھا بھی ہیر کی جدائی میں برباد نہیں ہوا ہوگا۔  اس سارے ڈرامے کا ڈراپ سین بہت ہی دلچسپ اور مزیدار ہوتا ہے جب فیس بک چھوڑنے والا بندہ دوبارہ فیس بک پر ہی دندنانے کا اعلان کرتا ہے۔ آج تک کوئی ایسا مائی کا لال یا کوئی مائی ایسے نہیں دیکھے جو اعلان کرنے کے بعد واقعی فیس بک سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلے گئے ہوں۔ یہ گیم یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ فیس بک پر دوبارہ واپسی   کے بعد ایسے  افراد کی پھرتیاں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہیں اور وہ تازہ "مینڈیٹ" کے بعد زیادہ کھل کر کھیلنے لگ جاتے ہیں۔ ایسے افراد اپنے الفاظ کا "پاس" رکھنے میں مکمل طور پر "فیل" ہوتے ہیں۔

٭٭٭٭٭واپس٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔