Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 12 ستمبر، 2020

شگفتگو- رشتہ دار - ڈاکٹر شاہد اشرف

مجھے اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ کھوتا کھو میں گر گیا ہے . میں نے پوچھا تو حیرت سے بولا " کیسے معلوم ہوا ؟" "چرس پینے والا اپنے ہم ذوق کو پہچاننے میں دیر نہیں لگاتا ہے " میں نے جواب دیا تو فوراْ  گویا ہوا " ایک سگریٹ دو " "میں سگریٹ نہیں پیتا " میری بات سن کر کہنے لگا "مثال تو ایسے دی ہے جیسے بنا کر جیب میں رکھے ہوئے ہیں " میں نے بیرے کو بلا کر سگریٹ لانے کے لیے پیسے دیے اور چائے پینے لگا.
" اگر وہ نہ ملی تو میں مر جاؤں گا "
کون ہے ؟
رشتے دار ہے .
تیرےابّا کو پتا ہے ؟
نہیں !
تیرا رشتہ مانگنے میں جاؤں ؟
اسی بارے مشورہ کرنے آیا ہوں .
 اپنے ابّا سے بات کر.
کوئی فائدہ نہیں ہے
کیوں ؟
"گزشتہ دو ہفتوں سے گھر میں عطا اللہ عیسٰی خیلوی کے گانے سُن رہا ہوں. کسی نے توجہ نہیں دی ہے. "
عطا اللہ عیسٰی خیلوی کا اپنا کیس بہت کمزور ہے. تُو گانے سن کر مزید مشکل میں پڑ جائے گا.
کوئی ملاقات ہوئی ہے ؟
اُس کا ابّا ٹوکے سے کاٹ دے گا.
پھر میں تیری کوئی مدد نہیں کر سکتا, میں نے حتمی جواب دیا.
"تُو میری شاعری کی اصلاح کر سکتا ہے. "
یار!  تیری شاعری میں نے سُنی ہے, یہ بہت مشکل فن ہے, زندہ شعر کہنے کے لیے مرنا پڑتا ہے.
"میں نے ڈیڑھ سو غزلیں کہی ہیں. "
میں مثال دینا چاہتا تھا مگر ڈیڑھ سو کی بات سُن کر سر کھجانے لگا.

اگلی ملاقات میں اُس نے بتایا کہ رشتہ دار کی منگنی ہو گئی ہے.  اُس کا منگیتر میرا چچا زاد ہے, میں اسے جان سے مار دوں گا.
"تیرے چچا زاد کا کیا قصور ہے ؟" میں نے پوچھا
وہ سوچ میں پڑ گیا اور بولا " یہ رشتہ میرے ابّا نے کروایا ہے "
"ظاہر ہے تُو اپنے ابّا کو جان سے نہیں مارے گا. تُو نے اپنے ابّا کو نہیں بتایا تھا ؟"
"عاشق صادق اپنے دل کی بات کسی کو نہیں بتاتا ہے." اُس نے دو ٹوک موقف بیان کر دیا.
"اچھی بات ہے, اب ایسا کرو کہ چچا زاد کا سہرا لکھ دو "
چچا زاد جانتا ہے کہ میں شاعر ہوں. اُس نے مجھے سہرا لکھنے کے لیے کہ دیا ہے.
میرا ہاسا نکل گیا.
سہرا لکھنے کے ساتھ رخصتی بھی لکھ دو . آخر رشتہ دار ہے.
مذاق نہ کر, کچھ نہ ہوا تو میں جان دے دوں گا.
یہ تُو بات بہ بات پر جان دینے کے لیے کیوں تیار ہو جاتا ہے.
اور کیا کروں ؟
غور کر, غور کر, مسئلے کا حل کیا ہو سکتا ہے ؟
میں نے سوچ لیا ہے کہ شادی میں نہیں جاؤں گا.
اگر تُو شادی میں نہ گیا تو ایک اہم مرحلہ طے نہیں ہو گا.
وہ کیا ؟ اُس نے حیرت سے پوچھا.
نکاح نامے پر بطور گواہ دست خط کون کرے گا.
سخت مشکل کے باوجود وہ ہنس پڑا اور اپنی تازہ غزل سنانے کے لیے مجھے متوجہ کرنے لگا.

٭٭٭٭٭واپس٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔