دوستو آج جو واقعہ بیان کرنے جارہا ہوں یہ سوفیصد سچا اور میری آپ بیتی ہے۔ ہم نے انٹر پری میڈیکل سے کیا تھا۔ انسانیت کی خدمت کے جذبے سے دل سرشار تھا۔ بے صبری کا یہ عالم تھا کہ داخلے سے پہلے ہی میڈیکل کالج دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ ایک ڈاکٹر دوست سے فرمائش کی اور وہ ایک دن ہم کو سول ھسپتال سے متصل ڈاؤ میڈیکل کالج کا وزٹ کروانے لے گئے۔
پہلا دھچکہ تو سول ھسپتال کا پوسٹ مارٹم روم دیکھ کر لگا۔ دروازے کے ساتھ ہی برگد یا شاید گولر کا درخت لگا تھا جس سے چھن چھن کر سورج کی روشنی ایک عجیب تاثر پیدا کررہی تھی۔ کچے پکے فرش پر درخت کے زرد پتے بکھرے ہوئے تھے۔ ایک عجیب آسیبی اور نحوست زدہ ماحول تھا ۔
دروازہ کھلا ہوا تھا اور سامنے ہی ماربل کی سلیب پر کسی نوجوان پٹھان کی لاش آدھی ڈھکی آدھی کھلی پوسٹ مارٹم کے انتظار میں پڑی تھی۔ بمشکل تیئس چوبیس برس کا بھرپور صحت والا تنومند بھورے بالوں والا گورا چٹا قوی ھیکل نوجوان تھا جو شاید کسی ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں فوت ہوا تھا۔ اس کی ایک ٹانگ لاش پر پڑا کپڑا سرکنے کی وجہ سے کھلی ہوئ نظر آرہی تھی جس کی ران پر بڑے بڑے اودے رنگ کے گہرے نیل اور شدید رگڑ کے نشانات پڑے ہوئے تھے۔ اس کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا لیکن سر کے بال نظر آرہے تھے۔ اس کی گوری رنگت دیکھ کر لگتا تھا کہ ابھی اسے کراچی میں وارد ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور کراچی کی تیز دھوپ اور محنت و مشقت کی بھٹی میں تپ کر اس کی سفید رنگت نے تانبے کی شکل اختیار نہیں کی تھی۔ نہ جانے کیسے کیسے ارمان اور خواب لے کر وہ کراچی آیا ہوگا لیکن اس وقت وہ ایک لاوارث لاش کی صورت میں سرد پتھریلی میز پر عبرت کی مثال بنا پڑا تھا۔
ایک انسان کی یہ بے توقیری دیکھ کر شدید صدمہ ہوا کہ شاید چند گھنٹے پہلے یہ ایک جیتا جاگتا زندگی سے بھرپور انسان تھا۔ اس کے بعد جب ڈاکٹر صاحب ڈائسیکشن حال میں لے گئے تو ایک تو دروازے سے ہی وہاں کی شدید بدبو نے دل متلا دیا، ٹنکچر آئیوڈین اور سڑے گوشت کی ملی جلی بدبو۔ بڑے ھال نما کمرے میں سنگ مر مر کی ٹاپ والی 8 ٹیبلز کمرے کی دونوں سائڈوں سے لگی ہوئ تھیں جن کے درمیان کوئی چھ چھ فٹ کا فاصلہ تھا۔ ہر ٹیبل پر ایک عدد مردہ انسانی جسم پڑا تھا۔ لاشیں پرانی اور ان پر کیمیکل کی وجہ سے ہر لاش سیاہ پڑی ہوئ تھی۔ سب کے سینے سے لے کر پیٹ تک موٹے ڈورے سے بوریوں جیسے ٹانکے لگے ہوئے تھے جو پوسٹ مارٹم کے بعد لگائے جاتے ہیں۔ یہ سب وہ لاوارث لاشیں تھیں جن کا کوئ ولی وارث سامنے نہیں آتا اور ان کو چیر پھاڑ کے لئے میڈیکل کالج کے حوالے کردیا جاتا ہے۔
کوئی لاش آدھی تھی یعنی اس کا صرف اوپری دھڑ تھا۔ ایک لاش کی کھوپڑی کا اوپری حصہ آدھے ناریل کی طرح کاٹ کر الگ کردیا گیا تھا اور اندر سے پیلا پیلا بھیجہ نظر آرہا تھا جس کو کچھ طلبا ایک چمٹی کی مدد سے کُرید رہے تھے۔ ہر ٹیبل پر موجود لاش پر دس بیس لڑکے لڑکیاں کاٹ پیٹ میں جٹے ہوئے تھے۔ کہیں سینہ کھول کر اس میں موجود رگ پٹھوں کا معائنہ ہورہا تھا تو کہیں ٹانگ ادھیڑی ہوئ تھی تو کہیں اوندھی پڑی لاش کی کمر کو کھول کر کمر کے مہروں اور ان سے نکلنے والے تار نما اعصاب کا ماخذ و اختتام ٹٹولا جارہا تھا۔ ۔
جو لاشیں کچھ کم پرانی تھیں ان کی کھال کے نیچے سے پیپ نما مواد رِس رہا تھا۔ ایک مردے کی ٹانگ ران سے پنڈلی تک چیرا لگا کر کھول دی گئ تھی اور اس میں موجود اعصاب اور وریدوں نسوں کو بجلی کے تاروں کے گچھے کی طرح باہر نکال کر ان کے نام اور کام پوچھے اور بتائے جارہے تھے۔
ایک نازک سی گوری چٹی خوبصورت طالبہ ایک لاش کا سینہ صندوق جیسا کھولے اس کے دل کو چیر رہی تھی جو اندر سے سرخ کے بجائے سیاہی مائل سفید نظر آرہا تھا کہ خون تو کب کا خشک ہوچکا تھا۔ اس لاش کا سر گنجا تھا لیکن سیاہ پڑی لاش کے سر پر سفید آدھا آدھا انچ کے بال نظر آرہے تھے۔
کہیں آنکھوں کے گیند نما کُرّے کو حلقوں سے باہر نکال کر دماغ کو جانے والی نسوں اور اعصاب کا معائنہ کیا جارہا تھا۔ سب نے ھاتھوں پر سرجیکل گلووز اور ناک پر ماسک چڑھایا ہوا تھا۔ لیکن وہ سب ڈائسیکشن ھال کی بدبو کے عادی لگتے تھے کیونکہ سارے کے سارے اس کام کے دوران ھنس بول بھی رہے تھے۔
اسی دوران ڈاکٹر صاحب کی شناسا ایک طالبہ نے سلام دعا اور خیر خیریت بھی پوچھی اور کینٹین میں چائے پینے کی دعوت بھی دی۔
دوسری طرف ہمارا چہرہ فق اور بولتی بند تھی۔ دماغ ماؤف ہوچکا تھا۔ ہم ابھی تک خود کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے تھے کہ جو کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہے وہ ایک ڈراونا خواب ہے یا ہم بقائم سلامت ہوش و حواس ایسی جگہ موجود ہیں۔
یقین نہیں آرہا تھا کہ چند گز کے فاصلے پر ان دو تین دیواروں کے پیچھے کراچی کا مشہور ایم اے جناح روڈ ، ڈینسو ھال اور جامع کلاتھ مارکیٹ موجود ہے جہاں زندگی اپنی پوری رعنائی کے ساتھ رواں دواں ہے۔
کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ جس عید گاہ اور جامع کلاتھ کے ٹھیلوں اور ریسٹورنٹس میں لوگ چنا چاٹ، دہی بھلے اور نان حلیم سے لطف اندوز ہورہے ہیں- ان سے صرف ذرا سی دوری پر تین دیواروں کی آڑ میں، ان ہی جیسے انسان گلے سڑے پڑے ہیں اور ان کے جسم چھیلے اور چیرے پھاڑے جارہے ہیں۔
ھال کی ایک دیوار کے ساتھ کوئی چھ فٹ لمبے اور دو فٹ چوڑے لکڑی کے لمبے پیٹی نما ڈبے رکھے ہوئے تھے جن میں لاشوں کا کچرا ڈالا جارہا تھا۔ جیسے کے کھوپڑی کا آدھا اوپری حصہ، کھال اتری ہوئ ادھڑی ہوئی آدھی ٹانگ، بازو پنجے۔ جیسے قصاب کی دکان پر کچرے کے ڈبے میں ھڈیاں چھیچھڑے اور سینگ کھُر وغیرہ پڑے ہوتے ہیں۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کبھی ہماری طرح جیتے جاگتے انسان تھے۔ لیکن ان کا نصیب کہ ان کو قبر تک نصیب نہ ہوسکی تھی۔ شاید اس کچرے کو کسی گڑھے میں دفن کردیا جاتا ہوگا یا ھسپتال کے دوسرے فضلے کے ساتھ بھٹی( incinerator ) میں جلا دیا جاتا ہوگا۔
یہ سب دیکھ کر دل کی حالت بے انتہا خراب ہوگئی۔ اگر آپ نے سنجے دت کی فلم منّا بھائی ایم بی بی ایس دیکھی ہو اور میڈیکل کالج کے ڈائسیکشن ھال میں جو حال منا بھائی کا ہوا تھا بالکل وہی کیفیت ہماری تھی۔
زندگی کی بے ثباتی اور انسان کی اوقات کا شدت سے احساس ہوا، مزید جائزے کا پروگرام یکسر ترک کر کے بمشکل اپنی متلی روکتے ہوئے باہر نکلے ورنہ شاید غش کھا کر گر پڑتے۔
اس کے بعد مزید ستم یہ دیکھئے کہ ڈاکٹر صاحب ہم کو کالج کی کینٹین میں خاطر مدارات کے لئے لے گئے۔
چائے اور پیٹیس منگوائے۔ مگر توبہ کیجئے۔ میری تو متلی اور صدمے کی کیفیت انتہائی شدید تھی۔ اس وقت تو کچھ کھانے پینے کے تصور سے بھی وحشت ہورہی تھی۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ جب میرا یہ حال ہوا ہے تو جو نئے نئے طلبا و طالبات پہلی مرتبہ ڈائسیکشن کے لئے آتے ہیں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا؟
ڈاکٹر صاحب قہقہہ مار کر لاپرواہی سے بولے،
" ہاں یہاں نئے طلبا و طالبات کے ساتھ یہ ہوتا رہتا ہے۔ کچھ تو غش کھا کر چکرا کر گر بھی پڑتے ہیں لیکن پھر جب ہر دن یہی کام کرنے کے لئے آنا پڑتا ہے تو رفتہ رفتہ سب عادی ہوجاتے ہیں۔"
ڈاکٹر صاحب کو کچر کچر پیٹس چباتے اور چائے کے گھونٹ لیتے دیکھ کر حیرت ہورہی تھی کہ یہ کس طرح یہ سب کھا پی رہے ہیں؟
صرف ڈاکٹر صاحب ہی نہیں ڈائسیکشن سے فارغ ہوکر آنے والے لڑکے لڑکیاں بھی سنیکس اور چائے سے محظوظ ہورہے تھے۔
" ہاں یہاں نئے طلبا و طالبات کے ساتھ یہ ہوتا رہتا ہے۔ کچھ تو غش کھا کر چکرا کر گر بھی پڑتے ہیں لیکن پھر جب ہر دن یہی کام کرنے کے لئے آنا پڑتا ہے تو رفتہ رفتہ سب عادی ہوجاتے ہیں۔"
ڈاکٹر صاحب کو کچر کچر پیٹس چباتے اور چائے کے گھونٹ لیتے دیکھ کر حیرت ہورہی تھی کہ یہ کس طرح یہ سب کھا پی رہے ہیں؟
صرف ڈاکٹر صاحب ہی نہیں ڈائسیکشن سے فارغ ہوکر آنے والے لڑکے لڑکیاں بھی سنیکس اور چائے سے محظوظ ہورہے تھے۔
لیکن میری تو جیسے دنیا اندھیر ہوچکی تھی۔ہر کام ہر چیز بے معنی اور بے وقعت نظر آرہی تھی۔ زندگی اور زندہ رہنے کا مقصد ایک حماقت محسوس ہورہا تھا۔
دل چاہتا تھا کہ اسی وقت مکے مدینے نکل جاؤں اور بس وہیں کسی سجدے میں موت آجائے۔ جیسے تیسے گھر پہنچے اور راستے میں نظر آنے والے ہر دوڑتے بھاگتے زندگی کی مصروفیات میں مصروف انسان کو دیکھ کر یہی احساس ہورہا تھا کہ ان نادانوں کو زندگی کی اوقات کا پتہ ہی نہیں ہے۔
ھائی کورٹ کے باہر کالے کوٹ اور ٹائی والے وکیلوں کو دیکھ کر ایک طنزیہ مسکراہٹ میرے چہرے پر آگئی کہ یہ بدبخت خواہ مخواہ اپنی زندگی ان فضولیات میں ضائع کررہے ہیں۔
انسان کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔
یہ قیمتی لباس، خوشبوئیں، لگژریز اور عیاشیاں۔
یقین کیجئے کہ اگر عام عوام ہر ماہ ایک چکر میڈیکل کالج کے ڈائسیکشن ھال یا ایدھی کے مردہ خانے کا لگا لے تو گناہوں سے تائب ہو جائیں۔
دو تین دن تک کچھ کھانے کو دل نہ کرتا تھا۔ کھانا دیکھ کر معدے میں اینٹھن ہونے لگتی تھی۔ اس کے بعد ہم نے ڈاکٹر بننے کا ارادہ یکسر ترک کردیا اور MBA کی طرف چلے گئے۔۔ شاید اگر میں میڈیکل کالج میں ایڈمیشن سے پہلے یہ سب کچھ نہ دیکھتا اور ایڈمیشن کے بعد جب یہ سب سر پر پڑتا تو کر گزرتا لیکن یہ سب کچھ ایڈمیشن سے پہلے دیکھنے کے بعد میری تو قطعی تاب نہ تھی کہ دوبارہ اس ھال میں قدم بھی رکھوں۔
لیکن اس دن کے بعد سے میرے دل میں میڈیکل کے پیشے سے وابستہ افراد کی عزت مزید بڑھ گئ کیونکہ واقعی ڈاکٹر بننا بڑا دل گردے کا کام ہے۔
تحریر
03/10/2020
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں