لوں سے شہنشاہ کی تواضع کی، کچھ دیر میں دو قبائلی فریق مدعی اور
مدعا علیہ کی حیثیت سے اندر داخل ہوئے، سردار کی یہ جھونپڑی عدالت کا کام بھی دیتی
تھی۔
مدعی نے
کہا، "میں نے اس شخص سے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا تھا، ہل چلانے کے دوران اس
میں سے خزانہ برآمد ہوا میں نے یہ خزانہ اس شخص کو دینا چاہا لیکن یہ نہیں لے رہا،
میں یہ کہتا ہوں کہ یہ خزانہ میرا نہیں ہے، کیونکہ میں نے اس سے صرف زمین خریدی
تھی، اور اسے صرف زمین کی قیمت ادا کی تھی، خزانے کی نہیں".
مدعا علیہ نے جواب میں کہا، میرا ضمیر ابھی زندہ ہے،
میں یہ خزانہ اس سے کس طرح لے سکتا ہوں، میں نے تو اس کے ہاتھ زمین فروخت کر دی
تھی، اب اس میں سے جو کچھ بھی برآمد ہو یہ اس کی قسمت ہے اور یہی اس کا مالک ہے،
میرا اب اس زمین اور اس میں موجود اشیاء سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سردار نے غور کرنے کے بعد مدعی سے دریافت کیا، تمہارا کوئی لڑکا ہے؟
”ہاں ہے" مدعی نے جواب دیا
پھر مدعا علیہ سے پوچھا، اور تمہاری کوئی لڑکی بھی ہے؟
سردار نے غور کرنے کے بعد مدعی سے دریافت کیا، تمہارا کوئی لڑکا ہے؟
”ہاں ہے" مدعی نے جواب دیا
پھر مدعا علیہ سے پوچھا، اور تمہاری کوئی لڑکی بھی ہے؟
”جی ہاں“ مدعا علیہ نے بھی اثبات میں گردن ہلا
دی.
سردار بولا ، " تم ان دونوں کی شادی کر کے یہ خزانہ ان کے حوالے کر دو“
اس فیصلے
نے شہنشاہ کو حیران کر دیا، وہ فکر مند ہو کر کچھ سوچنے لگا-
سردار نے
متردد شہنشاہ سے دریافت کیا، ”کیوں کیا میرے فیصلے سے آپ مطمئن نہیں ہیں؟
“ نہیں
ایسی بات نہیں ہے"، شہنشاہ نے جواب دیا، "لیکن تمہارا فیصلہ ہمارے نزدیک
حیران کن ضرور ہے"۔
سردار نے
سوال کیا،" اگر یہ مقدمہ آپ کے رو برو پیش ہوتا تو آپ کیا فیصلہ سناتے؟
شہنشاہ نے کہا ،
" پہلی تو بات یہ ہے، کہ اگر ایسا ہمارے ملک میں ہوتا تو بیچنے والا مقدمہ کرتا نہ کہ خریدنے والا ۔
بیچنے والے کا اصرار ہوتا میں نے اسے زمین بیچی اور اس سے زمین کی قیمت وصول کی ، اب جبکہ خزانہ نکل آیا ہے، تو اُس پر میرا حق ہے کیوں کہ خزانے کی قیمت میں نے وصول نہیں کی ۔ لہذا مجھے میرا خزانہ دلایا جائے-
جبکہ خریدنے والا کہتا ، کہ جب میں نے اِس سے زمین خریدی ، تو اُس نے بھی میری ہی طرح زمین میں ہل چلایا اور کئی دفعہ چلایا ۔ اُسے خزانہ نہ ملا ، جبکہ میں نے خریدنے کے بعد ہل چلایا تو مجھے میری قسمت سے خزانہ مل گیا اب یہ میرا ہے نہ کہ اِس کا ۔
سردار نے شہنشاہ سے پوچھا ،" پھر تم کیا فیصلہ سناتے؟"
شہنشاہ جواب دیا ، " کچھ نہیں بس ملک کے قانون کے مطابق ،ہم فریقین کو حراست میں لے لیتے اور خزانہ حکومت کی ملکیت قرار دے کر شاهی خزانے میں داخل کر دیا جاتا اور شہنشاہ کی ملکیت بن جاتا "۔
شہنشاہ نے کہا ،
" پہلی تو بات یہ ہے، کہ اگر ایسا ہمارے ملک میں ہوتا تو بیچنے والا مقدمہ کرتا نہ کہ خریدنے والا ۔
بیچنے والے کا اصرار ہوتا میں نے اسے زمین بیچی اور اس سے زمین کی قیمت وصول کی ، اب جبکہ خزانہ نکل آیا ہے، تو اُس پر میرا حق ہے کیوں کہ خزانے کی قیمت میں نے وصول نہیں کی ۔ لہذا مجھے میرا خزانہ دلایا جائے-
جبکہ خریدنے والا کہتا ، کہ جب میں نے اِس سے زمین خریدی ، تو اُس نے بھی میری ہی طرح زمین میں ہل چلایا اور کئی دفعہ چلایا ۔ اُسے خزانہ نہ ملا ، جبکہ میں نے خریدنے کے بعد ہل چلایا تو مجھے میری قسمت سے خزانہ مل گیا اب یہ میرا ہے نہ کہ اِس کا ۔
سردار نے شہنشاہ سے پوچھا ،" پھر تم کیا فیصلہ سناتے؟"
شہنشاہ جواب دیا ، " کچھ نہیں بس ملک کے قانون کے مطابق ،ہم فریقین کو حراست میں لے لیتے اور خزانہ حکومت کی ملکیت قرار دے کر شاهی خزانے میں داخل کر دیا جاتا اور شہنشاہ کی ملکیت بن جاتا "۔
سردار نے حیرت سے پوچھا, "کیا آپ کے ملک
میں سورج دکھائی دیتا ہے؟ "
جی ہاں کیوں نہیں؟ شہنشاہ بولا
" وہاں بارش بھی ہوتی ہے ؟ " سردار نے پوچھا
شہنشاہ بولا ، "بالکل"
”بہت خوب" سردار حیران تھا " لیکن ایک بات اور بتائیں کیا آپ کے ہاں جانور بھی پائے جاتے ہیں، جو گھاس اور چارہ کھاتے ہیں؟"
شہنشاہ نے کہا ، " ہاں ایسے بے شمار جانور ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں"-
"اوہ خوب،میں اب سمجھا "،سردار نے یوں گردن ہلائی، جیسے کوئی مشکل ترین بات اس کی سمجھ میں آگئی ہو۔
جی ہاں کیوں نہیں؟ شہنشاہ بولا
" وہاں بارش بھی ہوتی ہے ؟ " سردار نے پوچھا
شہنشاہ بولا ، "بالکل"
”بہت خوب" سردار حیران تھا " لیکن ایک بات اور بتائیں کیا آپ کے ہاں جانور بھی پائے جاتے ہیں، جو گھاس اور چارہ کھاتے ہیں؟"
شہنشاہ نے کہا ، " ہاں ایسے بے شمار جانور ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں"-
"اوہ خوب،میں اب سمجھا "،سردار نے یوں گردن ہلائی، جیسے کوئی مشکل ترین بات اس کی سمجھ میں آگئی ہو۔
خود کلامی
میں بولا ، "تو اس ناانصافی کی سرزمین میں شاید ان ہی جانوروں کے طفیل سورج
روشنی دے رہا ہے، اور بارش کھیتوں کو سیراب کر رہی ہے"
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں