Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 20 اگست، 2014

اللہ یہ دن کسی کو نہ دکھائے

 یہ تصویر آج "وقت کی آواز" کے فیس بک سے کسی دوست نے مجھے شئیر کی ، عنوان تھا  " اللہ یہ دن کسی کو نہ دکھائے "
اِس تصویر نے یک دم میرے ماضی کے پردے اٹھا دیئے ۔اور میں اپنے لڑکپن میں پہنچ گیا ۔ یوں لگا کہ میں سیکنڈٖوں  اِس تصویر میں گھس گیا ہوں  میرا بایاں ہاتھ  کٹورے میں نوالے پر سالن لگانے جا رہا ہے ، میرے دائیں طرف آپا بیٹھی ہے مجھ سے چھوٹا بھائی  سامنے بیٹھا چینی اور گھی سے روٹی کھا رہاہے ،

بائیں طرف اُس سے  چھوٹی بہن بیٹی ہے اور سب سے (میرے) دائیں طرف   بھائی منہ سور رہا ہے کہ وہ سالن سے روٹی نہیں کھائے گا  ، اُسے  چر چر بولنے والا پراٹھا چاھئیے ۔
یہ وہ منظر ہے جو پاکستان کے 96فیصد ہماری عمر کے بچوں کی آنکھوں میں نقش ہے ۔
 
  ہم بہن بھائی بچپن میں اپنی دادی کے گھر  ایسی ہی چارپائی پر بیٹھ کر ایسے ہی کھانا کھاتے تھے ،
میری دادی اور والدہ اللہ جنت نصیب کرے ، بہترین کھانابناتی تھیں ۔
لیکن سبزی یا دال بننے پر ہم میں سے کوئی ایک بھائی یا بہن ایسے ہی روٹھ کر بیٹھ جاتا تھا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے ، کہ ہمارے ہاں گوشت کا سالن مہینے میں ایک بار بنتا تھا۔
والدہ نے مرغیاں پالی ہوئیں تھیں ۔ جن کے انڈے  کھانے پر کوئی پابندی نہیں تھی ، ہم دعا کرتے کی مرغیاں ٹھیک رہیں اُن پر کوئی بیماری کا حملہ   نہ ہو ورنہ  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
ہم مرغیاں کھاتے کھاتے تنگ آجاتے ۔
مہمانوں کے آنے پر پلاؤ اور زردہ بنتا ۔
سویاں ، امی خود مشین سے رمضان میں نکالتیں ، ہم سب بہن بھائی اُن کی مدد کرتے ۔
دودھ کی کمی نہ تھی ، کیوں کہ تین  بکریوں کادودھ  ہم بہن بھائی  پیتے اور  پڑوس میں کسی کا چھوٹا بچہ ہوتا تو وہ بھی لے جاتے ۔
سبزیاں ، اللہ بخشے والد محترم کو ، اللہ کی زمین گھر کے ارد گر وسیع پانی وافر  اور سبزیوں کے بیج ایسے نکلتے کہ بس کوئی نہ کوئی سبزی ، کھانے کے لئے حاضر ۔
اگر امی جان کو کہیں درس قرآن کے لئے جانا ہوتا تو پھر ،
"نمو  ! جا جلدی سے پودینہ اور ٹماٹر توڑ لا ، ہاں پیاز  کھود کر نکالنا کھینچنا نہیں  " کی آواز سن کر  میں اور  مجھ سے چھوٹابھائی  کچن باغیچے کی طرف دوڑتے ، جو تقریبا ،  آدھ کنال پر تھا ۔
"لالہ ، ٹماٹر میں لاتا ہوں ، تم باقی چیزیں لاؤ" چھوٹا بھائی کہتا ۔
سب کو معلوم تھا کہ اُسے ٹماٹر بہت پسند تھے ،  وہ سب سے زیادہ پکے ہوئے سرخ ٹماٹر لاتا اور دو بڑے  ٹماٹر رکھتا ۔ اُسے اوپر سے کاٹتا  اور اُس کے چاروں  سوراخوں میں پسی ہوئی کالی مرچ اور پتھر کا نمک ، ڈالتا اور ماچس کی تیلی کی الٹی طرف سے ٹماٹر کے سوراخوں میں اسے دھکیلتا ۔ نمک کے اندر جاتے ہی ٹماٹر اپنا رس نکالنے لگتا ۔ جب ٹماٹر رس سے بھر جاتا تو وہ اس کو منہ لگا کر اپنا حصہ پیتا اور پھر سب بہن بھائیوں کو پلاتا ۔
یہی حکم ہم سب کے لئے تھا ۔ مہارت اُس ٹماٹر کے رس کی بنانے میں ہوتی ، جس میں وہ ماہر تھا ، مجھ سے کبھی نمک زیادہ ہوجاتا یا  کالی مرچ ۔
امی  دو قسم کی چٹنیاں بناتیں ، ایک پودینے ، ٹماٹر اور پیاز کو رگڑ کر اور دوسری ٹماٹر اور پیاز  کے ساتھ  مجھے پودینے والی چٹنی سے چڑ تھی لہذا دوسری کھاتا ۔
آموں کے دنوں میں ، ایمرجنسی کھانا ، آم کے ساتھ روٹی کھانا ہوتا ۔
ہمارے ہاں سبزیاں اور دال بنتی لیکن  ایک سالن (ون ڈش)  ہم کل چھ افراد تھے ، امی ایک چائے کا کپ دال کوئی دوسری پانی میں ڈالتیں اور دال بناتیں ، دال تو گھل جاتی لیکن اتنا مزیدار ذائقہ دیتی کہ بیان سے باہر ۔
میری بیوی ، پاؤ دال ہم دونوں کے لئے بناتی ، مزیدار خیر وہ بھی ہوتی ہے ۔لیکن اُس  پتلی دال کی کیا بات ، جس میں خمیری روٹی توڑ کر ڈالی جاتی اور چمچوں سے کھائی جاتی ۔
ہمارے گھر میں دوکمرے تھے ، ایک بڑا اور دوسرا چھوٹا ، دونوں طرف صحن تھے ، سامنے کا صحن بیٹھنے کا اور پیچھے کا صحن باغیچہ ، مرغی خانہ ، بکری خانہ اور کونے میں پاخانہ ۔
سامنے کے صحن میں باورچی خانہ  اور غسل خانہ  اور کونے میں کبوترخانہ  اور خرگوش خانہ  جو اُس وقت ختم ہوا ۔ جب اُنہوں نے "گریٹ سکیپ" کے ہیرو کی طرح اپنے خانے سے  دیور کے نیچے سے گذرتے ہوئے کوئی  80 گز لمبی سنگ کھودی اور جمہور کا باغ اجاڑ دیا ۔پالتو جانور و پرندوں (سوائے مرغی) کو ہمارے گھر میں کھانے کا رواج نہیں تھا   ۔ لہذا خرگوشوں کو گھر سے دور لے جاکر چھوڑ دیا ۔
گھر کے صحن کے بیچوں بیچ لگا نیم کا درخت ، جس کے نیچے ہم سوتے ، نہ بجلی  نہ گیس ، نہ ٹی وی ، بیٹری کا ریڈیو ابا کا مال مقبوضہ  جس کو ہاتھ لگانا تو درکنار ، اُس کی طرف دیکھنا بھی گناہ کبیرہ تھا ، کیوں کہ اُس میں گانے والی  اور غیر محرموں کو اپنی آواز سنانے والی عورتیں   رہتی تھیں ۔ جو قرب قیامت کی نشانیوں کے ظہور میں سے ایک تھی ۔ 
اِس تصویر کو دیکھ کر اِس  اور اِس پر لکھے ہوئے کمنٹس پڑھ کر  ، میں نے یک دم  کہا ،
"اللہ یہ دن سب کودکھائے "۔
اب میں اگر اپنے بچوں کا اپنے بچپن سے موازنہ کروں تو ہم بہت غریب تھے ۔
لیکن ہمارا بچپن ، نہایت شاندار گذرا ، ٹاٹ سکول میں پڑھ کر  ہم سب بہن بھائی ایک بہترین  زندگی  حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ لیکن ہم غریب تھے ہمارے وہ دن بہت سہانے تھے ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میری کہانی  ! ہر اُس  انسان کی کہانی ہے ۔ جس نے محنت کو اپنا شعار بنایا  اور ایلیٹ کلاس میں شامل ہو کر  اپنے ماضی کو یاد رکھا ۔

2 تبصرے:

  1. aaj bhee aisey log hain .Hum log badal gaey hain,zamana badal gaya hai.

    جواب دیںحذف کریں
  2. گمنام ، جی ہاں میرے دادا کا تو نہیں البتہ، پردادا، نانا اور پرنانا کا خاندان بہت بڑا ہے جو کراچی سے لیکر کوھاٹ تک پھیلا ہوا ہے۔ اِس میں ہر زبان بولنے والے لوگ ہیں یہاں تک کہ پشتو ، بلوچی بروہی اور فارسی بولنے والے بھی ہیں ۔
    یہ سب مہاجر ہیں جو پاکستان سے پہلے رزق کی تلاش میں پاکستان بننے سے پہلے ریلوے ، فوج ، پوسٹ آفس ، ٹیلیفون اور بزنس کی وجہ سے مختلف علاقوں میں گئے اور شادیوں کے بعد سسرال آباد کے نزدیک علاقوں میں آباد ہوگئے ۔

    اِن میں سے صرف وہ لوگ جو "تعلیم یافتہ" ہو کر اِس قابل ہوئے کہ اپنے مکانوں میں ڈرائینگ روم یا ڈائیننگ روم بنا سکیں ۔

    باقی سب "بیٹھک " رکھنے والے لوگ ہیں ، جس میں ایک چارپائی ، دو سے چار کرسیاں اور ایک سنٹر ٹیبل ہوتی ہے ۔ اور اِن کے بچے برآمدے یا گھر میں موجود درخت کے نیچے اِسی طرح کی چارپائی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں ۔

    اور 80 فیصد ایسے ہیں ، جو ہماری طرح بیٹھک نہیں رکھتے تھے ۔ لیکن کھانا کھانے کا انداز ، بچوں کا یہی ہوتا ۔ یا فرش پر چٹائی بچھا کر سب مل کر شام کا کھانا کھاتے۔

    میں جب بھی فوج کی سروس میں کار پر اپنے سٹیشن سے میرپورخاص گیا یا واپس ہوا ، مہینے کی چھٹی میں سب سے ملتا ہوا جاتا ۔ یہ عادت مجھے اپنی والدہ سے پڑی تھی ۔ میرا آخری سفر 2004 میں اسلام آباد سے کراچی تک کا کیا تھا ۔

    میں نے غریب سے غریب اور متوسط طبقے تک کے رشتہ داروں کو اللہ کا شکر ادا کرتے پایا ۔

    میری کار سے یا میرے بچوں کے اچھے کپڑوں سے اُنہیں کوئی حسد نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ اُنہیں اور اُن کے بچوں کو معلوم تھا کہ میں منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوا ۔

    میری کوشش ہوتی کہ بچوں میں تعلیم کا شوق ابھاروں جس میں مجھے کامیابی ہوئی لیکن اتنی نہیں ۔ کیوں کہ جس ماحول میں وہ رہتے ہیں وہ اُسی کے دلدادہ ہیں ۔
    زمانہ اُن کے لئے بھی بدلہ ہے لیکن وہ خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے ۔
    '
    گمنام جی : یہ اللہ کا نظام ہے ۔ جس کو وہ چلا رہا ہے ۔

    وہ نہ سب لڑکیوں کو رانیاں بنا سکتا ہے اور نہ سب لڑکوں کو شہزادے ۔ بس وہ اپنے ماں باپ کی رانیاں اور شہزدے رہتے ہیں اور اِسی پر خوش ہیں ۔

    جو اِس نظام کو بدلنے کا دعویٰ کرتا ہے وہ دراصل اپنی حالت سب سے پہلے بدلتا ہے ۔ اور اللہ ایسے شخص کو کیا کہتا ہے آپ بھی پڑھیں :-

    وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّـهَ عَلَىٰ مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ ﴿204﴾ البقرة

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔