ابھی کل کی تو بات ہے !
جب شبنمی قطرے چمکتے تھے
خوش رنگ چہرے پر موتی کی طرح
پھر دبے پاؤں وقت کچھ یوں گذرا
بال جھڑے ، نظر گری اور دانت گرے
تجھے دیکھا تو سب کچھ یاد آیا
کس قدر تیز گذری ہے خالد زندگی
جیسے چیچہ وطنی سے تیز رو گذری
جب شبنمی قطرے چمکتے تھے
خوش رنگ چہرے پر موتی کی طرح
پھر دبے پاؤں وقت کچھ یوں گذرا
بال جھڑے ، نظر گری اور دانت گرے
تجھے دیکھا تو سب کچھ یاد آیا
کس قدر تیز گذری ہے خالد زندگی
جیسے چیچہ وطنی سے تیز رو گذری
کل
گالف کھیل کر شام 6 بجے گھر واپس آیا تو تھکن کا احساس ہوا۔ اپنی سٹڈی میں
بچھے پلنگ پر سوگیا ، صبح حسبِ معمول آنکھ کھلی -
گھڑی کی طرف دیکھا ۔ ساڑھے چار بجے بجے تھے ۔ تو کیا میں 10 گھنٹے بے خود سوتا رہا ۔ اُٹھا واش روم گیا وضو کیا ، کمرے سے باہر نکلا لاونج کی لائیٹ جل رہی تھی ، ڈائیننگ ٹیبل پر کھانا پڑا تھا جو بڑھیا نے رات کو رکھ کر اپنی ڈیوٹی پوری کر دی، کہ بابے کی آنکھ کھلے گی تو خود ہی گرم کر کے کھا لے گا ۔
گھڑی کی طرف دیکھا ۔ ساڑھے چار بجے بجے تھے ۔ تو کیا میں 10 گھنٹے بے خود سوتا رہا ۔ اُٹھا واش روم گیا وضو کیا ، کمرے سے باہر نکلا لاونج کی لائیٹ جل رہی تھی ، ڈائیننگ ٹیبل پر کھانا پڑا تھا جو بڑھیا نے رات کو رکھ کر اپنی ڈیوٹی پوری کر دی، کہ بابے کی آنکھ کھلے گی تو خود ہی گرم کر کے کھا لے گا ۔
کھانے کا موڈ نہیں تھا ۔ بس دودھ گرم کر کے پیا اور لیپ ٹاپ آن کر لیا -
پہلی پوسٹ بشیر اضمد بلوچ کی یہ تصویر تھی ،
میرے دوست ناصرالدین نے اپنے گھر پر میری فیملی کو ڈنر پر مدعو کیا، ملٹن، کینیڈا
دونوں بچپن کے دوستوں کو دیکھ کر دل خوش ہوا ، بشیر بھائی نے تو زندگی کا سفر ہمارے ساتھ گذارا ہے لیکن ناصر الدین سے 1973 کے بعد ملاقات نہیں ہوئی ۔
پچھلے دنوں ، امجد نے فون کیا ۔
" اوئے میجر ، مجھے آزاد نے بتایا کہ تمھارے پاس ہمارے کلب کی ھاکی کی وہ تصویر ہے جو اخبار میں آئی تھی ؟
مجھے وٹس ایپ کرو !"
تو ناصر الدین شیخ (انجنیئر) کی یہ تصویر دیکھتے ہی مجھے ، 1970 کے زمانے کی تصویر یاد اگئی ، نکالی اور ناصر کی تصویر کے ساتھ فوٹوشاپ کر کے بالا اشعار کے ساتھ کمنٹ کر دی ۔ لیکن !
یادیں طوفان میل کی طرح ، دماغ کے سیکٹرز سے نکل کر ذہن کی کواڑوں پر دستک دینے لگیں ۔
کیوں کہ اِن نوجوان چہروں میں سے کئی پیوندِ خاک ہوگئے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں