Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 22 اکتوبر، 2022

قاتل لیاقت علی خان

 شہید وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قاتل کی بیوی نے پچھلے سال ایبٹ آباد میں 25 اپریل 2021ء کو  106 سال کی عمر میں انتقال کیا اور وہ حکومت پاکستان سے 450 روہے ماہانہ اپنے خاوند کی فیملی پنشن بھی وصول کرتی رہیں ۔
قاتل سید اکبر کو تو موقع پر ہی پکڑنے کی بجائے قتل کیا گیا تھا۔مگر اس کے چار بیٹوں اور بیوہ کو ایبٹ آباد کنج قدیم میں ایک گھر آلاٹ کیا گیا اور سخت پہرے میں اس وقت کی جدید ترین سہولیات بھی مہئیا کی گیئں تھیں۔اس کا بڑا بیٹا دلاور خان جو اس وقت 8 سال کا تھا ۔ آج بھی 86 سال کی عمر میں زندہ سلامت اپنے ذاتی بہت بڑے گھر میں شملہ ہل بانڈہ املوک میں رہائش پزیر ہے ۔

کیونکہ جو گھر ان کو اور اس کی ماں کو آلاٹ کیا گیا تھا وہ بیوہ کے نام پہ تھا اور ان کا بچپن وہاں گزرا اور اسی دوران پہرہ دینے والے سپاہی سے ان کی ماں نے شادی کر لی اور اس کے ہاں 5 بچے یعنی چار بیٹے اور ایک بیٹی کی مزید پیدائش ہوئی ،8 بھائی اور ایک بہن والا کنبہ نہایت خوشحال زندگی گزارتا رہا ۔۔

اور بالآخر دلاور خان کی شادی بھی اس کے دوسرے پاکستانی والد بدل زمان خان نے اپنی رشتہ دار سے کروائی جو سات بچوں یعنی چار بیٹوں اور تین بیٹیوں کی ماں ہے ،سید اکبر کے باقی تین بیٹے یکے بعد دیگرے امریکہ میں سیٹل کر دیئے گئے۔۔

دلاور خان کچھ عرصہ شادی کے بعد کابل گیا بقول اس کےاپنی آبائی زمینیں دیکھنے ۔اور اپنی بیوی اور ایک ہی بیٹا جو اس وقت تھا اس کو ماں کے پاس چھوڑ رکھا تھا۔۔8 سال بعد واپس آیا اور بیوی بچے کو بھی لے گیا۔ مگر کچھ عرصہ آنا جانا کرتا رہا ۔اور بالآخر پچھلے 50 سال سے مستقل اپنے ذاتی گھر میں مقیم ہے۔آلاٹ ہوا گھر ماں نے فروخت کر دیا ۔اور دوسرے خاوند کےبچوں کے ساتھ نئے بنگلوں میں رہائش پزیر تھی اور دنیا سے رخصت ہوگئی۔۔۔امید ہے آپ لوگوں کو اس پی ایم کے قتل کے بارے کچھ تو سمجھ آ ئی ہو گی۔۔۔
کسی کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو پوچھ سکتا ہے!
سید اکبر برٹش انڈیا کا افغانستان کیلۓ سیکرٹ انفارمر تھا ان کا ماھانہ 450 روپے وظیفہ مقرر تھا ۔ افغان حکومت نے ناپسندیدہ سرگرمیوں کی وجہ سے اس کی شہریت ختم کر کہ افغانستان میں داخلہ پہ پابندی لگائ تھی۔
جب پاکستان بن گیا تو حکومت پاکستان نے ان کی آئ بی میں سروس اور 450 روپے مستقل وظیفہ برقرار رکھا۔
جب لیاقت علی خان نے روسی ایماء پہ امریکی پالیسیوں پر عملدر آمد کرنے میں ٹال مٹول سے کام لینا شروع کیا تو امریکہ نے اپنے ایجنٹ وزیر دفاع ایوب خان کے زریعے ان کو راستہ سے ھٹانے کا فیصلہ کیا۔

اس سلسلے میں سید اکبر کی ایبٹ آباد میں باقاعدہ ٹرینگ شروع ھوئ۔ چھ مہینہ کی ٹرینگ مکمل کرنے کے بعد ایوب خان نے ان کی ٹرینگ دیکھنے کی خواھش کا اظہار کیا ۔ اس موقعہ پہ پولیس لائین ایبٹ آباد میں باقاعدہ ایک تقریب منعقد ھوئ جس میں سید اکبر نے اپنے فن کا مظاھرہ کیا ایوب خان کے سامنے دو کبوتروں کو ھوا میں چھوڑا گیا سید اکبر نے دونوں کبوتروں کو ھوا میں اپنی پسٹل سے نشانہ لگا کہ مار گرایا۔
اس تقریب کے چند مہینہ بعد ایوب خان امریکہ کے دورے پہ چلے گیے ابھی وہ امریکہ میں ھی تھے کہ راولپنڈی میں لیاقت علی خان کے قتل والے منصوبے کو عملی جامہ پہنادیا گیا۔
سید اکبر کی پوری فیملی کو امریکی نیشنلٹی سے نوازا۔ ان کے تیسرے اور آخری بیٹے کو ۲۰۰۳ میں امریکن نیشنلٹی ملی ۔ اس کے بعد ان کی ساری فیملی امریکہ شفٹ ھو چکی ھے ۔
یہ ساری تفصیلات انگریزی روزنامہ ڈان میں چھپ چکی ھیں۔آپ گوگل کر سکتے ھیں ۔  


ان کے قتل کے بعد ڈی آئی جی کی قیادت میں ایک کمیشن بنا۔ ڈی آئ جی نے اپنی رپورٹ مکمل کی تو اسے پشاور ھائی کورٹ میں جمع کروانا تھا وہ لاھور سے جہاز کے زریعے پشاور آ رھے تھے ۔ جہلم کے قریب ان کے جہاز کو نشانہ بنایا گیا ڈی آئ جی صاحب رپورٹ سمیت ھی جہلم کی پہاڑیوں میں رزق خاک ہو گئے ۔ (منقول) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔