Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 14 اگست، 2021

اللہ حافظ، میں تو اپنے جہاز پر جا رہا ہوں۔

٭محمد حنیف کا کالم: جنرل مرزا اسلم بیگ کی مجبوریاں
تحریر : سابقہ پائلٹ آفیسر محمد حنیف
انتخاب : سید رضی الدین احمد، گروپ کیپٹن (ریٹائرڈ)
اشاعت : ویب سائٹ بی بی سی اردو مورخہ ۱۳ اگست ۲۰۲۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدائیہ اور تعارف :
’’مجھے اگر جنرل ضیا کے جہاز کی مجرمانہ تحقیقات کا انچارج بنایا جاتا تو میں سیدھے سیدھے چار لوگوں کو اندر کرکے آدھے گھنٹے میں سب کچھ اگلوالیتا۔ دو خاکی اسلم بیگ اور محمود درانی اور دو شاہین۔ فاروق فیروز اور حکیم اللہ‘‘۔ یہ الفاظ میرے ضرور ہیں مگر پہلی بار جس کے منہ سے سنے وہ اور میں ۱۹۹۰ میں شورکوٹ کے ریلوے اسٹیشن پر بیٹھے ایکسپریس ٹرین کا انتطار کررہے تھے۔
المیہ یہ ہے کہ یہ چاروں شخصیات آج بھی زندہ ہیں مگر کہنے والے ظہیر زیدی کو گروپ کیپٹن بن کر بعد از ریٹائرمنٹ انتقال ہوئے کئی برس گزرچکے ہیں۔  پیچیدہ مسائل یا تاریخ کے وہ سوال جن کا جواب تسلی بخش نہ مل سکا ہو انکو کھوجنا۔۔۔میرے پسندیدہ مشاغل رہے ہیں۔ اور جنگ جمل ہو، لیاقت علی خان کا قتل یا جنرل ضیا کے جہاز کا حادثہ۔۔۔سب کچھ کھودا۔  الجبرا کا اچھا طالب علم رہنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر سوال کا حل نہ نکل رہا ہو تو پہلے جواب حاصل کرلو اور جواب سے  واپس سوال کی طرف کا سفر کیا جائے۔ یوں بہت ساری گمشدہ کڑیاں خود بخود مل جاتی ہیں۔
قتل کے وہ مقدمات جن میں ہم آج تک پھنسے ہوئے ہیں انکا حل نکالنے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ جواب پہلے ڈھونڈا جائے۔ اور لیاقت علی خان کا قتل ہو یا ضیا کا۔ ان تمام لوگوں کو ڈھونڈا جائے جنکو ان حادثوں سے فائدہ پہنچا یا یوں کہہ لیں کہ حادثے کے بعد کون کہاں پہنچا یا کیا بن گیا۔ ان دونوں حادثات میں البتہ میں کسی غیر ملکی طاقت کا براہ راست ہاتھ ہونا کبھی نہیں مانتا۔ انکو صرف پتہ ضرور ہوتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ باقی الحمداللہ اپنے اس کام کیلئے کافی ہوتے ہیں۔ اسمیں بے نظیر کا قتل بھی شامل ہے۔‘‘
اتنی تمہید اس لئے باندھی کہ کرنل اشفاق حسین جو خود آئی ایس پی آر سے منسلک رہے اور پروتوکول وغیرہ کی نزاکتوں کو بخوبی جانتے ہیں مگر عرصے سے اسی نرگسیت کا شکار ہیں جسمیں بیگ صاحب بھی مبتلا ہیں، انہوں نے مرزا اسلم بیگ کی سوانح تحریر کرکے مارکیٹ میں پھیلادی۔ کہتے ہیں پوت کے پائوں پالنے میں نظر آجاتے ہیں اور بریانی کی دیگ سے ایک چاول چکھ کر ماہر باورچی پوری دیگ کے بارے میں جان لیتا ہے۔ گویا تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ یہی اس کتاب کا سرورق دیکھ کر سمجھ آگیا جب کرنل اشفاق نے دھڑلے سے اپنے نام کیساتھ (ریٹائرڈ) لکھنے کا کوئی تکلف یا کھڑاک ڈالنا مناسب نہیں سمجھا۔ اندازہ ہوگیا اندر سچ کا کتنا خیال رکھا گیا ہوگا۔
ہمارے پاکستان میں ایک صحافی ہیں ۔ ہمالیہ کی چوٹی پر ہمالیہ رکھ دیں تب بھی انکی بقلم خود صحافتی عظمت کو نہ چھو سکے انکی ایک بڑی زبردست خوبی ہے۔ کسی بھی مشہور شخص کے مرنے کے بعد اس سے اپنی کسی ایسی ماضی کی ملاقات کا تذکرہ لکھ ڈالیں گے اور اسمیں ایسے ایسے انکشافات ہونگے کہ سنتا جا شرماتا جا۔ میر تقی میر اور میر درد سے زیادہ میر جعفر سے زیادہ مماثلت رکھتے ہیں۔ ۔۔۔  اسلم بیگ صاحب کی سوانح میں یہ کرتب بارہا دیکھنے کو ملا۔ ہر وہ شخص جو دنیا سے جاچکا (یا لگ بھگ جانے والا ہی سمجھیں)۔ بیگ صاحب نے اسے ضرور کوئی مشورہ دیا اور اسنے اس پر عمل نہ کرکے گھاٹے کا سودا کیا۔ واہ واہ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سیانے بتاتے ہیں کہ بیگ صاحب نے ضیا کی جگہ لینے کیلئے زور تو بہت لگایا مگر انکا جادو چل نہ پایا۔ اور وہ آج تک اقتدار کے ان۔۔۔ ان چکھے انگوروں کو کھٹا گردانتے ہیں۔
بہرحال کتاب کیا ہے۔ آدھے سچوں کا یک طرفہ ملغوبہ اور خود نمائی کیساتھ محض جھوٹ اور خود ساختہ دعووں کا مجموعہ۔۔ اشاعت کے بعد میرا جو بھی تبصرہ تھا وہ مجھ تک ہی موقوف تھا لیکن اب اس کتاب پر پھٹتے آموں والے محمد حنیف نے کالم لکھ کر سارے تبصروں پر سیاہی پھیر دی۔ حضرت خود بھی پاک فضائیہ میں پائلٹ نہ سہی مگر پائلٹ آفیسر ضرور رہے۔ اور ضیا کے حادثے کے بعد استعفی دے کر اس وقت کونے کونے نکل لئے جب خاکسار فلائنگ آفیسر کا یونیفارم پہن رہا تھا۔
محمد حنیف کا یہ کالم یا کتاب پر تبصرہ ۔۔۔کاپی پیسٹ ہے۔ ابتدائیہ اسلئے لکھا تاکہ اس تحریر سے لطف اٹھایا جاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنرل اسلم بیگ کی کتاب کا نام سن کر تھوڑی حیرت ہوئی۔ کتاب کا عنوان ہے ’اقتدار کی مجبوریاں‘۔ حیرت اس لے کہ اسلم بیگ کی وجہ شہرت تو ہے ہی یہی کہ وہ باوجود ایک سنہری موقع ملنے کے اقتدار میں نہیں آئے۔
بلکہ جس لمحے انھوں نے اپنے چیف جنرل ضیاالحق کو بہاولپور میں خدا حافظ کہا اور یہ کہہ کر جائے وقوعہ سے نکل لیے کہ میرے پاس تو اپنا جہاز ہے۔ وہ قوم کو مسلسل یہی بتاتے رہے ہیں کہ دیکھو میں مارشل لا لگا سکتا تھا لیکن میں نے نہیں لگایا۔ میں اقتدار سنبھال سکتا تھا لیکن نہیں سنبھالا۔

اگر یادداشت صحیح ساتھ دیتی ہے تو اقتدار نہ سنبھالنے پر انھیں اور ان کے ساتھ پوری افواج پاکستان کو بے نظیر بھٹو نے تمغہ جمہوریت بھی دیا تھا۔

تب بھی کسی نے کہا تھا کہ بی بی پتا نہیں ان کو تمغہ لگا رہی ہے یا جُگت۔
لیکن کتاب کے شروع میں ہی اسلم بیگ نے وضاحت کر دی ہے کہ اقتدار کی مجبوریاں دراصل جنرل ضیا الحق کے الفاظ ہیں جو انھوں نے اس وقت کہے جب جنرل بیگ انھیں قائل کر رہے تھے کہ وہ مارشل لا اٹھا کر جمہوریت بحال کر دیں۔ جنرل ضیا نے یہ بھی کہا تھا کہ کیا مجھے پھانسی لگواؤ گے، جنرل ضیا اسلم بیگ کی بات نہیں مانے اور وہ یہ سنہرے الفاظ کہہ کر چل دیے کہ میں تو اپنے جہاز میں جا رہا ہوں۔ جنرل ضیا کا انجام سب کے سامنے ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ اسلم بیگ کی کتاب کا دو لائنوں میں خلاصہ کر دیں تو وہ یہی ہو گا کہ جس نے بھی جنرل اسلم بیگ کی بات نہیں مانی اس کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ اس میں بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، سپریم کورٹ کے کئی جج، اصغر خان، روس اور امریکہ بھی شامل ہیں اور جنرل مشرف بھی جنھوں نے ایک میٹنگ میں جب جنرل بیگ کا خطاب سُنا تو ایسی گھگھی بندھی کہ آج تک بندھی ہوئی ہے۔

کتاب ہے تو جنرل مرزا اسلم بیگ کی سوانح حیات لیکن یہ خودنوشت نہیں ہے۔ فوج کے مشہور مزاحیہ اور سنجیدہ ادیب کرنل اشفاق حسین نے لکھی ہے۔ بقول ان کے وہ جنرل بیگ سے پی ایم اے کاکول میں گزارے دنوں کی کچھ باتیں پوچھنے گئے تھے لیکن گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا گیا اور یہ کتاب بن گئی۔
یہ وہی بات ہے کہ ایک سڑک پر کسی راہگیر سے منزل کا راستہ پوچھیں اور وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر ساتھ بیٹھ جائے اور کہے کہ چلیں آپ کو گھر ہی چھوڑ آتا ہوں۔

جنرل اسلم بیگ نے اقتدار نہ سنبھالنے کے بعد ہماری قوم کو سٹریٹیجک ڈیپتھ (جس کا اُردو ترجمہ تزویراتی گہرائی ہے اور یہ ایک ایسی اصطلاح ہے کہ کسی زبان میں ترجمہ ہو کر سمجھ نہیں آتی) کا تحفہ دیا تھا۔
دفاعی تجزیہ نگاروں نے سمجھایا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انڈیا ہم پر حملہ آور ہو گا تو چونکہ افغانستان ہمارا بھائی ہے تو ہم ان کی سرزمین کو اپنے دفاع کے لیے استعمال کریں گے۔ یعنی اپنا اسلحہ بارود جنگی جہاز افغانستان میں پہنچا دیں گے اور پھر وہاں سے دشمن کا مقابلہ کریں گے۔
اس کتاب میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ آخر ان کا نظریہ سچ ثابت ہوا ہے اور جس طرح سے انھوں نے ثابت کیا ہے لگتا ہے کہ وہ صرف ہمارے عسکری اثاثوں کو نہیں پوری قوم کو دھکیل کر افغانستان پہنچا دیں گے۔
پھر پاکستان میں ان کے فور سٹار ساتھیوں کی کہکشاں گالف کھیلے گی اور پوری دنیا مانے گی کہ چرچل کے بعد کوئی بندہ آیا تھا تو بیگ تھا۔ جنرل اسلم بیگ میں چرچل کی خصوصیات کرنل اشفاق صاحب نے نہیں ڈھونڈیں، بیگ صاحب نے خود ہی بتائی ہیں۔

یہ کتاب اپنے منھ میاں مٹھو بننے اور خود ترحمی کا ایک حسین امتزاج ہے۔ ایک صفحے پر وہ فرماتے ہیں کہ روس کی شکست و ریخت میں اس ناچیز کا بھی حصہ ہے۔ تھوڑا آگے چل کر شکایت کرتے ہیں کہ حکومت نے میری سیاسی سرگرمیوں سے گھبرا کر میرا سرکاری باورچی مجھ سے چھین لیا۔
اقتدار نہ سنبھالنے، الیکشن میں دھاندلی نہ کروانے کے بعد اپنی مرضی سے ریٹائر ہونے کے بعد جنرل بیگ نے ایک غیرسرکاری تنظیم بنائی تھی ’فرینڈز‘ کے نام سے لیکن جنرل مشرف اُن کی مقبولیت سے اتنا گھبرا گئے کہ اس کی فنڈنگ بند کروا دی اور سب دوست فرینڈز کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔
آپ کو شاید نہ پتا ہو کہ اس کے بعد انھوں نے عوامی قیادت پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت بھی بنائی جس کی بینظیر بھٹو کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمینٹ بھی ہو گئی تھی۔ (جنرل بیگ کی پارٹی کو قومی اسمبلی میں سات نشستیں ملنی تھیں۔)

لیکن جیالے ہی نہیں مانے۔ دوسری جماعتوں کے ساتھ بھی اتحاد بنے لیکن جب وہ اجلاس میں اپنے نظریات بیان کرتے تو باقی سیاسی رہنما سیاست کی بات کرنے لگتے۔ ملک کے سیاستدانوں سے مایوس ہو کر انھوں نے اخبارات میں مضمون لکھنے شروع کیے، مشرف پھر گھبرا گیا تو وہ بھی بند کروا دیے۔

جنرل بیگ کو اپنی ذات، اپنے ملک، اپنے ادارے اور اپنی تزویراتی گہرائی سے زیادہ اگر کسی سے محبت ہے تو وہ افغان طالبان ہیں۔ وہ ان کو اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اور دنیا میں مسلمانوں کے عروج کا نقطہ آغاز دیکھتے ہیں۔ اگرچہ ان میں چرچل والی خصوصیات ہیں لیکن ان کا خواب ملا عمر بننا ہے۔ (اگر ملا عمر کو گالف کھیلنے کا اور اپنا جہاز رکھنے کا شوق ہوتا تو شاید وہ جنرل اسلم بیگ بننا چاہتے۔)

افغان طالبان سے اتنی عقیدت کے باوجود وہ پوری کتاب میں وہ ’افغانی‘ اور ’افغانیوں‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جسے افغان اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں لیکن شاید یہ چرچل جیسی خوبیوں والے ناچیز مسیحا کو اجازت ہے کہ وہ جیسی چاہے زبان استعمال کرے۔

ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل بیگ کی زندگی کا سب سے شاندار لمحہ وہ تھا (یا اللہ تیرا شکر تو نے مجھے اتنی عزت دی) جب رچرڈ آرمیٹاج ان سے ملنے ان کے گھر آئے۔ یہ وہی آرمیٹاج تھے جنھوں نے مشرف کو دھمکی دی تھی کہ پاکستان پر بمباری کر کے پتھر کے زمانے میں پہنچا دوں گا۔ (رچرڈ سے پہلے ایک اور مشہور آدمی بھی جنرل بیگ کے گھر آیا تھا وہ الطاف حسین تھے لیکن ان کے ٹیبل مینرز جنرل صاحب کی اہلیہ کو پسند نہیں آئے تھے جنرل بیگ نے اپنے سیاسی کریئر میں ایک دفعہ ایم کیو ایم کے عظیم طارق کے ساتھ مل کر بھی تنظیم بنانے کا سوچا لیکن عظیم طارق نے تھوڑا ٹرخا دیا۔ کیا ہوا انجام عظیم طارق کا۔)

بہرحال رچرڈ آرمٹیاج دست بستہ حاضر ہوئے کہ ہمارے طالبان سے مذاکرات شروع کروا دو۔ جنرل بیگ نے آئی ایس آئی والے مشہور کرنل امام کو گھر بلا کر رچرڈ بھائی سے ملوا دیا۔ لیکن کرنل امام کو اکیلے میں یہ مشورہ بھی دیا کہ یہ بندہ بھی خطرناک ہے اور ہمارے سرحدی علاقوں میں بھی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔

لیکن کرنل امام چل پڑے مذاکرات کروانے اور کبھی واپس نہ آئے۔ مجھے شاید آپ کو پہلے ہی بتا دینا چاہیے تھا کہ جس نے جنرل اسلم بیگ کی بات نہیں مانی اس کا انجام کچھ زیادہ اچھا نہیں ہوا۔

کرنل اشفاق جنٹلمین بسم اللہ، جنٹلمین الحمداللہ اور کئی مشہور کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کا انداز شگفتہ ہے اور وہ فوجی زندگی کے بارے میں اس اسلوب میں لکھتے ہیں کہ سویلین قاری بغیر ڈرے ہوئے کھل کر ہنس لیتا ہے۔ لیکن اقتدار کی مجبوریاں پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ کرنل صاحب کو شاید اس کتاب کا نام جنٹلمین استغفراللہ رکھنا چاہیے تھا لیکن کتب کی پشت پر دیکھا تو پتہ چلا کہ وہ اس نام سے پہلے ہی ایک کتاب لکھ چکے ہیں۔

اگر کسی مجبوری کے تحت آپ کو اقتدار کی مجبوریاں پڑھنی پڑھ جائے تو میری طرح شاید آپ کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہو کہ اللہ وہ دن ہم سب پر لائے جب ہم اپنے باس کو کہہ سکیں اللہ حافظ، میں تو اپنے جہاز پر جا رہا ہوں۔


 

٭٭٭٭٭٭٭٭۔

پڑھیں :
٭۔ اقتدار کی مجبوریاں 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔