Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 23 اگست، 2021

زیر سماعت مقدمے کا مُلزم، جج کا سمدھی

 ‏افتخار چوہدری کے سامنے لاہور کے پراپرٹی ٹائیکون ڈاکٹر امجد کا    دو ارب روپے کا  ای او بی آئی فراڈ کیس آیا۔

ای او بی آئی   کے  پیسے آج تک  واپس نہیں ہوئے۔

 کیس کے دوران ہی افتخار چوہدری کی بیٹی کی شادی ڈاکٹر امجد کے بیٹے سے ہو گئی۔ اُس کے بعد ڈاکٹر امجد نے ایڈن ہاؤسنگ کے نام سے تیرہ ارب روپے عوام سے لُوٹے ‏اور مُلک سے فرار ہو گیا۔
چیئرمین نیب نے ڈاکٹر امجد اور مُرتضٰی امجد (داماد افتخار چوہدری) کے وارنٹ جاری کئے اور انٹرپول نے دُبئی میں مُرتضٰی امجد کو گرفتار کر لیا۔

 لیکن لاہور ہائی کورٹ کے جج شہزاد خان (جسے افتخار چوہدری نے تعینات کیا تھا) نے وارنٹ غیر قانونی قرارداد دے دیے اور انٹرپول نے مُرتضٰی کو رہا کردیا۔ ڈاکٹر امجد اور مُرتضٰی فیملی سمیت کینیڈا چلے گئے۔

 نیب نے ڈاکٹر امجد وغیرہ کو اشتہاری قرارداد دے کر اُس کی پچیس ارب جائیداد کی نیلامی شروع کر دی تو جسٹس قاسم خان نے جسے افتخار چوہدری نے تعینات کیا تھا، یہ نیلامی روک دی، ڈاکٹر امجد واپس آ گیا۔
‏جسٹس قاسم نے گرفتاری سے روک دیا، ڈاکٹر امجد نے تیرہ ارب کی پلی بارگین کی درخواست دی تو نیب نے کہا کہ  ، رقم  پچیس ارب کی ہیں کیونکہ عوام کا تیرہ ارب دس سال استعمال کر کے پچیس ارب کے اثاثے بنائے گئے
‏ابھی یہ معاملہ چل رہا تھا کہ  رات 23 اگست 2021 کو   ڈاکٹر امجد کا انتقال ہو گیا۔

مرتضٰی امجد ابھی مفرور ہے۔

  گیارہ ہزار متاثرین ایڈن دس سال سے تباہ ہو گئے۔ نہ پلاٹ، نہ گھر اور نہ ہی رقم واپس ہوئی۔

چوہدری افتخار کی بیٹی اور داماد کینیڈا، بیٹا ارسلان بھی کروڑ پتی، آدھے جج جیب میں۔

یوں  پنشنرز کے دو ارب اور گیارہ ہزار متاثرین کے پچیس ارب ڈُوب گئے۔

انسانی تاریخ میں کوئی ایسی مثال ہے کہ جب زیر سماعت مقدمے کا مُلزم، جج کا سمدھی بن گیا ہو؟

٭٭٭٭٭٭٭٭

اگلا مضمون پڑھنے کے لئے ۔

 ٭٭٭٭واپس ٭٭٭ ٭ 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔