Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 6 اگست، 2021

الیگزنڈر فلیمنگ، پنسلین اور رائلٹی

جب الیگزنڈر فلیمنگ نے پنسلین کی ایجاد کی تو دوا ساز کمپنیوں نے اُسے 10 فیصد رائلٹی کی پیشکش کی جو اُس نے کم سمجھ کر قبول نہ کی اُس کا خیال تھا کہ سارا کام تو اُس نے کیا جبکہ کمپنی اُسے فقط 10 فیصد پر ٹرخا نے کی کوشش کر رہی تھی تاہم جب الیگزنڈر فلیمنگ نے 10 فیصد رائلٹی کا تخمینہ لگوایا گیا تو پتہ چلا کہ وہ لاکھوں پاؤنڈ ماہانہ بنتے تھے ۔ اُس نے سوچا کہ اتنی رقم کو وہ کہاں سنبھال کر رکھے گا ۔ اس سلسہ میں اپنی نااہلی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُس نے پنسلین کا نسخہ ایک فیصد رائلٹی کے عوض دوا ساز کمپنی کو اس شرط پر دینے کا فیصلہ کیا کہ معاہدے کی تمام شِقیں الیگزنڈر فلیمنگ کی منشا کے مطابق ہوں گی ۔کمپنی نے یہ بات مان لی
تاہم جب الیگزینڈر فلیمنگ شرطیں ٹائپ کرنے کے لئے بیٹھا تو اُسے لگا کہ ایک فیصد رائلٹی بھی اتنی زیادہ بن رہی تھی کہ وہ ساری عمر ختم نہ ہوتی جبکہ اس کی خواہش سوائے سیر و سیاحت اور تحقیق کے اور کچھ نہیں تھی ۔ یہ سوچ کر الیگزنڈر فلیمنگ نے آدھی رات کے وقت ایک معاہدہ ٹائپ کیا اور لکھا
”میری یہ دریافت میری ذاتی ملکیت نہیں ۔ یہ ایک عطیہ ہے جو مجھے امانت
کے طور پر ملا ہے ۔ اس دریافت کا عطا کنندہ خدا ہے اور اس کی ملکیت پوری خدائی ہے ۔ میں اس دریافت اور اس انکشاف کو نیچے دیئے گئے فارمولے کے مطابق عام کرتا ہوں اور اس بات کی قانونی ،شخصی،جذباتی اور ملکیتی اجازت دیتا ہوں کہ دنیا کا کوئی ملک ،کوئی شہر،کوئی انسان ، معاشرہ جہاں بھی اسے بنائے ، وہ اس کا انسانی اور قانونی حق ہوگا اور میرا اس پر کوئی اجارہ نہ ہوگا“۔
الیگزنڈر فلیمنگ سے پوچھا گیا کہ ”وہ کس بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ پنسلین کی ایجاد خدا کی طرف سے انہیں ودیعت کی گئی تھی؟“
الیگزنڈر فلیمنگ نے اس بات کا تاریخی جواب دیا
”میں اسے دنیا تک پہنچانے کا ایک ذریعہ یا ایک آلہ ضرور تھا لیکن میں اس کا مُوجد یا مُخترع نہیں تھا۔ صرف اس کا انکشاف کرنے والا تھا اور یہ انکشاف بھی میری محنت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ خداوند کا کرم اور اس کی عنایت تھی ۔ اصل میں جتنے بھی انکشافات اور دریافتیں ہوتی ہیں وہ خدا کے حُکم سے اور خدا کے فضل سے ہوتے ہیں ۔ خدا جب مناسب خیال کرتا ہے اس علم کو دنیائے انسان کو عطا کر دیتا ہے ۔ نہ پہلے نہ بعد میں ، ٹھیک وقت مقررہ پر ، اپنے حکم کی ساعت کے مطابق ۔ 

میں نے اس اصول کو لندن کے ایک مقامی اسکول میں بچوں کی آسانی کے لئے یوں سمجھایا تھا کہ خدا کے آستانے پر ایک لمبی سلاخ کے ساتھ علم کی بے شمار پوٹلیاں لٹک رہی ہیں ۔ وہ جب چاہتا ہے اور جب مناسب خیال فرماتا ہے ۔ قینچی سے ایک پوٹلی کا دھاگا کاٹ کر حُکم دیتا ہے کہ سنبھالو عِلم آ رہا ہے ۔ ہم سائنسدان جو دنیا کی ساری لیبارٹریوں میں عرصے سے جھولیاں پھیلا کر اس علم کی آرزو میں سرگرداں ہوتے ہیں ۔ ان میں سے کسی ایک کی جھولی میں یہ پوٹلی گر جاتی ہے اور وہ خوش نصیب ترین انسان گردانا جاتا ہے“ ۔
آج  6 اگست ، دنیا کی پہلی اینٹی بائیوٹک بنانے والے الیگزینڈر فلیمنگ کی سالگرہ ہے ۔

لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایک غریب کسان کو بیٹے کو دنیا کا مشہور آدمی بنانے میں کس کا حال ہے۔

  سکاٹ لینڈ کا  ایک غریب کسان کی جو ایک روز کھیتوں کی طرف جا رہا تھا تب رستے میں اس نے ایک جانب سے کسی کے چیخنے کی آواز سنی ۔وہ فوراً اس جانب گیا تو اس نے دیکھا کہ ایک بچہ دلدل کے ایک جوہڑ میں ڈوب رہا ہے کسان نے اسے تسلی دی اور پرسکون کیا پھر درخت کی ایک شاخ توڑ کر بچے سے کہا یہ پکڑ لو میں تمہیں کھینچ لیتا ہوں کچھ دیر کی کوشش کے بعد بچہ باہر نکل آیا ۔

کسان نے بچے سے کہا میرے گھر چلو میں تمہارے کپڑے صاف کرا دیتا ہوں لیکن بچے نے کہا میرے والد صاحب انتظار کر رہے ہوں گے اور یہ کہ کر وہ بھاگ گیا ۔ اگلی ہی صبح کسان اٹھا تو اس نے دیکھا گھر کے باہر ایک خوبصورت بگھی کھڑی ہے پھر اس بگھی میں سے ایک رعب دار شخص نمودار ہوا۔ 

اس نے کسان کا شکریہ ادا کیا اور کہا ! میں آپکو اسکا کیا صلہ دوں ؟ کیونکہ آپ نے میرے بیٹے کی جان بچائی۔

 غریب کسان نے کہا ! آپ کا شکریہ جناب میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو وہ یہی کرتا مجھے کسی صلے کی ضرورت نہیں۔

 اُس رئیس نے بہت اصرار کیا لیکن کسان نے قبول نا کیا تو جاتے جاتے اسکی نظر کسان کے بیٹے پر پڑی کہنے لگا! کیا یہ آپ کا بیٹا ہے؟ 

کسان نے محبت سے بیٹے کا سر سہلاتے ہوئے کہا جی جناب یہ میرا ہی بیٹا ہے۔

 رئیس بولا ! چلو ایک کام کرتے ہیں میں اسکو اپنے ساتھ لندن لے جاتا ہوں اسے پڑھاتا ہوں ۔ بیٹے کی محبت میں کسان نے وہ پیشکش قبول کر لی ۔

 اسکا بیٹا لندن چلا گیا پڑھنے لگا اور اتنا پڑھا کہ دنیا بھر میں مشہور ہو گیا ۔  دنیا اسے” الیگزینڈر فلیمنگ“ کے نام سے جانتی ہے ۔ 

جی ہاں وہ فلیمنگ جس نے پینسلین ایجاد کی۔ وہ پینسلین جس نے کروڑوں لوگوں کی جان بچائی ۔ اور وہ رئیس جس کے بیٹے کو کسان نے دلدل سے نکالا تھا ۔

وہی بیٹا جنگِ عظیم سے پہلے ایک بار پھر ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا پھر دوبارہ فلیمنگ کی پینسلین سے اسکی زندگی بچائی گئی ۔

 اور وہ رئیس روڈولف چرچل تھے اور انکا بیٹا ونسٹن چرچل تھا وہ چرچل جو جنگ عظیم میں برطانیہ کا وزیراعظم تھا۔

 بظاہر کسان کی طرف سے کی گئی وہ چھوٹی سی بھلائی تھی لیکن سوچیں اس سے کتنا فائدہ ہوا ۔

٭٭٭٭٭٭۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔