پٹایا، جابوٹی کابا، رامبوتان، دوریان ہے کہ میں کس کے بارے میں بات کر رہا ہوں؟
ذرا اندازہ لگانے کی کوشش کریں میں جلد ہی بتاؤں گا کہ یہ کیا ہیں لیکن پہلے بچوں کی دنیا کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر بچے کے بارے میں سوچیں ،بچے جب کسی نئے شخص کو دیکھتے ہیں تو وہ کئی سیکنڈ تک ان پر پوری توجہ سے فوکس کرتے ہیں یا جب وہ پہلی بار بارش کو دیکھیں گے تو جوش اور حیرانی سے دیکھیں گے۔
حقیقت یہ ہے وہ جو بھی دیکھتے ہیں اس سے حیران ہو جاتے ہیں تصور کریں کہ آپ ایک دن بیدار ہوں اور آپ کی تمام یادداش بلکل مٹ چکی ہو آپ ایک بار پھر نئے پیدا ہوئے بچے کی طرح ہو چکے ہو!
ایک بچے کی طرح آپ ہر چیز سے حیران ہوں گے پہلی بار برف کے گولے دیکھنے کا خیال کریں آپ پر جوش ہو جائیں گے اور شاید آسمان کے طرف دیکھیں گے اور سوچیں گے کہ یہ روئی کے گولے کہاں سے آ رہے ہیں ؟
یا جب آپ آسمان کے طرف دیکھیں اور آپ کو بادل دکھائی دے آپ حیران ہوں گے کہ وہ خود بخود کیسے تیر رہے ہیں آپ نئی نئی چیزوں کو دریافت کرنے کے جوش کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔
پھلدار دختوں پر پکنے والے تمام پھل زمین پر کیوں گرتے ہیں یا دختوں کے پتے خزاں میں نیچے کیوں آتے ہیں ۔ ہلکے ہونے کے باوجود وہ اوپر کیوں نہیں جاتے ۔ یہاں تک کے پرندوں کےجھڑنے والے پر بھی آہستہ آہستہ زمین پر آتے اور یہ صدیوں سے ایسا ہے ہو ررہا ہے ۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ جب ہم اس وقت ان واقعات سے گزر رہے ہیں تو ہمیں حیرت کا کوئی احساس نہیں ہوتا کیوں کہ سب چیزیں ہمارے سامنے ہو رہی ہیں اور ہم اس حقیقت پر حیران نہیں ہوتے۔
کہ بارش ایسے گھنے بادلوں سے گزر کر آ رہی ہے یا گوشت سے بنا انسان درجنو جذبات رکھتا ہے ہنسنا رونا پرجوش ہونا یہ چیزیں ہمیں حیران کیوں نہیں کرتے آخرکار آپ مادے سے بنے ہیں
ٹھیک ہے نا آپ کو ہنسی کیوں آتی ہے آپ جذبات کیوں محسوس کرتے ہو آپ تو صرف ایک مادہ ہو اس کا مطلب ہے کہ اس مادے کے پیچھے ایک روح موجود ہے اور اسی کی وجہ سے ہم ان احساسات کو محسوس کرتے ہو آپ تو صرف ایک مادہ ہو اس کا مطلب ہے کہ اس مادے کے پیچھے ایک روح موجود ہے اور اسی کی وجہ سے ہم ان احساسات کو محسوس
کر سکتے ہیں تو یہ خیالات ہمیں حیران کیوں نہیں کرتے آپ میں سے کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں کیا حرج ہے ہم جان چکے ہیں کہ یہ واقعات کیسے رونما ہوتے ہیں اور اس لیے آپ مزید حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے لیکن
کیا ہم واقعی جان چکے ہیں یا ہم صرف اس کے عادی ہو گئے ہیں بے شک حقیقت یہ ہے کہ یہ جاننا نہیں ہے بلکہ چیزوں کا عادی ہو گئے ہیں بے شک حقیقت یہ ہے کہ یہ جاننا نہیں ہے بلکہ چیزوں کا عادی ہو جانا ہے اور یہ پہلی چیز ہے جو ہمیں اپنی روزمارہ کی زندگی میں خدا کو بھلا دیتی ہے
عادت یہ ان لوگوں کے لیے سب سے خطرناک صورتحال ہے جو خدا کے وجود کا ثبوت تلاش کر رہے ہوں اور ان لوگوں کے لیے جو اسے جاننا چاہتے ہوں اور یہ ایتھیسٹ کی ایتھیسٹ ہونے کی مختلف وجوہات میں سے ایک ہے آپ جانتے ہوں گے کہ آپ کا ایتھیسٹ دوست
ہر وقت یہ کہتا ہے کہ میں ایک خالق کی تلاش میں ہوں لیکن مجھے وہ کہیں نہیں مل رہا یہی وجہ ہے اپنی روایتی ماحول اور انہی فطری واقعات کو دیکھ کر ہم یہ کہنے لگتے ہیں کہ حالانکہ دنیا بے شمار ثبوتوں سے بڑی بڑی ہے
اس لئے ہمیں عادت نامی بیماری کو پہچاننے اور اس کا علاج تلاش کرنے کی ضرورت ہے نہ صرف ہمارے ایتھیسٹ دوستوں کو بلکہ ہمیں بھی بطور مسلمان اپنی اس بیماری کا علاج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپیتھیز دوستوں کو بلکہ ہمیں بھی بطور مسلمان اپنی اس بیماری کا علاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے خالق کو بہتر طریقے سے جان سکیں
اب آئیے شروع میں بیان کردہ ان عجیب و غریب ناموں کی طرف واپس آتے ہیں آپ میں سے کچھ نے پہلے ہی اندازہ لگا لیا ہوگا یہ پھلوں کے نام ہیں مثال کے طور پر پٹایا کو ڈریگن فروٹ بھی کہا جاتا ہے
یہ تھائلین اور انڈونیشیا میں وافر بغدار میں پایا جا سکتا ہے اور اسے بعض اوقات سٹاوبری پیئر بھی کہا جاتا ہے ایک اور پھل جابوٹی گابا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پھل براہراز درخت کے تنے سے اکتا ہے بہت سے لوگ اسے اپنے گھروں میں عرائشی پودے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ایک اور دلچسپ پھل رانبوٹان ہے کیونکہ اس کی جلد کو بالوں نے ڈھامپا ہوتا ہے اس لیے یہ ایک منفرد جانور کی طرح لگتا ہے اس کا گودہ ہلکے پلے رنگا ہوتا ہے اور اسے کٹنا آسان نہیں ہوتا
ایک اور پھل دوریان فروٹ ہے اسے پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے ہم اسے فوربیڈن فروٹ کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس کی بدبو بہت بری ہوتی ہے یہ ہوٹلوں اور ہوائی جہازوں میں منع ہے اگرچہ پہلی بار کھانے والے اسے شروع میں پسند نہیں کرتے
تاہم بعد میں اس کے لذیذ ذائفے سے ان کا جی نہیں بھرتا ہمارے پاس ایک اور دلجس پھل ہے سیپ آپ کہہ سکتے ہیںے پاس ایک اور دلچسپ پھل ہے سیب آپ کہہ سکتے ہیں یہ صرف ایک عام سیب ہے لیکن اصل سوال یہ ہے
کہ جس طرح ہم دوسرے چار پھلوں کو دیکھ کر حیران رہ گئے تھے اسی طرح ہمیں سیب کے بارے میں حیرت کیوں نہیں ہوتی جس طرح ہم درخت کے تنے سے لگنے والے جابوٹی کعبہ سے حیران ہوتے ہیں ہم شاخ پر لگنے
والے پھل کو دیکھ کر حیران کیوں نہیں ہوتے آخر کار کیا یہ دونوں ہی لگڑی سے بنے ہوئے نہیں ہیں اور پھر ہم تاریخ بے ذائقہ بے خوشبو اور بے رنگ مٹی سے حیران کیوں نہیں ہوتے جو ترہا ترہ کے رنگ ذائقے پیدا
کرتی ہے کچھ کھٹے اور کچھ میچے کیا یہ دیکھ کر آپ کو حیرت نہیں ہوتی کہ ایک رس بھرا مزیدار سیپ اسی سے اکتا ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیپ تو ہم ہمیشہ سے دیکھ رہے ہیں اور اب اس کے عادھی ہو چکے ہیں
اور جب ہم کسی چیز کے آدھی ہو جاتے ہیں تو لاکھوں موجزات اور ثبوت ہماری نظروں سے اوجل ہو جاتے ہیں اور ثبوت نظرانداز ہو جاتے ہیں حالانکہ اگر آپ اس کے بارے میں سوچیں تو مکمل اندھیرے سے رنگ نکلتے ہیں کالی زمین سے بورے رنگ کا درخت اکتا ہے
اور اس سے ایک سبس پتی اور پھر ایک سرخ سیپ حقیقت میں یہ ایک ایسی تخلیق ہے جو بڑی تفصیل کی طرف توجہ مبزول کراتی ہے لیکن اگر آپ نے پہلے کبھی سیپ نہ دیکھا ہو تو پھر سیپ بھی آپ کو حیران کر دے گا حقیقت میں خدا اپنی تخلیق کے موجزے کے ذریعے اپنی پہچان کراتا ہے جو لوگ عادت سے خود کو چھڑا لیں وہ یہ دیکھ سکتے ہیں ایک دوسری وجہ جو ہمیں حیران ہونے سے رکھتی ہے وہ یہ سوچ ہے کہ مجھے پہلے ہی معلوم ہے اگر کوئی یہ کہتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اب اس معاملے پر گہری نظر نہیں رکھے گا
علم رکھنے کا تصور حق کے راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے حتیٰ کہ کسی موجزاتی چیز کا سامنا کرتے ہوئے بھی جب آپ کہتے ہیں کہ مجھے پہلے ہی معلوم ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اب اچھی طرح سے نہیں دیکھ رہے
مثال کے طور پر ایسے سیب کے درخت کے بارے میں سوچیں جس پر خربوزے لگے ہوں کیا آپ حیران نہیں ہوں گے یا اگر شہد کی مکھی جیم بنا دے ہم اتنے حیران ہوں گے کہ ہم خبروں میں اس کی تشہیر کریں گے ہم حیران رہ جائیں گے بلکل ایک بچے کی طرح
تو جب سیب کا درخت ایک سیب بناتا ہے ہم حیران کیوں نہیں ہوتے یا جب شہد کی مکھی شہد بناتی ہے ہم اسے معجزہ کیوں نہیں سمجھ سکتے یہ عام بات ہے ہم جانتے ہیں کہ سیب کا درخت سیب بناتا ہے
یہ تو ہمیشہ ہی ہوتا ہے یا شہد کی مکھیاں کچھ پھولوں کے گرد اڑتی ہیں اور شہد بناتی ہیں یہ اسی طرح ہوتا ہے کیا یہ سب کہنے کا نام جاننا ہر روز ہونے لگے تو آپ مزید حیران نہیں ہوں گے آپ کہیں گے یہ تو عام بات ہے
اگر کوئی آپ سے پوچھے اچھا یہ کیسے ہوتا ہے اور آپ جواب دے کہ ہم صرف اپنے ہاتھ رگڑتے ہیں اور ایک مالٹا نکل آتا ہے تو کیا یہ جاننا ہوگا یا یہ ایڈجسمن اور عادت ہوگی یقینا یہ عادت ہوگی
ان دونوں کے درمیان کیا فرق ہے کہ آپ کے ہاتھ سے ایک مالٹا نکل رہا ہو یا ایک مالٹا جو پہلے سے پیک شدہ ہے امدہ رنگ اور خوشبو رکھتا ہے وہ لکڑی کے ایک ٹکڑی سے نکل رہا ہے کیا یہ بھی ایک حیران کن موجزہ نہیں ہے
جب پوچھا جائے کیسے اور جواب ہے ہم جانتے ہیں کہ یہ لکڑی سے ہی نکلتا ہے یہ جاننا نہیں آدھی ہونا ہے ذرا سوچیں وہ کھلونے جن میں چاکلیٹ والے انڈے ڈالے جاتے ہیں ہمیں یقین ہوتا ہے کہ کوئی تو ہے
جس نے اس کے اندر رکھے ہیں پھر ہم کیسے بھول جاتے ہیں کہ ایک خدا ہے جو مسلسل پیارے پیارے اور زندہ چوزو کو انڈو میں محفوظ رکھتا ہے خدا نے اپنی مخلوقات کو اس لیے بنایا ہے تاکہ ہم اس پر غور و فکر کریں
ہم اسے مواد اتفاق اور ایٹم سے کیسے جوڑ سکتے ہیں اس سب کے اوپر پھر ہم کہتے ہیں ہم جان چکے ہیں یہ ہمارا فورمولا ہے ہمیں پوچھنا چاہیے کہ وہ واقعات اور چیزیں جن میں ہم خود کو بہت قابل سمجھتے ہیں کیا ان میں قابلیت ہے یا ہنر ہے کیا ان کے اندر علم مرضی طاقت یا زندگی ہے ہمیں یہ ماننا ہی پڑے گا کہ ان کے اندر ان میں سے کوئی صلاحیت موجود نہیں ہے اور پھر وہاں سے چلنا چاہیے آخر میں ایک اور رکاوٹ ہے جو ہمیں موجزات کو دیکھنے سے روکتی ہے نام دینا جب ہم اپنے ہر معاملے کو کوئی نام اور عنوان دیتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم
انہیں فود ہی حل کر رہے ہیں اور ہم ان واقعات میں خدا کو یاد نہیں رکھ پاتے در حفظت کائنات میں رونما ہونے والے تمام واقعات کے نام ویسے ہی ہیں جیسے خدا اس کائنات کو چلا رہا ہے اسے عادت اللہ کہتے ہیں مثلا
جس طرح بارش کے قطرے ایک ایک کر کے گرتے ہیں یا جس طرح سے ہم دیکھتے ہیں کہ بادل زمین کو پانی دیتے ہیں اسے وارٹر سائیکل کا نام دے دیا گیا ہے اب ایسا لگتاانی دیتے ہیں اسے وارٹر سائیکل کا نام دے دیا گیا ہے اب ایسا لگتا ہے کہ ہم نے اس عمل کو وارٹر سائیکل کا نام دے کر
گویا اسے حل کر لیا ہے اور ہمیں اس پر مزید سوچنے یا غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن حقیقت میں ہمیں اس نام سے آگے سوچنے کی ضرورت ہے جو ہم نے اسے دیا ہے کہ یہ سائیکل کیسے اور کیوں ہوتا ہے پانی کا ایک تطرہ گھاڑا کیسے بن جاتا ہے
آرام سے یہ ایک بادل میں تبدیل ہو جاتا ہے جو ہر جگہ آسانی سے پانی لے جانے کو تیار ہوتا ہے پھر یہ بادل سے تبدیل ہو کر پانی کی بندوں میں بدل سکتا ہے اچھا اس ساری کاریگری کے پیچھے کون ہے ہر سیکنڈ میں اسے کون کنٹرول کر رہا ہے
جو اس قدر طاقتور ہیں کہ ہر سیکنڈ میں سولہ میلین بندوں کو زمین سے ٹگرانے کا فیصلہ کرتا ہے جو عقل اور حصے خالی بادلوں کو جمع کرتا ہے اور انہیں اس سمت میں دکیلتا ہے جس طرف انہیں جانے کی ضرورت ہوتی ہے
کون ہے جو پانی کو بخارات بنا کر اس کی شکل بدلتا ہے اور اسے بادل بناتا ہے پھر اسے آسمان میں تیراتا ہے کون سپنچ کی طرح گھنے بادلوں کو سکرٹتا ہے اور پھر اسے انتہائی رحم کے ساتھ زمین پر بیج دیتا ہے
جو پانی کو بخارات بناتا ہے اس کی شکل بدلتا ہے اور اسے آسمان میں ایک گھنے بادل کی طرح تیراتا ہے۔ کون ہے جو آسمان پر بادلوں کو تھامے رکھتا ہے اور نہایت رحمت کے ساتھ بارش برساتا ہے؟
بارش کو ایک ایک بون کر کے زمین پر کون گراتا ہے؟ پانی کو سات میلی میٹر کی بوندوں میں کون تقسیم کرتا ہے؟ آسمان سے گرتے ہوئے کون ان کی رفتار کو آہستہ کر دیتا ہے؟ کیا یہ وہ ایٹم کرتے ہیں جن کے پاس کوئی علم مرضی یا انتخاب ہی نہیں ہے؟
رحم یا زندگی بھی نہیں ہے؟ یا یہ کام بادل کرتے ہیں جن کے پاس کوئی علم مرضی یا انتخاب ہی نہیں ہے رحم یا زندگی بھی نہیں ہے یا یہ کام بادل کرتے ہیں یا خود پانی یہ سب کام کون کر رہا ہے یہ تمام موجزاتی کام وارٹر سائیکل جیسے ناموں کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں اپنے خیالات کے سلسلے کو محدود نہیں کر دینا چاہیے
خدا کا وجود ہر تفصیل سے ایسے واضح ہے جیسے سورج آئیے اسے نہ بلائے یہ نام صرف ہمیں دکھاتے ہیں کہ خدا کائنات کو کس طرح کنٹرول کر رہا ہے وہ کس طرح ایٹموں کو کنٹرول کرتا ہے اگر فتح کو ان عادات سے دور کر لیں اس تصور سے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں اور چیزوں کو جو نام ہم نے دیئے ہیں انہی میں ڈوبنے سے بچ سکیں تو ہم ہر چیز کو دیکھتا اور اس کا ایک اندازم قرر کرتا ہے جو علم، ارادہ، طاقت اور زندگی کا مالک ہے۔
مہارت حاصل کرنے کے لیے بڑی حکمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ چیزیں اپنے اندر مہارت یا علم نہیں رکھتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا ہی ہے جو ان معاملات کو کنٹرول کرتا ہے اور ہر چیز کو دیکھتا ہے۔ اب جب کہ ہم نے اپنے عادت کے خیالات کو ترک کر دیا ہے آئیے ان چیزوں پر غور کریں مثلا بارش ہوا
ایک بیر یا رنگین دھارا ایک خرگوش بہت بڑے سیارے یا کوفی کی خوشبو
کائنات میں آپ کے لئے خدا کو تلاش کرنے اور یاد کرنے کی نشانیاں بھری پڑی ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے دیکھنے والی آنکھ کے لئے اندیرہ ہجاب نہیں بن سکتا
جو آنکھ دیکھنا ہی نہیں چاہتی اس کے لئے روشنی بیکار ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں