Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 5 جون، 2018

کاش بیٹی آلو یا انڈا ہوتی !

 بیٹی  ، سسرال ور شوہر کے روئیے سے تنگ آکر میکے آگئی ،  دو تین بعد جب بیٹی کے دل سے سارا غبار نکل گیا تو،
باپ بولا :"تمھارے ہاتھ کا کچھ پکا ہوا کھائے کافی دن ہو گئے  کیا میرے لئے کچھ بناسکتی ہو ؟"
بیٹی :" بابا جانی ، بتائیے آپ کیا کھانا چاہتے ہیں ؟ "
باپ :" ایسا کرو کہ پانی کی دیگچی میں ایک انڈا  اور ایک آلو ڈالو اور انہیں بیس منٹ تک ابالو ، اور ساتھ گرما گرم چائے بھی اور ایک ساتھ لے آنا "


بیٹی :  جی اچھا کہہ کر کچن میں چلی گئی اور وہاں سے  بائیس منٹ بعد واپس آئی اور باپ کے باس بیٹھ کر انڈا چھیلا ، جب آلو چھیل رہی تھے تو باپ ، کافی کا گھونٹ لیتے ہوئے بولا ۔
" واہ کیا خوب  اور خوشبو دار کافی ہے"
اور انڈے کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے  ،" ہوں  انڈا بھی مزیدار ہے "
"بابا ، آلو بھی لذیذ ہو گا " بیٹی بولی ۔
باپ نے کافی کا دوسرا گھونٹ لیتے ہوئے بولا ، " دیکھو بیٹی ، تینوں چیزوں نے گرم پانی میں یکساں وقت گذارا ہے ، اور یکساں تکلیف برداشت کی ہے "۔

بیٹی بولی ۔ " جی بابا جانی ، میرے سسر نے بھی فیس بک سے پڑھ کر مجھ کو سمجھانے کے لئے یہی ترکیب استعمال کی تھی ، تو میں نے انہیں کہا تھا ، " انکل ، اگر میں آلو ہا انڈا ہوتی ، تو آپ کا بیٹا کیا ہوتا ، بھنڈی اور توری ؟

آپ لوگ عورت کو ، گوشت پوست کی بنی ہوئی  اپنی طرح  ایک مخلوق کیوں نہیں سمجھتے ،جسے اپنے جیسے لوگوں میں  وقت گذارنا ہوتا ہے۔
یاکاش اللہ  ، عورت کو  آلویا انڈے کی طرح دماغ ہی نہ دیتا ۔تاکہ اس میں کوئی سوچنے ، سمجھنے اور تجزیہ کرنے والا ذہن ہی نہیں بنتا  اوروہ۔
ایک صرف ایک جنسی مخلوق ہوتی ۔شوہر کو خوش کرنے کے لئے یا
 
ایک ملازمہ ہوتی ، گھر کا کام کرنے کے لئے ، یا
ایک باندھی ہوتی تاکہ وہ صرف بندھی ہوتی بچوں کو پالنے کے لئے یا   
       کاش ، باپ اسے زیور تعلیم سے آراستہ ہی نہ کرتا  
 
اور بارہ سال کی عمر میں شادی کردیتا تا کہ وہ آلوبن جاتی یا انڈا
جیسے ہماری مائیں تھیں یا آج کل کے بچوں کی دادیاں یا پر دادیاں
 

باپ  بولا ،"ہیں ، تو نے ایسا بولا ؟"

"تو بابا جانی اور کیسا بولتی ؟  وہ سب  تو روزانہ چھریاں لے کر مجھے چھیلنے بیٹھتے تھے  "
یہ فیس بک والے جھوٹ بولتے ہیں ، یہ  مرد وں کو کیوں نہیں ، آلو یا انڈا بناتے ؟





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔