Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 25 جون، 2018

پچیس جولائی کو رات بارہ بجے کا آنکھوں دیکھا حال !

 پچیس جولائی کو رات بارہ بجے پورے پاکستان کو پتہ چل گیا کہ عمران خان وزیراعظم  کا انتخاب جیت چکا ہے !
نہ زرداری کی ضرورت پڑی نہ کسی آزاد امیدواران کی ۔ 

بنی گالہ سے کراچی تک ایک جشن کا سا سماں تھا پورے پاکستان سے صرف سیٹوں کے انبار تھے جس پر لال ہرا رنگوں سے آراستہ مفلر پہنے لوگ بیٹھے تھے ۔ تحریک انصاف کے کارکنان بالکل بھی نہیں رک رہے تھے ۔

 چھ سال پہلے عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے لیے بنایا گیا ترانہ جو محفوظ رکھا گیا تھا آن ائیر کردیا گیا ۔ 
پاکستان کے تمام چینلز کی محنت رنگ لائی انہوں نے بھی اپنے لوگو لال ہرے کردیے ، بنی گالہ کے باہر کروڑوں عوام جمع تھے صرف چینلز کی گاڑیاں تھیں کیمرے تھے ، اخباری رپورٹرز تھے ، مٹھائیوں کی دوکانیں خالی ہوچکی تھیں ، وہ مٹھائی بھی بک گئی جس کو ہم عام زندگی میں دیکھتے بھی نہیں تھے ۔
 پہلی دفعہ جی ایچ کیو اور کنٹونمنٹ ایریاز میں جشن کا سماں تھا چراغاں تھا ۔ نوجوان اور آفیسرز خوشی سے پاگل ہو رہے تھے ۔
ورلڈ کپ نائنٹی ٹو کے بعد پہلی دفعہ پٹاخے اور پھلجڑیاں چھوڑی گئیں ۔ جس نےبرج خلیفہ کے چکا چوند کو پیچھے  چھوڑ دیا تھا ۔
 عمران خان شیروانی میں بہت حسین لگ رہے تھے ، مشرف کے ریفرنڈم کے زمانے میں سلوائی رکھی تھی ۔
 کافی دنوں کے بعد صدر ممنون حسین کو اسکرین پر دیکھا وہ ایسی  حلف برداریوں  یا  تئیس مارچ کو نظر آتے ہیں  اور باقی وقت ریمورٹ سے چینل بدلتے نظر آتے تھے ۔ انہوں نے عمران خان سے حلف لیا اور ساتھ میں مختصر سی کابینہ تھی ، جس میں ایک بھی ایلیکٹیبل نہیں تھا ۔
 پہلی دفعہ وہ لوگ نظر آئے جن کو کوئی بھی نہیں جانتا تھا ایک انقلاب آچکا تھا ، پاکستان کے اوپر فلک نے یہ منظر پہلی بار دیکھا کہ وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیا گیا ، صدراتی محل کالج بن گیا ، وزراء سے مراعات واپس لے لی گئیں  اُنہیں سائیکلوں پر آفس جانے کا حکم ہوا ، جن کو سائیکل چلانا نہیں آتی تھی وہ حکمِ حاکم مرگِ مفاجات کے تحت سائیکل ساتھ لے کر چلتے ، گلی محلے کےشریر لونڈے اُن کے پیچھے ہوتے  اور خوشی سے  ہمارا وزیر ہمارا وزیر کہتے تالیاں بجاتے چلتے   ۔
وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ میرا دفتر اب عوامی ہوگا ۔چنانچہ  اسمبلی کی سامنے پرانے پریڈ گراونڈ  پر اُسی سلامی کے چبوترے پر  جہاں  پرویز مشرف نے جرنیلی  سلیوٹ مار کر  عمران خان کے ساتھ یکّی کی اور خالص پاکستانی کوک پر ٹال دیا ، وہاں  ایک شامیانے کے نیچے عمران خان کا دفتر سجا دیا گیا ، سارے عوامی لوگ  سڑک کے دونوں طرف بنی ہوئی سیڑھیوں پر اپنی اپنی چھتری اور پانی کی بوتل لے کر بیٹھ گئے ، یہ وہی جگہ تھی جہاں عمران خان نے پہلی مرتبہ عوامی اژدھام  کو اسمبلی پر قبضہ کرتے  بڑھتے ہوئے دیکھا تھا ۔
عمران خان نے عوامی دفتر سے ، اعلان کردیا گیا کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف یہاں سے بوریا بستر سمیٹیں اور کبھی شکل نہ دکھائیں ، 
حلف اٹھاتے ہی وزیراعظم نے انجینئرز اور ماہرین کو بلایا اور ڈیم بنانے کا حکم دیا ، سب نے کہا رقم کہاں سے آئے گی ؟
 اسی وقت خان نے اعلان کیا اور بیرون ملک میں بیٹھے پاکستانیوں نے ایک گھنٹے میں پچاس ارب ڈالر کی رقم بھجوادی ۔
 بجلی کے منصوبے شروع ہوگئے ، نیب حرکت میں آگئی ، پرانے سیاستدانوں ، افسران ، بزنس ٹائیکونز کی شامت آگئی ایک ہفتے میں بیرون ملک سے لوٹی گئی رقم واپس آگئی ، تمام کرپشن کی جائیدادیں ضبط ہوگئیں ۔
 پاکستان میں دولت کے ذخائر ، امریکہ ، چین اور جاپان سے کئی گنا ہو گئے ۔ عالمی ماہرین اُنگشتِ بدنداں تھے۔
نئی یونیورسٹیز ، کالجز ، اسکولز ، ہسپتال کی ہنگامی تعمیر شروع ہوگئی ۔
برین ڈرین کی وجہ سے  بیرون ملک میں  رہائش اپنائے دماغ ، ماہرین جوق در جوق واپس آنے لگے ، شہروں کے شہر اور  سڑکوں کی  سڑکیں تعمیر ہونے لگیں ، ٹرانسپورٹ کے نئے آئیڈیاز جنم لینے لگے ۔ 
ملک سے پرچیوں ، سفارش کا کلچر ختم ہوگیا تھا ۔
نواز شریف ،شہباز شریف ، حمزہ شہباز اور ان کا پورا خاندان براستہ ایران فرار  ہوتے ہوئے  سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارا جاچکا تھا ۔ ان کے گھروں فیکٹریوں پر حکومت کا قبضہ ہوچکا تھا ۔
 مولانا فضل الرحمٰن کے تمام مدارس محکمہ اوقاف کے پاس چلے گئے ، کشمیر کمیٹی مفتی قوی کے پاس تھی وازرتِ مذہبی امور کا قلمدان عام لیاقت ہاتھ میں تھامے ، تیار بیٹھا تھا ۔
سراج الحق ، لیاقت بلوچ ، حافظ نعیم الرحمن ، دیگر قائدین کو پھانسی کی سزا سنائی جاچکی تھی ان کے دفاتر ، اسکولز ، ہسپتال ، یتیم خانوں ، قرآن مرکز پر حکومت کا انتظام تھا ۔
 زرداری اور اس کے حواریوں کو گرفتار کیا جاچکا تھا ، زرداری کی تمام دولت  جو اُن نے بے نظیر کی حکومت سے زیادہ اپنی حکومت میں بنائی تھیی اُس کی پائی پائی  وصول کر لی گئی ،  اب وہ  بمبینوسینما کے باہر ٹکٹیں بیچ رہا تھا ۔
بلاول اور بھٹو جو زندہ تھے ، پچھلی گلی سے لندن فرار ہوچکے تھے ۔ 
عمران خان کا سب سے سخت مقابلہ  اب ، اُن لوگوں  سے ہونا تھا  جو پہلے نون لیگ میں تھے ، پھر ق لیگ میں آئے ، پھر پی پی پی میں گئے ، پھر نون لیگ میں آئے اور  پھر پی ٹی آئی میں  آکر عمران خان کی سپریم کورٹ سے بخشی گئی  صداقت  اور امانت  کے سرٹیفکیٹ  پر بٹا لگا دیا تھا ۔ جس کا ملک مخلاف قوتوں نے انتخاب میں خوب فائدہ اُٹھایا ، لیکن وہ تو بھلا ہو خلائی مخلوق کا                                               اُس نے عین موقع پر ایمپائر کو بلا لیا ۔  جس نے جے آئی ٹی کو حکم دیا کہ  ملک دشمن عناصروں کی طرف سے دیئے گئے کسی بھی بوگس سرٹیفکیٹ کی تصدیق کی ضرورت نہیں ۔
اب عمران خان نے  اِن ابن الوقت ، گندم نما جو فروش   کے خلاف مہا ئدھ کا آغاز کرتے ہوئے طبل جنگ بجایا :
اپنی تلاشی دو !
 یہ خبر تو جیسے ان پر بجلی بن کر گری،  فردوس عاشق اعوان نے آسمان سر پر اٹھا لیا ، نذر گوندل ، افضل ساہی جیسے نیزے لے کر باہر آگئے اور اسی دن تحریک عدم اعتماد پیش ہوگئی  ۔
وہ عمران خان جو 20 سال اکیلا استعماریت کا مقابلہ  کرتا رہا ، عوام کی قوت کے سر چشمے سے  وزیر اعظم کے تخت پر اِس طرح براجمان ہوا کہ اُس کے دائیں جانب  برقعے میں ملبوس پنکی ، پنکی کے ساتھ اُس کے بچے  ، عمران خان کے دائیں جانب عمران خان کے دو سگے بیٹے اور ایک محبت کی نشانی  ، عمران خان کے قدموں میں وہ ناہنجار بیورکریٹ بیٹھا تھا  ، جس نے بڑی مشکل سے چار سال کی جد و جہد کے بعد ،  پنکی اُس کے حوالے کی تھی ۔
و ہ بہادر عمران خان ،    اِس عظیم الشان فتح کے بعد ایک بند کمرے میں جو پر اُس نے کئی بار لعنت بھیجی    ۔ آج  شرمسار تھا کیوں کہ  الیکٹیبلز  کی تحریک کامیاب ہوگئی ۔

 ان کمبخت الیکٹیبلز کی وجہ سے وہ  چند دن بھی یہ ملکِ پاکستان انقلاب کا سونامی   نہ دیکھ سکا ۔

 (صہیب جمال کے شہرہ آفاق ناول ۔باؤلے کے خواب۔ سے ماخوذ)  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔