کسی بھی قوم کی طرف ہجرت کرنے والی
قوم اپنے ماضی کو بھول جاتی ہے جبھی وہ دوسری قوم میں ضم ہو کر اُس کا حصہ بن جاتی
ہے اُس کی دوسری اور تیسری نسل اپنے اسلاف کی جنم بھومی سے تعلق ختم کر لیتی
ہے، لیکن ”پدرم سلطان بود“ کا نعرہ لگانے والی
اقوام نہ ہی تیتر بنتی ہے اور نہ ہی بٹیر۔ بہر حال اپنے آئین کو ردی کا ٹکڑا
سمجھنے والوں نے امریکی آئین سے اپنا رشتہ جوڑتے وقت امریکیوں کو جو حلفِ
وفاداری دیا ہے اُس کے الفاظ نیٹ پر کچھ ایسے ہیں،اآپ بھی دیکھیں۔
Oath of Allegiance for
Naturalized Citizens
"I hereby declare, on oath, that I absolutely and entirely renounce
and abjure all allegiance and fidelity to any foreign prince, potentate, state,
or sovereignty of whom or which I have heretofore been a subject or citizen;
that I will support and defend the Constitution and laws of the United States
of America against all enemies, foreign and domestic; that I will bear true
faith and allegiance to the same; that I will bear arms on behalf of the United
States when required by the law; that I will perform noncombatant service in
the Armed Forces of the United States when required by the law; that I will
perform work of national importance under civilian direction when required by
the law; and that I take this obligation freely without any mental reservation
or purpose of evasion; so help me God."
Signed by:_________
میں اپنی تمام وفا داری اور
اعتماد جو میں نے، کسی غیر ملکی شہزادے، بادشاہت، ریاست یا خود مختار ریاست کو دی جس کا میں
باشندہ تھا،سے مکمل دستبرداری کا قسمیہ اعلان کرتا ہوں۔اور یہ کہ میں
ریاستہائے متحدہ امریکہ کے قانون اور آئین کی حفاظت اور مدد تمام غیر ملکی اور
ملکی دشمنوں سے کروں گا ۔ اور پر میں پورے ایمان اور خلوص سے عمل کروں گا
اور میں یہ ذمہ داری کسی ذہنی دباؤ یا مجبوری کے بغیر آزادانہ قبول کرتا
ہوں، خدا میری مدد کرے۔ اور میں اِس کا اقرار اپنے دستخطوں کے ساتھ کرتا ہوں
دستخط ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اِن دستخطوں کے ساتھ ہی اِس فرد کا
اپنے مادرِ وطن سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے اور یہ فرد کاغذوں میں امریکی شہری کہلانے
لگتا ہے اُسے امریکن پاسپورٹ مل جاتا وہ اپنے ملک کے راز، خبریں اور دیگر
معلومات اپنے نئے ہم وطنوں کو دینا شروع کرتا ہے۔اور امریکی رازوں، خبروں اور دیگر
معلومات کا امین بن جاتا ہے، امریکی مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور اپنی مادرِ وطن کی
سلامتی کوداؤ پر لگا دیتا ہے تب حقیقت میں وہ اُس وقت امریکی شہری کہلانے کا
حق دار ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ فرد امریکیوں کو ہاتھ دکھانے لگے تو پھر امریکی قانوں
حرکت میں آجاتا ہے۔ چنانچہ اُس کے مادرِ وطن کے معصوم لوگوں کو امریکی
ڈالروں بذریعہ این جی اوز، پر پلنے والے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ
یہ معصوم فرد ہمارا باشندہ ہے اِس کو قانون کے مطابق سزا دینا ہمارا فرض بنتا ہے،
انہیں یہ نہیں معلوم کہ یہ فرد توغیر ملکی شہریت حاصل کرنے کی خاطر اپنے ملک
کی شہریت بیچ چکا ہے۔ بکی ہوئی چیز کو دوبارہ آسانی سے واپس خریدا نہیں جاسکتا۔
اِن
بکے ہوئے امریکن ، کینیڈین اور برطانوی شہریوں کے بچوں نے جتنی مدد اپنے
نئے ملک کی کی اتنی مدد تو اُن کے مٹی کے بچوں نے نہیں کی ۔
وزیراعظم
بھٹو نے اِس خطرے کو پہچان کر پاکستان کو دولتِ مشترکہ سے علیحدہ کر لیا ،
یوں ایک عرصہ تک یہ لوگ امریکہ ، برطانیہ و کینیڈا کے تیسرے درجے کے شہری
رہے ۔
پاکستانی بیویوں کی بطن سے اِن کی اولاد دوسرا درجہ حاصل کرنے میں
کامیاب رہی ، اور
وہاں کی عورتوں سے بغیر نکاح یا نکاح سے پیدا ہونے والی
اولاد ، پہلے درجے کی نسل میں شامل ہوگئی ،
کیوں کہ وہ یہودی یا عیسائی
ماں کی اولاد تھی ، پاکستانی باپ کی نہیں-
کئی پاکستانیوں نےاپنے اِن بچوں
خصوصاً بیٹیوںکو پاکستان لانے کی کوشش کی وہ یاتو ایرپورٹ پر پکڑے گئے یا
یہاں آنے کے بعد ان تینوں ملکوں نے پاکستان سے اپنے قوانین کے زور پر یہ
لڑکیاں واپس منگوا لیں ۔
کیوں کہ اِن ملکوں کے قوانین میں ، باپ کا نام
بچوں کے نام کے ساتھ صرف لاحقے کے طور پر پکارا جاتا ہے ۔
عرصہ گذرنے کے بعد ، پاکستان پھر دولتِ مشترکہ میں شامل ہو گیا ۔
کیوں ؟
کن فائدوں کے لئے ؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں