ان مورخین کی تاریخوں میں دیئے گئے دن اور تاریخوں کا جب
موازنہ عمل تقویم سے کیا گیا تو یہ حقیقت منکشف ہو گئی کہ کسی ایک بھی دن
کی تاریخ درست نہ تھی .
راویوں کے بیان کئے ہوئے دن اور تاریخیں اس قدر مختلف اور متضاد ہیں کہ ان پر یقین نہیں کیا جا سکتا (جو آج کل ایک بچہ بھی آسان فارمولے کے تحت معلوم کر سکتا ہے ) اگر اس کی تفصیل میں جایا جاۓ تو بہت وقت درکار ہو گا اور اس کی مثال پچھلی اقساط میں دی جا چکی ہیں .
اس بات سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس المناک واقعے کے100سال بعد ان من گھڑت روایتوں کے ساتھ ساتھ دن اور تاریخیں بھی خود گھڑی گئی ہیں ورنہ کیسے ممکن ہے کہ جو لوگ حالات سے واقف تھے انہوں نے دن اور تاریخیں غلط بتائی ہوں ؟ اور یہ راوی تو ایسے بیان کرتے ہیں جیسے اِن واقعات کے چشم دید گواہ ہوں۔
مجاہد اعظم کے مصنف کو اعتراف ہے کہ اہل بیعت میں سے کسی سے بھی کوئی روایت منسوب نہیں سید الساجدین حالت بیماری میں خیمے کے اندر تھے حسن مسنح یا وہ لوگ جو کربلا سے بچ کر آے ان سے کوئی واقعہ مروی نہیں جس شخص سے جیسا سنا اس نے دوسرے کو اور اس نے تیسرے کو بیان کر دیا اور اسی طرح اصلیت بھول بھلیوں میں کھو گئی.(مجاہد اعظم صفحہ 176 )
کسی ایک دن اور تاریخ کے بیان کرنے میں آگے پیچھے کی غلطی ہو سکتی ہے لیکن یہاں تو کیفیت یہ ہے کہ تمام تاریخیں اور دن جو ان راویوں کے بیان کردہ ہیں ، آپس میں میل کھاتی ہیں۔
حضرت حسین کے ایسے اہم اور نا قابل فراموش خروج کے دن کی تاریخیں کوئی کمزور سے کمزور یاداشت کا راوی بھی خواہ اس کا چشم دید وگواہ بھی نہ بھی ہوتا - لیکن اس نے کسی ایسے آدمی کی زبانی یہ حالات سنے ہوتے یا معلوم کئے ہوتے جسے ان کا ذاتی علم تھا تب بھی وہ ایسی فاش غلطیوں اور غلط بیانوں کا ہر گز ارتکاب نہیں کر سکتا تھا-
اسی لئے امام غزالی نے فرمایا شدید تعصب کی وجہ سے اس سیاسی جنگ کو مذہبی رنگ دے کر من گھڑت روایتوں کا پہاڑ کھڑا کر دیا گیا۔ تاریخوں اور دنوں کے علاوہ مقام ، مہینے ، اور وقت کے بارے میں بھی یہ راوی متفق نہیں ایک کچھ بیان کرتا ہے تو دوسرا کچھ ۔
مورخ طبری نے ابن سعد کے حوالے سے یہ روایتیں بھی اپنی تاریخ میں درج کی ہیں کہ حضرت حسین محرم کے مہینے میں نہیں بلکہ صفر کے مہینے میں قتل ہوئے اور کربلا میں نہیں نینوا میں یہ واقعہ پیش آیا ان روایتوں کے الفاظ یہ ہیں.
"ابن سعد کہتے ہیں محمّد بن عمر نے ہم سے بیان کیا کہ حضرت حسین بن علی ماہِ صفر ہجری 61 میں قتل ہوے اس وقت ان کی عمر 55 برس کی تھی .(صفحہ 223 جلد 6 طبری)
مزید سنیے . اور حسین عراق میں آئے اور روز عاشورہ ہجری 61 کو نینوا کے مقام پر قتل ہوئے.(صفحہ 223 جلد 6 طبری ).
خود ابو محنف نے بھی نینوا میں حضرت حسین کے اترنے اور پہنچنے کا ذکر دو جگہ کیا ہے .
مثال کے طور پر جہاں یہ من گھڑت روایت بیان کی ہے کہ
" حر ان کو مجبور کرتا تھا کوفہ کی طرف چلیں مگر حضرت حسین نہیں مانے اور آگے بڑھ جاتے ہیں .چنانچہ اسی طرح بائیں جانب کو مڑتے چلے گئے یہاں تک کے نینوا پہنچے اور یہی وہ مقام ہے جہاں حسین اتر پڑے.(صفحہ 232 جلد 6 طبری اول اڈیشن .مصر).
اور یہ نینوا جس کا بار بار ان کی روایتوں میں ذکر آتا ہے وہ قدیم اور مشہور تاریخی مقام کربلا (العقر) سے سینکڑوں میل دور شمال کی جانب موصل کے قریب واقع تھا جہاں اس کے کھنڈر آج تک موجود ہیں اور کربلا کے قرب و جوار میں نینوا نام کی کسی جگہ کا موجود ہونا ہی ثابت نہیں.
قریہ العقر اگر وہی ہے کہ جس کا عقر بابل کے نام سے ذکر آیا ہے تو اس کے میدانی علاقوں میں سے ایک میدان کربلا ہے اور ہم نے خود یہاں جا کر بھی اور مختلف تاریخوں سے بھی ریسرچ کی کہ اس کے قرب و جوار میں نینوا نام کا کوئی مقام تھا نہ اب ہے ، اور اسی کے مضافاتی میدان کربلا میں اس المناک واقعہ کا رونما ہونا 10 محرم 61 ہجری 61، کو بیان ہوا ہے .
اب ایک حیرت انگیز انکشاف ہے اور دل تھام کے سنیئے ان ہی راویوں کے مطابق اگر حضرت حسین محرم کے نہیں صفر کے مہینے میں قتل ہوے اور کربلا میں نہیں نینوا کے مقام میں یہ سانحہ پیش آیا تو پھر ان تاریخ دانوں کو ان کی کتابوں سمیت سمندر میں غرق کر دینا چاہئے تھا کہ نہیں ؟
اب حقیقت سنیئے 10 محرم کا دن اسلامی تاریخ کا ایک بہت اہم دن سمجھا جاتا ہے اور اس کے بارے میں مستند روایات موجود بھی ہیں اور جان لیں کہ 10 محرم کو " ماتم حسین " کا دن مقرر کیا گیا تھا اور سب سے پہلے اس رسم کی بنیاد ہجری 352 میں یعنی واقعہ کربلا کے تقریبا 300 برس بعد ڈالی گئی تھی اور یہ رسم اس وقت کے حکمران معز الدولہ ویلمی نے اپنے دور اقتدار میں ڈالی تھی .
شیعہ مورخ مسٹر جسٹس امیر علی فرماتے ہیں کہ ماتم حسین کا بانی اور یہ دن مقرر کرنے والا معز الدولہ ویلمی ہی تھا وہ اس کا حال بیان کرتے ہوے کہتے ہیں .
" معزالدولہ ویلمی :- یہ شخص شیعہ تھا اور یہی وہ شخص تھا جس نے محرم کی دسویں تاریخ کو کربلا کے واقعہ کی .
یاد گار کے طور پر قائم اور مقرر کیا تھا" .(صفحہ 303 شارٹ ہسٹری آف سیریئنس مطبوعہ 1921 ).
مجاہد اعظم کے شیعہ مورخ بھی عزاداری کی ابتدا ہجری 352 ہی بیان کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ :-
" سلطنت بغداد پر ویلمی خاندان کو عروج ہوا تو 352 ہجری میں معز الدولہ ویلمی کے حکم پر بغداد میں حسین مظلوم کا علانیہ ماتم کیا گیا اور یہ پہلا موقعہ تھا اس طرح کی آزادانہ مجلس عزہ قائم ہوئی اور یہ رسم بغداد میں کئی برس جاری رہی " (صفحہ 332 مجاہد اعظم)
علامہ ابن کثیرکے بیان سے اسکی تائید مزید ہوتی ہے وہ فرماتے ہیں
" اور اسی سن ہجری 352 میں معز الدولہ ویلمی بن بویہ نے حسین بن علی بن ابی طالب پر ماتم کرنے کا حکم دیا " (صفحہ 283 جلد 10 البدایه و النہایه)
راویوں کے بیان کئے ہوئے دن اور تاریخیں اس قدر مختلف اور متضاد ہیں کہ ان پر یقین نہیں کیا جا سکتا (جو آج کل ایک بچہ بھی آسان فارمولے کے تحت معلوم کر سکتا ہے ) اگر اس کی تفصیل میں جایا جاۓ تو بہت وقت درکار ہو گا اور اس کی مثال پچھلی اقساط میں دی جا چکی ہیں .
اس بات سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس المناک واقعے کے100سال بعد ان من گھڑت روایتوں کے ساتھ ساتھ دن اور تاریخیں بھی خود گھڑی گئی ہیں ورنہ کیسے ممکن ہے کہ جو لوگ حالات سے واقف تھے انہوں نے دن اور تاریخیں غلط بتائی ہوں ؟ اور یہ راوی تو ایسے بیان کرتے ہیں جیسے اِن واقعات کے چشم دید گواہ ہوں۔
مجاہد اعظم کے مصنف کو اعتراف ہے کہ اہل بیعت میں سے کسی سے بھی کوئی روایت منسوب نہیں سید الساجدین حالت بیماری میں خیمے کے اندر تھے حسن مسنح یا وہ لوگ جو کربلا سے بچ کر آے ان سے کوئی واقعہ مروی نہیں جس شخص سے جیسا سنا اس نے دوسرے کو اور اس نے تیسرے کو بیان کر دیا اور اسی طرح اصلیت بھول بھلیوں میں کھو گئی.(مجاہد اعظم صفحہ 176 )
کسی ایک دن اور تاریخ کے بیان کرنے میں آگے پیچھے کی غلطی ہو سکتی ہے لیکن یہاں تو کیفیت یہ ہے کہ تمام تاریخیں اور دن جو ان راویوں کے بیان کردہ ہیں ، آپس میں میل کھاتی ہیں۔
حضرت حسین کے ایسے اہم اور نا قابل فراموش خروج کے دن کی تاریخیں کوئی کمزور سے کمزور یاداشت کا راوی بھی خواہ اس کا چشم دید وگواہ بھی نہ بھی ہوتا - لیکن اس نے کسی ایسے آدمی کی زبانی یہ حالات سنے ہوتے یا معلوم کئے ہوتے جسے ان کا ذاتی علم تھا تب بھی وہ ایسی فاش غلطیوں اور غلط بیانوں کا ہر گز ارتکاب نہیں کر سکتا تھا-
اسی لئے امام غزالی نے فرمایا شدید تعصب کی وجہ سے اس سیاسی جنگ کو مذہبی رنگ دے کر من گھڑت روایتوں کا پہاڑ کھڑا کر دیا گیا۔ تاریخوں اور دنوں کے علاوہ مقام ، مہینے ، اور وقت کے بارے میں بھی یہ راوی متفق نہیں ایک کچھ بیان کرتا ہے تو دوسرا کچھ ۔
مورخ طبری نے ابن سعد کے حوالے سے یہ روایتیں بھی اپنی تاریخ میں درج کی ہیں کہ حضرت حسین محرم کے مہینے میں نہیں بلکہ صفر کے مہینے میں قتل ہوئے اور کربلا میں نہیں نینوا میں یہ واقعہ پیش آیا ان روایتوں کے الفاظ یہ ہیں.
"ابن سعد کہتے ہیں محمّد بن عمر نے ہم سے بیان کیا کہ حضرت حسین بن علی ماہِ صفر ہجری 61 میں قتل ہوے اس وقت ان کی عمر 55 برس کی تھی .(صفحہ 223 جلد 6 طبری)
مزید سنیے . اور حسین عراق میں آئے اور روز عاشورہ ہجری 61 کو نینوا کے مقام پر قتل ہوئے.(صفحہ 223 جلد 6 طبری ).
خود ابو محنف نے بھی نینوا میں حضرت حسین کے اترنے اور پہنچنے کا ذکر دو جگہ کیا ہے .
مثال کے طور پر جہاں یہ من گھڑت روایت بیان کی ہے کہ
" حر ان کو مجبور کرتا تھا کوفہ کی طرف چلیں مگر حضرت حسین نہیں مانے اور آگے بڑھ جاتے ہیں .چنانچہ اسی طرح بائیں جانب کو مڑتے چلے گئے یہاں تک کے نینوا پہنچے اور یہی وہ مقام ہے جہاں حسین اتر پڑے.(صفحہ 232 جلد 6 طبری اول اڈیشن .مصر).
اور یہ نینوا جس کا بار بار ان کی روایتوں میں ذکر آتا ہے وہ قدیم اور مشہور تاریخی مقام کربلا (العقر) سے سینکڑوں میل دور شمال کی جانب موصل کے قریب واقع تھا جہاں اس کے کھنڈر آج تک موجود ہیں اور کربلا کے قرب و جوار میں نینوا نام کی کسی جگہ کا موجود ہونا ہی ثابت نہیں.
قریہ العقر اگر وہی ہے کہ جس کا عقر بابل کے نام سے ذکر آیا ہے تو اس کے میدانی علاقوں میں سے ایک میدان کربلا ہے اور ہم نے خود یہاں جا کر بھی اور مختلف تاریخوں سے بھی ریسرچ کی کہ اس کے قرب و جوار میں نینوا نام کا کوئی مقام تھا نہ اب ہے ، اور اسی کے مضافاتی میدان کربلا میں اس المناک واقعہ کا رونما ہونا 10 محرم 61 ہجری 61، کو بیان ہوا ہے .
اب ایک حیرت انگیز انکشاف ہے اور دل تھام کے سنیئے ان ہی راویوں کے مطابق اگر حضرت حسین محرم کے نہیں صفر کے مہینے میں قتل ہوے اور کربلا میں نہیں نینوا کے مقام میں یہ سانحہ پیش آیا تو پھر ان تاریخ دانوں کو ان کی کتابوں سمیت سمندر میں غرق کر دینا چاہئے تھا کہ نہیں ؟
اب حقیقت سنیئے 10 محرم کا دن اسلامی تاریخ کا ایک بہت اہم دن سمجھا جاتا ہے اور اس کے بارے میں مستند روایات موجود بھی ہیں اور جان لیں کہ 10 محرم کو " ماتم حسین " کا دن مقرر کیا گیا تھا اور سب سے پہلے اس رسم کی بنیاد ہجری 352 میں یعنی واقعہ کربلا کے تقریبا 300 برس بعد ڈالی گئی تھی اور یہ رسم اس وقت کے حکمران معز الدولہ ویلمی نے اپنے دور اقتدار میں ڈالی تھی .
شیعہ مورخ مسٹر جسٹس امیر علی فرماتے ہیں کہ ماتم حسین کا بانی اور یہ دن مقرر کرنے والا معز الدولہ ویلمی ہی تھا وہ اس کا حال بیان کرتے ہوے کہتے ہیں .
" معزالدولہ ویلمی :- یہ شخص شیعہ تھا اور یہی وہ شخص تھا جس نے محرم کی دسویں تاریخ کو کربلا کے واقعہ کی .
یاد گار کے طور پر قائم اور مقرر کیا تھا" .(صفحہ 303 شارٹ ہسٹری آف سیریئنس مطبوعہ 1921 ).
مجاہد اعظم کے شیعہ مورخ بھی عزاداری کی ابتدا ہجری 352 ہی بیان کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ :-
" سلطنت بغداد پر ویلمی خاندان کو عروج ہوا تو 352 ہجری میں معز الدولہ ویلمی کے حکم پر بغداد میں حسین مظلوم کا علانیہ ماتم کیا گیا اور یہ پہلا موقعہ تھا اس طرح کی آزادانہ مجلس عزہ قائم ہوئی اور یہ رسم بغداد میں کئی برس جاری رہی " (صفحہ 332 مجاہد اعظم)
علامہ ابن کثیرکے بیان سے اسکی تائید مزید ہوتی ہے وہ فرماتے ہیں
" اور اسی سن ہجری 352 میں معز الدولہ ویلمی بن بویہ نے حسین بن علی بن ابی طالب پر ماتم کرنے کا حکم دیا " (صفحہ 283 جلد 10 البدایه و النہایه)
معز الدولہ ویلمی جس نے ہجری 352 میں 10 محرم کو حسین کے قتل کا دن مقرر کیا تھا اس کا حکم تھا کہ اس دن بازاروں میں عورتیں بال کھول کر سر پیٹتی نکلیں .
اسلام کی تاریخ میں بویہ خاندان کا عروج سیاہ ترین دور تھا /
ایک طرف عبیدیوں کا مصر پر تسلط تھا جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی کی ہر ممکن کوشش کی۔
دوسری طرف یہ خاندان خلیفہ کی بظاہر بیعت میں تھا اور اندرونی طور پر خلافت کا انتہائی دشمن . انہوں نے رفتہ رفتہ خلیفہ کے تمام اختیارات سلب کر کے انہیں عضو معطل بنا دیا تھا . نام کو خلیفہ موجود تھا مگر معمولی باتوں پر اسے راۓ دینے کا بھی حق حاصل نہ تھا سب طاقت اور اختیارات معز الدولہ کے ہاتھ میں تھے اس نے ہجری 351 میں بغداد کی مسجدوں میں لکھوا دیا کہ لعنت ہو معاویہ پر ، لعنت ہو اس پر جس نے فاطمہ کا حق غصب کیا ، اور اس پر جس نے حسن کو اپنے نانا کے پاس دفن نہ ہونے دیا اسکے علاوہ اور بہت کچھ جسے بیان کرتے ہوے دکھ ہوتا ہے .
رات کو مسلمانوں نے یہ سب کچھ مسجدوں سے مٹا دیا تو اس نے دوبارہ لکھوانے کا حکم دیا لیکن اپنے وزیر الہنبی کے مشورے پر صرف اتنا لکھوایا گیا ، خدا کی لعنت ہو ان پر جنہوں نے آل رسول پر ظلم کیا اور لعنت ہو معاویہ پر.
یہ ابتدا تھی 352 ہجری میں یہ حکم لازم کر دیا گیا کہ عاشورہ کےدن بازار بند رہیں ، نان بائی کھانا نہ پکائیں، جگہ جگہ قبے نصب کیے جائیں جن پر سیاہ پردے لٹکاۓ جائیں اور عورتیں بال کھولے منہ پیٹتی بازاروں میں نکلیں اور حسین کا ماتم کریں.
پھر اسی سال 12 ذی الحجہ کو عیدغدیر منائی گئی اور ڈھول بجاۓ گۓ تاشے پیٹے گۓ یعنی محرم کی تمام بدعات کا بانی یہی معزالدولہ تھا جس نے 10 محرم کے دن کی اہمیت کے پیش نظر یوم عاشورہ کو حسین کے قتل کا دن مقرر کیا ۔
ٹھیک اسی طرح جس طرح پولوس نے مشرکین مغرب کے سورج دیوتا کی پیدائش کے دن کو (یعنی 25 دسمبر ) حضرت مسیح کی پیدائش کا دن مقرر کیا تھا .اور اس طرح پولوسیت اور سبائیت ساتھ ساتھ ہی چلتی رہی ہیں-
بہر حال ارض الطف کے قریہ العقر کی مضافاتی زمین کربلا میں 10 محرم ہجری 61 کو اس واقعہ کے پیش آنے کے بارے میں متواتر خبریں مشہور ہیں لیکن اصل صورت حال کیا تھی اس بارے میں آج سے ساڑے آٹھ سو سال پہلے کے علامہ زمان حجتہ الاسلام امام غزالی کیا فرماتے ہیں غور سے سنیئے .
" جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ یزید نے حسین کے قتل کا حکم دیا یا وہ اس پر راضی تھا تو وہ یہ جان لے کہ وہ شخص پرلے درجے کا احمق ہے۔ اکابر ، وزرا اور بادشاہوں میں سے جو اپنے اپنے زمانے میں قتل ہوے اگر کوئی شخص ان کی یہ حقیقت معلوم کرنا چاہے کہ
قتل کا حکم کس نے دیا ؟
کون اس پر راضی تھا؟
اور کس نے اس کو نا پسند کیا؟
تو وہ ہر گز اس پر قادر نہ ہو گا کہ اصلیت کی تہہ تک پہنچ سکے اگرچہ یہ قتل اس کے پڑوس میں اور اس کی موجودگی ہی میں کیوں نہ ہوا ہو ، تو پھر اس واقعہ تک کیسے رسائی ہو سکتی ہے؟ جو بہت دور دراز کے علاقے اور قدیم زمانے میں ہوا تھا ۔ جس کو چار سو برس کی قدیم مدت گزر چکی ہو.اصل بات یہ ہے کہ اس بارے میں شدید تعصب کی راہ اختیار کی گئی ہے اس وجہ سے اس واقعہ کے بارے میں مختلف گروہوں کی طرف سے بہت سی روایتیں ہیں مگر یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی حقیقت کا ہر گز پتہ نہیں چل سکتا اور جب حقیقت ہی تعصب کے پردوں میں روپوش ہو گئی ہو تو پھر ہر مسلمان کے ساتھ حسن ظن رکھنا واجب ہے ".(صفحہ 465 دفیات الاعیان ابن حلکان ترجمہ الکیا الہرسی).
یہ الفاظ ساڑے آٹھ سو برس پہلے اس وقت سپرد قلم ہوے جب اس واقعہ کی لفظی تصویر کشی کے لئے من گھڑت روایتوں کا اتنا بڑا انبار نہ تھا حضرت امام غزالی متوفی 505 ہجری کے زمانے سے واقعہ کربلا کو صرف چار سو برس کی مدت گزری تھی.
اور حسینی قافلہ ساڑے نو سو انگریزی میل یا 800 عربی میل کی مسافت اور دشوار گزار مراحل طے کر کے کسی بھی حالت میں 20 یا 22 دن میں یعنی 2 محرم 61 ہجری کو ہر گز اس مقام پر نہیں پہنچ سکتا تھا۔ تو آپ سوچیئے کہ پھر پانی بند کرنے ، وحشیانہ مظالم اور جنگ و جدل کی من گھڑت روایتیں اور مصنوعی معرکہ آرائیوں کی داستانیں کس اب و تاب سے بیان کی گئیں کہ آٹھ دن پہلے ہی قافلے کو جاۓ وقوعہ تک پنچانا مقصود تھا
جب تاریخ اور دن بھی یہ راوی درست نہیں بتا سکے تو پھر ان روایتوں کی حقیقت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے .
ایک آزاد اور بے لاگ محقق دے خوئے نے اپنے محققانہ مقالہ میں حادثہ کربلا کے بارے میں ایک موقعہ پر لکھا ہے ۔
" کسی اور انجام اور نتیجہ کی توقح اس نا عاقبت اندیشانہ مہم کے سلسلے میں نہیں کی جا سکتی تھی جو حسین نے اختیار کی اور چونکہ اس حادثہ میں حضرت علی کے فرزند اور نواسہ رسول بشمول اپنے اہل خاندان کے قتل ہوے تھے اس لئے حسین کے دلی حامیوں نے جو اپنی درخواستوں اور دعوت ناموں کی بنا پر اس حادثہ کی اصلی وجہ اور سبب بنے تھے انہوں نے بعد میں اس کو ایک المیہ بنا لیا اور واقعات نے رفتہ رفتہ ایک افسانے کا رنگ اختیار کر لیا حتہ کہ عمر بن سعد اور اس کے فوجی افسروں کو خاص طور پر عبید الله بن زیاد یہاں تک کہ یزید کو بھی قاتل سمجھا جانے لگا"
(صفحہ 29 جلد 1 انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا - گیارواں اڈیشن )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭واپس ۔شیطان نامہ ۔ فہرست ٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں