وہ گورنمٹ کے محکمے کا آفیسر تھا اسکی ٹرانسفر لاہور سے کراچی ہوئی ۔ بذریعہ
ریل گاڑی کراچی جانے کے لئے وہ ریلوے سٹیشن پہنچا اور ٹکٹ خرید لی۔
گاڑی جس پلیٹ فارم پہ کھڑی تھی وہ دور تھا ، سیڑھیاں چڑھ کر جانا پڑتا لہذا اُس نے سامان اٹھانے کے لیے قلی کو بلایا اور کہا
" بھائی میرا سامان تیز رو تک پہنچا دو، کراچی جانا ہے "
وہ تو جی پلیٹ فارم پر لگ چکی ہے ۔ جلدی کرنا پڑے گی ۔ قلی نے سامان اٹھایا اور چل پڑا ، وقت بے حد کم تھا اس لئے وہ تیزی سے پیلٹ فارم کی طرف بڑھ رہا تھا ۔
پیچھے سے قلی بھی سامان اٹھا کر تیز چلتا آرہا تھا ۔ تیز چلتا ہوا وہ بوگی کے دروازے پہ پہنچ گیا ۔ اور چڑھ کر بوگی کے دروازے میں کھڑا ہوگیا ۔ اُس نے قُلی کو ڈھونڈا ، ندارد ۔ بھیڑ زیادہ تھی لہذا قلی سامان سمیت بھیڑمیں پھنس چکا تھا ۔
وہ بار بار راستے کو دیکھ رہا تھا، لیکن بہت سارے سروں میں قلی نظر نہیں آرہا تھا، اتنے میں گارڈ وسل دی اور ٹرین چلنی شروع ہوگئی ۔ وہ جلدی سے دروازے سے نیچے اتر گیا ۔ کیونکہ اس کا سامان رہ جاتا ۔ اور ٹرین آہستہ آہستہ چلتے ہوئے سٹیشن سے باہر نکل گئی ۔
جب پلیٹ فارم میں لوگوں کا رش کم ہوا تو قلی پسینے سے شرابور سامان پر پر آٹھائے ہوئے سامنے سے آتا دکھائی دیا ۔ قلی قریب آیا تو اُس کے چہرے پہ خجالت ، افسوس اور شرمندگی کی واضح آثار موجود تھے
" صاحب ...!!! مجھے معاف کردے میں نے وقت پہ پہنچنے کی بہت کوشش کی لیکن بھیڑ میں دھکا لگنے سے گر گیا سامان اٹھانے اور بھیڑ زیادہ ہونے کی وجہ سے میں وقت پہ پہنچ نہیں پایا "
اُس غصہ تو بہت تھا، لیکن سوچا گاڑی تو ویسے بھی مس ہوگئی ہے اب اگر میں اس قلی کا قتل بھی کردوں تو بھی گاڑی پر بیٹھ نہیں سکتا ، لہذا غصہ ہونے اور اپنا خون جلانے کا فائدہ ؟
" ارے کوئی بات نہیں نوجوان ! کوئی بات نہیں ... اللہ کو ایسے منظور تھا ! اس کی مرضی کو بھلا کون ٹال سکتا ہے چلو میں آج نہ سہی کل چلا جاونگا "
اُس نے چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے جواب دیا...
قلی نے یہ سنا تو اسکے چہرے پہ پریشانی کی جگہ بشاشت نے لے لی اور سامان اٹھا کر کہا
" آئیں صاحب میں آپ کو ریسٹ ہاؤس میں لے چلتا ہوں ۔"
قلی نے ریسٹ ہاؤس میں سامان رکھا اور باہر نکل آیا ۔
قلی کو چونکہ علم تھا کہ صاحب نے کل پھر اسی سٹیشن سے جانا ہے لہذا وہ تمام رات سٹیشن پہ ہی رہا ۔
اگلے دن صاحب مقررہ وقت سے پہلے ہی سٹیشن پہنچا ۔ سامنے ہی وہی قلی کھڑا تھا اس نے بھاگ گرمجوشی سے ہاتھ ملایا جیسے کہ دونوں بہت قریبی عزیز ہوں اور سامان اٹھاکر کہا
" صاحب آپ کا ٹکٹ لے چکا ہوں اور سیٹ بھی بُک کروا چکا ہوں ۔ چلیں آئیں "
قلی نے سامان سر پہ رکھا اور دونوں پلیٹ فارم کی طرف چل پڑے ، ٹرین آنے پر، گاڑی میں سامان رکھوانے کے بعد اُس نے بٹوے سے پیسے نکال کر قلی کو ادا کرنے چاہے تو قلی نے لینے سے انکار کردیا۔ اور بولا ۔
"نہیں صاحب میں پیسے نہیں لوں گا ۔ کیونکہ میری ہی غلطی کی وجہ سے آپکی ٹرین مس ہوئی ہے "
اُس نے بڑی کوشش کی کہ وہ ٹرین کا کرایہ اور قلی کی مزدوری ادا کردے لیکن قلی کسی صورت نہ مانا قلی نے صاف کہہ دیا کہ آپ مجھے پیسے نہ دے گے تو میں زیادہ خوش رہوں گا....
اُس نے قلی کو پاس بٹھا لیا اور گپ شپ لگانے، گاڑی چلنے سے پہلے قلی نیچے اتر گیا اور باہر آکر صاحب باتیں کرنے لگا ۔
قلی اسکو احسان مندانہ نظروں سے بار بار دیکھ رہا تھا اتنے میں گارڈ نے وسل بجائی اور گاڑی نے ہوٹر اور گاڑی آہستہ آہستہ پلیٹ فارم پر سرکنے لگی ہوئی تو وہ گاڑی کے ساتھ ساتھ چل کر صاحب سے باتیں کرنے لگا ٹرین کی رفتار تیز ہوئی تو وہ اپنی جگہ کھڑا ہوکر الوداعی انداز میں ہاتھ لہرا لہرا کر اُسے کو رخصت کررہا تھا ۔
اُس نے بھی کھڑکی سے ہاتھ ہلا کر اسکو الوداع کہا دیا اُسے محسوس ہوا کہ اتنی محبت، مان اور چاہت سے تو کسی اپنے نے بھی اس کو رخصت نہیں کیا تھا۔
ٹرین چلی گئی تو قلی نے سوچا کہ صبح کا ناشتہ نہیں کیا ہے ناشتہ ہی کردوں میں ۔ جیب میں ہاتھ ڈال تو جیب میں کئی نوٹ نکل آئے۔ گنے تو پورے 3 ہزار روپے نکلے ، اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور رو کر صاحب کو دعا دی اور اللہ کا شکر ادا کیا ۔ صاحب نے اسکو محسوس کئے بنا ہی روپے اس کی جیب میں ڈال دیئے تھے۔
بیس سال بعد صاحب نے اپنی ڈائری نکالی اور اس میں لکھا تھا ۔
" قلی کی وجہ سے لیٹ ہونے کا جو غم تھا وہ تو رات کو ہی ختم ہو گیا تھا لیکن اُس کی محبت بھری الوداعی نظرمجھے اپنائیت کا احساس دلا گئی "
اُس نے خالی جگہ پر لکھا ،
"آج بیس سال گزر جانے بعد بھی وہی نظر میرے دل میں ٹھنڈک پیدا کردیتی ہے مجھے ٹرین لیٹ ہونے کا غم و افسوس نہیں تھا ، جتنا افسوس اس بات کا ہے کہ ایک محبت بھرا انسان میں سٹیشن پہ چھوڑ آیا "
گاڑی جس پلیٹ فارم پہ کھڑی تھی وہ دور تھا ، سیڑھیاں چڑھ کر جانا پڑتا لہذا اُس نے سامان اٹھانے کے لیے قلی کو بلایا اور کہا
" بھائی میرا سامان تیز رو تک پہنچا دو، کراچی جانا ہے "
وہ تو جی پلیٹ فارم پر لگ چکی ہے ۔ جلدی کرنا پڑے گی ۔ قلی نے سامان اٹھایا اور چل پڑا ، وقت بے حد کم تھا اس لئے وہ تیزی سے پیلٹ فارم کی طرف بڑھ رہا تھا ۔
پیچھے سے قلی بھی سامان اٹھا کر تیز چلتا آرہا تھا ۔ تیز چلتا ہوا وہ بوگی کے دروازے پہ پہنچ گیا ۔ اور چڑھ کر بوگی کے دروازے میں کھڑا ہوگیا ۔ اُس نے قُلی کو ڈھونڈا ، ندارد ۔ بھیڑ زیادہ تھی لہذا قلی سامان سمیت بھیڑمیں پھنس چکا تھا ۔
وہ بار بار راستے کو دیکھ رہا تھا، لیکن بہت سارے سروں میں قلی نظر نہیں آرہا تھا، اتنے میں گارڈ وسل دی اور ٹرین چلنی شروع ہوگئی ۔ وہ جلدی سے دروازے سے نیچے اتر گیا ۔ کیونکہ اس کا سامان رہ جاتا ۔ اور ٹرین آہستہ آہستہ چلتے ہوئے سٹیشن سے باہر نکل گئی ۔
جب پلیٹ فارم میں لوگوں کا رش کم ہوا تو قلی پسینے سے شرابور سامان پر پر آٹھائے ہوئے سامنے سے آتا دکھائی دیا ۔ قلی قریب آیا تو اُس کے چہرے پہ خجالت ، افسوس اور شرمندگی کی واضح آثار موجود تھے
" صاحب ...!!! مجھے معاف کردے میں نے وقت پہ پہنچنے کی بہت کوشش کی لیکن بھیڑ میں دھکا لگنے سے گر گیا سامان اٹھانے اور بھیڑ زیادہ ہونے کی وجہ سے میں وقت پہ پہنچ نہیں پایا "
اُس غصہ تو بہت تھا، لیکن سوچا گاڑی تو ویسے بھی مس ہوگئی ہے اب اگر میں اس قلی کا قتل بھی کردوں تو بھی گاڑی پر بیٹھ نہیں سکتا ، لہذا غصہ ہونے اور اپنا خون جلانے کا فائدہ ؟
" ارے کوئی بات نہیں نوجوان ! کوئی بات نہیں ... اللہ کو ایسے منظور تھا ! اس کی مرضی کو بھلا کون ٹال سکتا ہے چلو میں آج نہ سہی کل چلا جاونگا "
اُس نے چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے جواب دیا...
قلی نے یہ سنا تو اسکے چہرے پہ پریشانی کی جگہ بشاشت نے لے لی اور سامان اٹھا کر کہا
" آئیں صاحب میں آپ کو ریسٹ ہاؤس میں لے چلتا ہوں ۔"
قلی نے ریسٹ ہاؤس میں سامان رکھا اور باہر نکل آیا ۔
قلی کو چونکہ علم تھا کہ صاحب نے کل پھر اسی سٹیشن سے جانا ہے لہذا وہ تمام رات سٹیشن پہ ہی رہا ۔
اگلے دن صاحب مقررہ وقت سے پہلے ہی سٹیشن پہنچا ۔ سامنے ہی وہی قلی کھڑا تھا اس نے بھاگ گرمجوشی سے ہاتھ ملایا جیسے کہ دونوں بہت قریبی عزیز ہوں اور سامان اٹھاکر کہا
" صاحب آپ کا ٹکٹ لے چکا ہوں اور سیٹ بھی بُک کروا چکا ہوں ۔ چلیں آئیں "
قلی نے سامان سر پہ رکھا اور دونوں پلیٹ فارم کی طرف چل پڑے ، ٹرین آنے پر، گاڑی میں سامان رکھوانے کے بعد اُس نے بٹوے سے پیسے نکال کر قلی کو ادا کرنے چاہے تو قلی نے لینے سے انکار کردیا۔ اور بولا ۔
"نہیں صاحب میں پیسے نہیں لوں گا ۔ کیونکہ میری ہی غلطی کی وجہ سے آپکی ٹرین مس ہوئی ہے "
اُس نے بڑی کوشش کی کہ وہ ٹرین کا کرایہ اور قلی کی مزدوری ادا کردے لیکن قلی کسی صورت نہ مانا قلی نے صاف کہہ دیا کہ آپ مجھے پیسے نہ دے گے تو میں زیادہ خوش رہوں گا....
اُس نے قلی کو پاس بٹھا لیا اور گپ شپ لگانے، گاڑی چلنے سے پہلے قلی نیچے اتر گیا اور باہر آکر صاحب باتیں کرنے لگا ۔
قلی اسکو احسان مندانہ نظروں سے بار بار دیکھ رہا تھا اتنے میں گارڈ نے وسل بجائی اور گاڑی نے ہوٹر اور گاڑی آہستہ آہستہ پلیٹ فارم پر سرکنے لگی ہوئی تو وہ گاڑی کے ساتھ ساتھ چل کر صاحب سے باتیں کرنے لگا ٹرین کی رفتار تیز ہوئی تو وہ اپنی جگہ کھڑا ہوکر الوداعی انداز میں ہاتھ لہرا لہرا کر اُسے کو رخصت کررہا تھا ۔
اُس نے بھی کھڑکی سے ہاتھ ہلا کر اسکو الوداع کہا دیا اُسے محسوس ہوا کہ اتنی محبت، مان اور چاہت سے تو کسی اپنے نے بھی اس کو رخصت نہیں کیا تھا۔
ٹرین چلی گئی تو قلی نے سوچا کہ صبح کا ناشتہ نہیں کیا ہے ناشتہ ہی کردوں میں ۔ جیب میں ہاتھ ڈال تو جیب میں کئی نوٹ نکل آئے۔ گنے تو پورے 3 ہزار روپے نکلے ، اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور رو کر صاحب کو دعا دی اور اللہ کا شکر ادا کیا ۔ صاحب نے اسکو محسوس کئے بنا ہی روپے اس کی جیب میں ڈال دیئے تھے۔
بیس سال بعد صاحب نے اپنی ڈائری نکالی اور اس میں لکھا تھا ۔
" قلی کی وجہ سے لیٹ ہونے کا جو غم تھا وہ تو رات کو ہی ختم ہو گیا تھا لیکن اُس کی محبت بھری الوداعی نظرمجھے اپنائیت کا احساس دلا گئی "
اُس نے خالی جگہ پر لکھا ،
"آج بیس سال گزر جانے بعد بھی وہی نظر میرے دل میں ٹھنڈک پیدا کردیتی ہے مجھے ٹرین لیٹ ہونے کا غم و افسوس نہیں تھا ، جتنا افسوس اس بات کا ہے کہ ایک محبت بھرا انسان میں سٹیشن پہ چھوڑ آیا "
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں