کہتے ہیں کہ نصف صدی قبل کا قصہ ہے ۔ جب ایران سے ایرانی بلا روک ٹوک زاہدان سے کوئیٹہ پہنچ جاتے تھے ۔ اِسی طرح ایک ایرانی رمضان میں ، کوئیٹہ آیا ، اُس نے ایک دکان پر پکوڑے بنتے دیکھے ۔ دکاندار کے ہاتھ میں بڑا پیالہ تھا اُس میں سے وہ پکوڑے کا بیسن کڑھاؤ میں ڈال رہا تھا ، ایرانی کو صرف ایرانی آتی تھی ۔
اُس کے اور دکاندار کے درمیان جو مکالمہ ہوا ،وہ پڑھئیے
ایرانی: برادرِ من این چیست ؟
دکاندار: جانِ من ، ایں پکوڑاست !
ایرانی: ہمدم ، چہ می گوئی ؟
دکاندار: گرمی سے بےدم ، تیل میں ڈبوئی ۔
ایرانی: فارسی نمی دانی ؟
دکاندار: لے جا کھائے گی تیری نانی ۔
اُس کے اور دکاندار کے درمیان جو مکالمہ ہوا ،وہ پڑھئیے
ایرانی: برادرِ من این چیست ؟
دکاندار: جانِ من ، ایں پکوڑاست !
ایرانی: ہمدم ، چہ می گوئی ؟
دکاندار: گرمی سے بےدم ، تیل میں ڈبوئی ۔
ایرانی: فارسی نمی دانی ؟
دکاندار: لے جا کھائے گی تیری نانی ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں