ڈیڑھ برس سے انتہائی سنجیدگی سے مزاحیہ مناثرہ منعقد کرانا ہمت اور حوصلے کا کام ہے جو"شگفتگو" کے ارکان کو قطعاً مشکل نہیں لگا ۔ ہر ماہ جس ذوق وشوق سے کوئی ایک رکن زعفرانی مناثرے کے اہتمام کی ذمہ داری لیتا ہے، وہ جذبہ قابلِ داد ہے ۔ یہ بھی عجیب انداز ہےکہ "شگفتگو" عام ادبی تنظیموں کی طرح نہیں ہے، اس میں کسی کے پاس کوئی عہدہ نہیں اور کسی قسم کا کوئی چندہ بھی نہیں ہوتا ۔ مزاحیہ نثری نشست کے دوران بھی صدارت نامی کوئی علت نہیں پالی گئی ۔ عمر اور تجربے کے حوالے سے ادب و احترام اور حفظِ مراتب کا خیال تو کیا جاتا ہے مگر پہلے یا بعد میں پڑھنے سے کسی کی شان میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوتی ۔ نثری نگارشات پیش کرتے وقت کوئی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی ۔ 30ستمبر2018سے آغاز ہونے کے بعد اب تک"شگفتگو" کے زیرِ اہتمام اٹھارہ مناثرے ہو چکے ہیں ۔ ہر مہینے کے دوسرے ہفتے کوبلا تعطل زعفرانی مناثروں کا یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔
اِس بار مورخہ 8 فروری کو اٹھارہواں زعفرانی مناثرہ "شگفتگو "کے تاسیسی رکن عاطفؔ مرزا نے نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کی مرکزی لائبریری کے سیمینار ہال میں منعقد کرایا ۔ مناثرے کےشرکائے کرام میں میزبان کے علاوہ جناب ارشد علی مرشد، ڈاکٹر عزیز فیصل، قیوم طاہر، ڈاکٹر سائرہ بتول، فردوس عالم اوربیگم فردوس عالم شامل تھے۔ ٹیلی فون کے ذریعے پاکستان کے تیسرے سرے سے جناب آصف اکبر نے اِس مناثرے میں شریک ہو کر مزاح کے بارے میں انتہائی سنجیدہ ہونے کا ثبوت دیا ۔
نشست کا آغاز میزبان عاطف مرزا نے خوش آمدید کا نعرہ بلند کر کے کیا، اُسکے بعد انہوں نے سلطنت مزاح میں کچھ عرصہ پہلے شائع ہونے والی کتاب "قلم آرئیاں" پر تبصرہ پیش کر کے شرکاء کو مسکروایا ۔ "قلم آرئیاں " سرگودھا سے تعلق رکھنے والے معروف مزاح نگار جناب خادم حسین مجاہد کی دوسری تصنیف ہے۔
ابھی حاضرین اِس تبصرے کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف تھے کہ شگفتگو کے بانی رکن جناب ڈاکٹر عزیز فیصل نے سب کے سامنے اپنے تازہ ترین نثرانچے پھیلا دیے۔ یورپی خواتین کے مختصر پہناوؤں کی طرح مختصر مختصر سے انداز میں ڈاکٹر صاحب کے نثرانچے بہت دیر تک سامعین کی سماعتوں میں گدگدیاں کرتے رہے۔
ڈاکٹر صاحب جاتے جاتے مزاح کی رسی جناب ارشد علی مرشد کے ہاتھ میں تھما گئے۔
سیمینار ہال میں موجود سب سوچ رہے تھے کہ وہ سب مل کر نعرے لگائیں کہ مرشد آ گئے، مرشد آ گئے، مگر جانے کیوں چپ رہے۔ بہرحال مرشد صاحب نے قہقہوں کے تھیلے کھولے تو اس میں سے ہنسی کا ڈھیر سارا سامان برآمد ہوا، جو انہوں نے "بوڑھوں کا شوشل میڈیا" کے عنوان سے حاضرین کی سماعتوں کے حوالے کیا۔
پھر قیوم طاہر صاحب تشریف لائے اور "چاچا ہڑپوی" نامی تاریخی کردار کی شان بیان کرتے ہوئے شرکائے مناثرہ کوشدید مسکراہٹ اور قہقہوں سے مالا مال کیا ۔ بالمشافہ پیش کی جانے والی تحریروں کے بعد یہاں پر دور دراز کے علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے قیمتی وقت میں سے چند انمول لمحے نکال کر نوجوان بزرگ اور شگفتگو کے تاسیسی رکن جناب آصف اکبر نے اپنے ٹیلی فونک خطاب میں "حکیموں کی باتیں ۔ رنگِ مزاح" پیش کر کے قہقہوں کی برسات کی۔
ابھی ان قہقہوں کے اثر نے نکل ہی نہ پائے تھے کہ فردوس عالم صاحب کی جانب سے ہنسی کی اندھا دھند فائرنگ کی گئی ۔ اس فائرنگ کی زد میں تمام حاضرین آئے۔
آخر میں ڈاکٹر سائرہ بتول نے آتے ہی بغیر عنوان کے اردو ادب کے انتہائی اہم موضوعات پر اپنی کھنکھناتی ہوئی تحقیق پیش کی، جسے ارشد علی مرشد صاحب نے" زبان و میان" کا عنوان دیا۔
مناثرے کے اختتام پر میزبان عاطف مرزا نے سب سے پہلے مناثرے کی واحد سامع بیگم فردوس عالم کا احسان تسلیم کرتے ہوئے اُن کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ ساتھ ہی مہمان اراکین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سب کو پر تکلف چائے کی دعوت دی۔
چائے کے بعد تمام ارکانِ عالی مقام ہنسی خوشی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ یوں یہ اٹھارہواں مناثرہ کامیابی کےساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔
(مبصّر - عاطف مرزا)
٭٭٭٭٭٭واپس جائیں٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں