Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 13 جون، 2020

شگفتہ گو - چھاپہ پڑ گیا- شاذیہ مفتی

زعفرانی بزم شگفتگو کےمزاحیہ مناثرہ کی 21 ویں محفل میں وٹس ایپ کیا گیا ، شاذیہ مفتی صاحبہ   کا مضمون ۔ 
 ٭٭٭٭٭٭٭٭
 25اپریل -  یکم رمضان
چھاپہ پڑ گیا  -


 پاکستان بھر میں مساجد نماز باجماعت کے لیے کھول دی گئیں ۔ نماز تراویح بھی ادا کی جائے گی ۔ میاں صاحب نے دو نفل شکرانے کے ادا کئے ۔ عشاء کے وقت باوضو ہوکر ٹوپی لگائی، عطر کی پھریری کان میں پھیری ، ماسک کا نقاب کیا ، ایک بغل  میں جاءِ نماز اور دوسری میں نقاب زدہ صاحبزادے کو دابے مسجد کو رواں ہوئے ۔
کچھ گھنٹہ بھر گزرا ہوگا کہ دارے میاں (صاحبزادے ) ننگے سر ننگے منہ ہانپتے کانپتے چلے آرہے ہیں ۔
" یا اللہ خیر ! بیٹا ماسک کیوں اتارا ؟ ٹوپی کیا ہوئی ؟"
پھولی سانسوں میں بتایا -" آپ کے میاں کو پولیس لے گئی "
" چھاپہ پڑگیا "
" سب دور دور کھڑے تھے ، میں آخر میں اور پھر تین گاڑیاں آگئیں پولیس کی "
یہاں تک بیان میں روانی تھی -اب اٹک اٹک کر بولنا شروع ہوئے ، دارے میاں نے تخیل سے کام لینا اور کہانی گھڑنی شروع کردی، جو اِن کے بدلتے لہجے سے پتہ چل رہی تھی ۔
" اور رینجرز بھی تھے اور وہ جب دہشت گردی کے خطرے والے دنوں میں اسکول میں گاڑیاں پھرتی تھیں ،  بکتر بند، وہ بھی تھیں اور ہوٹر چل رہے تھے ۔ "
" مجھے تو لگ رہا ہے وہ سب کو لے گئے، کچھ اعلان بھی تھا شاید کہہ رہے تھے لائن بناکر باہر آجائیں تین  گننے تک ۔ "
(بتائیے نمازی تھے یا دہشت گرد ۔ ہالی وڈ کی فلموں کے سین دماغ میں گھومنے لگے ۔ شکر ہے دارے میاں کو مسجد کے اوپر ہیلی کاپڑ اڑتے اور ان سے لٹکتی  سیڑھی پر میاں صاحب قوت ایمانی کے زور پر لہراتے نظر نہ آگئے ۔  )
" چلیں اٹھیں نماز چھوڑیں آپ کے میاں کو تھانے نہ لے گئے ہوں "
سوچا آدھا تو صاف جھوٹ لگ رہا ہے، یہ تراویح سے بھاگنے کی ترکیب ہے لیکن کچھ سچ بھی ہوگا اب کیا کروں ! اچھا دس بجے تک انتظار کرنے کا سوچ کر اپنی باقی چار رکعت کی نیت باندھ لی ۔
ہر دو تین منٹ بعد دارے صاحب کی جلدی کریں سنائی دیتی ۔
دس سے ساڑھے دس ہوئے ۔ وہم ستانے لگے ۔ آخر گاڑی نکالی اور مسجد کی طرف چلی ۔ پیدل اس لیے نہ گئی کہ اگر سچ مچ کوئی تھانے وانے کا معاملہ ہوا تو دوبارہ گھر آنے کے بجائے رشتہ دار بھائی بند جمع کرکے چھڑانے جاؤں -
ساری مسجد خالی تھی میاں صاحب اللہ سے لو لگائے بیٹھے تھے ۔ دروازے کے باہر خادم مسجد منہ لٹکائے تالا کنجی لیے کھڑے تھے کہ یہ صاحب جائیں تو وہ بھی اپنا فرض پورا کرکے سدھاریں ۔ مسجد کے سامنے والی " حاجی ملک شاپ " کے پہلوان جی نے گارنٹی دی
" گھر چلے جائیں میں ضامن ہوں آپ کو کچھ نا کہا جائے گا "
لالچ دیا
 " آپ کے گھر کہیں سے اجوا کھجور آئی ہے  اور زیتون کا تیل ۔ "
بمشکل بہلا پھسلا کر میاں صاحب کو باہر آنے پر آمادہ کیا ۔ جب پوچھا تو نہ ان کو پولیس کی آمد کا پتہ تھا نہ کسی ایک دو تین والے اعلان کا ۔
دارے میاں کے کان کھینچنے کی پلاننگ کرتی گھر آئی ٹی وی پر خبر چل رہی تھی۔ اے ایس پی صاحب کے مسجدوں کے دورے اور ایس او پیز کی چیکنگ کی ۔ دارے صاحب چھپ چکے تھے متوقع ڈانٹ کے خوف سے ۔ سوچ رہی ہوں ان کی بنائ اس آملیٹ  میں سے سچ اور جھوٹ الگ کرنے کے لیے کیا حربہ آزماوں ! تخیل کی کرشمہ سازیاں اور افوہ سازی کمزور دل لوگوں کے لیے کتنی خطرناک ہے ابھی سمجھادوں ورنہ بڑے ہوکر یہ عادت نجانے کیا کیا گل کھلائے ۔
٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔