Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 13 جون، 2020

شگفتگو - باوا جی -حسیب اسیر

زعفرانی بزم شگفتگو کےمزاحیہ مناثرہ کی 21 ویں محفل میں وٹس ایپ کیا گیا ،حسیب اسیر صاحب    کا مضمون ۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 
انداز اتنا جدا کہ اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے قدوقامت میں اتنے کہ مناسب اونچائی کا آدمی بھی نظر جھکا کر آنکھیں چار کرے _بینائی ایسی کہ اخبار کی شہ سرخیاں بھی باریک بینی سے پڑھتے  _رسمی تعلیم اتنی تو نہیں ڈگریاں گنواتے پھریں، بہرکیف جیسا بھی موضوع ہو ان کی زبان بنا کسی لکنت کے رواں ہو جاتی  _چہرہ بنا بنایا معصوم تو نہیں پر جب بناتے  واللہ سر تا پا معصوم معلوم ہوتے _رنگت کے بہت صاف نہیں اس پر کالی سیاہ داڑھی کیے رنگ کے کالے لگتے  خیر یہ کالک رنگ تک محدود تھی _زندگی کی اتنی بہاریں دیکھ چکے تھے کہ آنے والی ہر بہار ان کے لیے خزاں کا پیش خیمہ ہی تھی _طبیعت کے سادہ تھے پر یہ سادگی فریب تب لگتی  جب انکا پارہ درجہ ٹھہراؤ سے تجاوز کر جاتا  _ان کی ذات کی یہ تجاوزات روزاول سے تھیں یا پھر سفر_زیست کی روانی میں ان کی شخصی ملکیت بنیں اس پر ہم صرف قیاس کے گھوڑے دوڑا سکتے ہیں _
میری ان سے آشنائی ان دنوں ہوئی جب یہ صوبیدار کی حیثیت سے (ٹی ٹی او) ٹریڈ ٹریننگ آفیسر کے فرائض سر انجام دے رہے تھے اور میں بطور ریکروٹ فوجی زندگی (یہ ایک ایسی زندگی ہے جسے جیا نہیں گزارا جاتا ہے) کی الف ب پڑھ رہا تھا _
ان سے دوبدو ملاقات سے پیشتر غائبانہ تعارف باوا جی کے نام سے ہوا جبکہ ان کا کاغزی نام الطاف حسین تھا _یوں تو قطعاً سیاسی نہیں تھے باوجود اسکے انکا جھکاؤ ایک ایسی سیاسی جماعت کی جانب تھا جو تبدیلی کے خواہاں تھے _ابھی تبدیلی والوں کا ذکر ہوا نہیں کہ ان کے ہنرخطابت نے جوش مارا، یوں تفریح کا سامان ہوتا یہ جب بھی مقرر ہوئے الفاظ کو ہم نے ہاتھ جوڑے کھڑے پایا اور یہ ہیں کہ انہیں ادا ہی کیے جا رہے ہیں _مجال ہے کہ دورانخطاب ہم پر کبھی اکتاہٹ کی کیفیت طاری ہوئی ہو کہ ایک تو لفظ لفظ واضح اور اس پر جملوں کا درمیانی وقفہ اتنا کہ جسمانی تاثرات مکمل طور پر ایڈجسٹ کر لیتے اور دوسرا اس لیے بھی کہ یہ سارا عمل سننے سے زیادہ دیکھنے سے متعلق ہوتا جب انہیں پہلی بار دیکھا تو پرہیز گار محسوس کیا، بولنے میں اداکار لگے اور سننے میں سیاست دان پایا _اس کے علاوہ پہننے میں سفید لباس پر نظر ٹھہرتی البتہ اتارنے میں انہیں وردی دلعزیز تھیصوم و صلوۃ کے خود تو پابند تھے ہی دوسروں کو بھی سرراہ  منجانبمسجد کر لیتے  _اس معاملے میں تلقین شاہی مزاج کے حامل تھے _اس مولوی کی مثل جو ہر محفل میں حاضرین کو یہ کہہ کر خطبے کا آغاز کرتا ہے کہ آج ہم یہاں پر اپنے اعمال کا حساب چکا کر اٹھیں گے مگر بعد از خطبہ وہاں صرف وہ حاضرین بچتے ہیں جن کا واقعتاً کوئی حساب ہوتا  _ڈسپلن کے معاملے میں کبھی نرمی کو رواں نہیں رکھا _اس لیے جو شخص ان کے رو برو آتا  اسے اچھے ڈسپلن کا مظاہرہ کرنا پڑتا  _ایک تو اس لیے کہ وہ جانتا تھا کہ صاحب مظاہرہ پسند ہیں اور دوسرا یوں بھی کہ دو چند واعظ تو سننا ہی ہے، پر اچھا مظاہرہ کرنے پر تحسین سے نوازا جائے گا _
میرا مشاہدہ بھی ایک عامی ریکروٹ کے جیسا ہوتا اگر انہیں فرصت کے لمحات میں دیکھا سنا نہ ہوتا اور یہ فرصت کے رات دن تب میسر آئے جب میں نے تقریری مقابلے میں حصہ لیا مقابلہ تو خیر جو ہونا تھا سو ہوا _اس کے سوا الطاف صاحب کی شخصیت سے آشنائی کے گوہرنایاب کا ہاتھ لگنا ایک جانب ہے _
ہم لائبریری میں بیٹھے ہیں یک مشت دخل انداز ہوئے اس کے بعد کا منظر کچھ یوں وجود پاتا ہے _ان کے آنے پر ہمارا ادب سے کھڑے ہونا پھر پیچھے ہو کر کرسی آگے کرنا انکا براجمان ہونا اور ہم کسی تیسری حالت
 میں ہیں یہ سارا عمل فوجی "ون" کے دورانیے میں سما جاتا _اس سے یہ مراد نہیں کہ علم و ادب سے شاکی تھےاصل میں واقعہ کچھ یوں ہے کہ اول تو گفتگو کا موضوع سرے سے ہوتا نہیں اور اگر ہوتا بھی تو اس کا ہونا بھی کیا ہونا تھا حسنانتخاب(بائی آرڈر)سے موضوع "لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی" چنا گیا تھا _ اس کا مواد ہمارے کردار سے ہمیں بہم پہنچاتے ہمیشہ نوجوان نسل کی بے راہ روی کو ازحد سنجیدگی سے لیتے اور مختلف حیلوں سے اس میں نمی پیدا کرنے کی سعی کرتے _انہیں نئی نسل سے بے حد لگاو تھا اور نئی نسل ہے کہ جہاں  انہیں دیکھا پھر وہاں نظر نہ آئے _شعر وشاعری سے ایسا لگاو  کہ نثر میں گفتگو کرنا ان کے لیے اتنا ہی مشکل امر تھا جتنا حضرتاقبال  کے لیے فارسی کے کسی روایتی مضمون کو اردو میں ادا کرنا _آبائی علاقہ بھی کشمیر تھا _اکثر اپنے آباواجداد کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے اتنے رنجیدہ ہو جاتے  کہ ان کی آنکھوں میں لالی تیرنے لگتی  بدن اکڑتا محسوس ہوتا اور ساتھ ہی "سارا ہندوستاں ہمارا" الاپتے ہوئے دیواروں کو تکنے لگتے _لکین ان دیواروں کو آنکھوں دیکھانے سے کچھ نہیں ہوا کہ ان کے سامنے یہ دیواریں اپنی فوج کی تھیں _لکین یہ کیفیت نہایت قلیل لمحوں میں رفو چکر ہو جاتی  _بس یہیں سے ان کی شخصیت میں شوخی پیدا ہوتی _شاید انہوں نے درد کی یہی دوا ڈھونڈی تھی _
قیاس ہے اگر اوائل عمری میں فوجی سنڑ کے بجائے کسی فلمی اسٹوڈیو کو منہ کرتے تو آج عرفان کھوسٹ کے ہم پلہ نہیں تو آس پاس ضرور ہوتے _جیسے اکثر اداکاروں کے ادا کیے جملے ان کی پہچان بن جاتے ہیں ایسے ہی ایک جملہ "بڑے پیمانے پر" جو یہ اپنے خطبوں میں دوہراتے  ان کی پہچان بلکہ چھیڑ بن گیا تھا _ہر کام بڑے پیمانے پر کرنے کے خواہاں تھے _خیر حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا _

خاکہ نگار 🌹
    ♥️حسیب اسیر ♥️
واہ کینٹ🇵🇰٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔