٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جہاں میں ہوں وہاں میری دو ننھی ننھی پوتیاں بھی ہیں۔ ایک سوا چارسال کی مریم اور ایک دو سال کی ماہ نور۔ رازی کی اولاد یہ دونوں بہنیں ہی ہیں۔ مریم باتیں کرنے میں بہت تیز ہے۔ چپ ہو تو اس کا مطلب ہے سو رہی ہے۔ اور ماہ نور سونے کے معاملے میں بہت نخریلی۔ سو رہی ہو تو اس کا مطلب ہے مریم چپ ہے۔ لیکن ادھر میں نے بصد مشکل ماہ نور کو سلایا ادھرپانچ دس منٹ کے اندر مریم اس کا کھوج لگاتی میرے کمرے میں۔ ادھر وہ آئی ادھر میں نے آہستہ سے کہا مریم، ماہ نور سو رہی ہے۔ لیکن مریم کا تو نصب العین ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ وہ بلند آواز میں کچھ نہ کچھ کہے گی اور ساتھ ہی چیزوں کی اٹھا پٹخ کر کے شور بھی کرے گی۔ کچھ ہی دیر میں وہ ماہ نور کو جگانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
ان دونوں میں لاگ بھی ہے اور لگاؤ بھی۔ جو چیز مریم کے ہاتھ میں ہو گی وہ فی الفور ماہ نور کو درکار ہو گی۔ اور مریم کا فلسفہ یہ ہے کہ جو چیز میرے لیے آتی ہے وہ صرف میری ہوتی ہے، کیونکہ ماہ نور دور حاضر کی پیداوار ہے، اور اس کی آمد سے پہلے سے یہ اصول چلا آ رہا ہے۔ لیکن جو چیز ماہ نور کے لیے آتی ہے اس پر دونوں کا حق ہوتا ہے، کیونکہ ہم دونوں بہنیں ہیں۔ اور چونکہ میں بڑی ہوں اس لیے یہ فیصلہ میں ہی کروں گی کہ کب اسے میں اپنے پاس رکھوں گی اور کب ماہ نور کے لیے چھوڑوں گی۔
'
ہمارے وطن عزیز میں بھی اوپر تلے کے دو بھائی ہیں۔ ایک مفتی ہے اور ایک چودھری۔ ان دونوں کی عمروں کا تناسب بھی تقریباً وہی ہے جو مریم اور ماہ نور کی عمروں کا ہے۔ویسے تو ان دونوں کے اور بھی بہت سے بہن بھائی ہیں مگر لاگ اور لگاؤ ان دو کے درمیان ہی کچھ زیادہ ہے۔ مفتی چپ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چاند سو رہا ہے۔ جبکہ چودھری سونے کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی نخریلا ہے۔ کہتا ہے جب تک میں پیشگوئی نہ کر لوں مجھے نیند نہیں آتی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ادھر چھوٹا بھائی پیشگوئی کر کے سونے لیٹا اور ادھر بڑا بھائی گرجتے دھاڑتے پہنچ گیا کہ چاند میرا ہے، تم پیشگوئی کرنے والے کون ؟
اب میں لاکھ اس کو سمجھاؤں کہ بھائی وہ پیشگوئی کرتا ہے تو کرنے دو، چاند ہمیشہ سے تمہارا ہے اور تمہارا ہی رہے گا۔ چاند دیکھنا تمہارا حق بھی ہے اور فرض بھی، اور ہمیشہ رہے گا۔ کوئی مائی کا لال تم کو چاند دیکھنے اور پھر سب کو بتانے سے نہیں روک سکتا۔ تم سارا سال چاند دیکھو، دن رات چاند دیکھو، اماوس کی راتوں میں بھی چاند دیکھو اور چاہو تو مفت کے نیٹ پر ایک لائیو چینل بنا کرمستقل اعلانات کرتے رہو ۔ مگر وہ تو جب تک چیخ چیخ کر آسمان سر پر نہ اٹھالے اور ساری قوم کو بیدار نہ کردے، کوئی بات سننے کو ہی تیار نہیں ہوتا۔ اور اگر اتّفاق سے چھوٹے بھائی کی پیشگوئی درست نکلے تو نماز روزوں کا حساب مانگنے لگتا ہے۔ یعنی جیسے چھوٹے بھائی نے اس کے حق پر ڈاکہ ڈالا، یہ منکر نکیر کے حق پر ڈاکہ ڈالنے لگتا ہے۔
چھوٹے بھائی کا خیال ہے کہ اس کے پیشگوئی کرنے سے کسی کا کوئی نقصان نہیں ہو سکتا، ہاں البتّہ عوام کو یہ فائدہ ضرور ہو سکتا ہے کہ وہ ایک عرصہ پہلے شادی ہال بک کرالیں، سفر کے ٹکٹ بک کروالیں، سنیما کے ٹکٹ لے لیں ، چھٹیّوں کی درخواستیں دے دیں،اور حکومت کو یہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک سال پہلے سے کسی چاند مشروط تہوار کی پلاننگ کر لے۔ ساتھ ہی مٹھائی بنانے والوں کا بھی بھلا ہو سکتا ہے ، اگرانہیں پہلے سے معلوم ہوجائے کہ کب مٹھائی بنانی ہے اور کب نہیں۔ دودھ والوں کو بھی پتا چل جائے کہ پانی کب ملانا ہے اور قصائی بھی اسی اعتبار سے تیّاری کرلیں۔ سب سے زیادہ فائدہ تو درزیوں کا ہو سکتا ہے۔ لیکن بڑے بھائی کا خیال مریم کے فلسفے کے مطابق ہے کہ وہ ڈیڑھ ہزار سال سے چاند کا مالک چلا آ رہا ہے اس لیے وہ کسی نئے آنے والے کو نہ صرف یہ کہ ملکیت میں شریک نہیں کرے گا، بلکہ کسی کو اپنے چاند پر اچھی یا بری نظر بھی نہیں ڈالنے دے گا، اور نہ کسی کو اس کا نام ہی لینے کی اجازت دے گا۔ ساتھ ہی نئے آنے والے کی ملکیت سائنس کو تو جوتے کی نوک پر رکھے گا، مگر اس کے ٹیکنیکل ثمرات ببانگِ دہل، یعنی لاؤڈ اسپیکر پر نہ صرف یہ کہ سمیٹے گا، بلکہ ملکیت میں بھی شریک ہوگا۔
اب اگر انتخابی شیر اور بکری کا معاملہ ہوتا تو ہم ان دونوں کو شاید ایک گھاٹ پر لائیو پانی پینے پر آمادہ کر لیتے مگر یہاں تو بات ہاتھی اور چیتے کی ہے۔ چیتے اور ہاتھی کے ایک ساتھ ایک گھاٹ پر پانی پینے کا معاملہ تو بہت دور کی بات ہے، چیتا ہاتھی کو گھاٹ کے قریب بھی آنے دینے کو تیار نہیں ہے۔ کیونکہ اسے ڈر ہے کہ ہاتھی ایک بار گھاٹ پر پہنچ گیا تو گھاٹ کا پانی گھٹا گھٹا کر ، گھاٹ کو چیتے کا مرگھٹ بنا دے گا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ کہنے والے تو یہ کہتے ہیں کہ بڑے بھائی نے تو چاند ایسی عینک سے دیکھنے کا تہیّہ کیا ہوا تھا جس پر چاندی کا ورق چڑھا ہوا ہو، مگر پھر سی سی ٹی وی پراسے باوا جان کے بوٹ کی نوک نظر آ گئی، تو حالات کی سنگینی کا احساس ہوا۔ اور پھر روتے روتے ڈوب گئی آواز قتیل شفائی کی۔
'
یوں تو حق ملکیّت کی یہ داستان بہت پرانی ہے۔ یادش بخیر، کلیسا مرحوم نے بھی ایک زمانے میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ کہ زمین اس کی ، اور صرف اس کی ہے۔ اور وہ کسی گیلیلیو شیلیلیو کو یہ اجازت دینے کو تیّار نہیں کہ وہ اس کی زمین کو سورج کے گرد گھمائے۔ الحمد للہ بھائی بندی نباہتے ہوئے آج بھی ہمارے کچھ بھائی بند وں نے گلیلیو پر دفعہ 144 لگائی ہوئی ہے۔ بات دور تک چلی جائے گی لیکن ہمارے راجپوتوں نے تو سورج اور چاند کی بھی انتہائی صلح کل تقسیم کرتے ہوئے خود کو سورج بنسی اور چندر بنسی میں بانٹ لیا تھا۔ اور اسپین کے بادشاہ نے بھی ایک زمانے میں زمین کو اپنے اور غیروں کے درمیان آدھا آدھا بانٹ کر لاجواب انصاف کیا تھا۔
اس پر ہمیں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ دو سال پہلے کی بات ہے ہم کراچی سے اسلام آباد آ رہے تھے۔ صبح کی فلائٹ تھی۔ چھوٹے بھائی کو دفتر بھی جانا تھا تو ہم ان کے ساتھ گھر سے نکلے، انہوں نے ہمیں ایر پورٹ پر چھوڑا ، اور خود دفتر چلے گئے۔ ہمارے پاس ایک چھوٹا سا سوٹ کیس ٹائپ بیگ تھا اور ایک لیپ ٹاپ۔اس وقت تک مسافر زیادہ تعداد میں نہیں آئے تھے۔ ہم نے اپنی دونوں چیزیں اسکینر بیلٹ پر رکھیں، خود میٹل ڈیٹیکٹر ڈور سے گزر کہ جامہ تلاشی کروا کر اسکینر پر پہنچے تو ہمارا لیپ ٹاپ اور بیگ پہلے سے وہاں پڑے ہوئے تھے۔ دونوں کو اٹھا کر خراماں خراماں پی آئی اے ایر لائن کے کاؤنٹر پر پہنچے اور بورڈنگ کارڈ لینے کے لیے اپنا ٹکٹ اپنی منتظر نیک پروین کو تھما دیا۔ ساتھ ہی اپنا بیگ بھی لگیج بیلٹ پر رکھ دیا۔ اس بی بی نے جلد جلد اپنا کام کیا اور وزن دیکھ کر بیگ کو آگے روانہ کر دیا۔ اور پھر ہمارا بورڈنگ کارڈ چھاپنے لگی۔
بیگ نظروں سے اوجھل ہوا ہی چاہتا تھا کہ ہمیں احساس ہوا یہ بیگ ہمارا نہیں ہے۔ بیگ شکل و صورت، جسامت اور رنگ و نسل میں ویسا ہی تھا، بس اس پر ایک ربن اجنبی سا تھا۔ اس سے پہلے کہ ہم کچھ سوچ پاتے بیگ چلا گیا۔ ہم سوچتے ہی رہ گئے کہ معاملہ کیا ہے۔ بہرحال ہم اس نتیجے پر پہونچے کہ شاید بھائی کی گاڑی میں ہمارے جیسا ہی کسی اور کا بیگ تھا جو غلطی سے ہمارے ساتھ آ گیا ہے۔ اب اگر ہم بھائی کو واپس بلاتے تو اس کے لیے بہت جھنجھٹ کرنے پڑتے۔ سامان واپس منگوانا، بورڈنگ کارڈ واپس دینا، بھائی کو ایئر پورٹ بلوانا، باہر جا کر بیگ تبدیل کرنا اور پھر دوبارہ بورڈنگ کارڈ لینا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس بات کا بھی امکان تھا کہ فلائٹ ہی نکل جاتی۔ سو یہی سوچا کہ ساتھ آنے دیتے ہیں۔ گھر پہنچ کر ٹی سی ایس سے واپس بھیج دیں گے۔
بس پھر بورڈنگ کارڈ پکڑ کر ڈگ بھرتے ہوئے لاونج میں جا بیٹھے اور وقت ضائع کرنے کے مجرّب نسخے آزماتے رہے۔ پندرہ منٹ گزرے ہوں گے کہ پی آئی اے اسٹاف کی وردی پہنے دو صاحبان ہمارے سر پر آن کھڑے ہوئے ،اور ان کے پیچھے پیچھے ایک نرم و نازک سی پی آئی اے کی ایئر ہوسٹس ۔ ایک صاحب نے ہمارا وہ بیگ اٹھایا ہوا تھا جو واقعی ہمارا تھا، جبکہ دوسرے صاحب نے سینیئر ہونے کی رعایت سے درشت انداز میں ہم سے پوچھا کہ یہ بیگ آپ کا ہے؟ ہم نے کہا "بیگ ہمارا ہے"، تو اتنے ہی درشت انداز میں بولے آپ نے اپنا بیگ چھوڑ کر ان خاتون کا بیگ کیوں اٹھا لیا۔
اس پر ہم نے اپنا بوجھ نشست سے ٹانگوں پر منتقل کیا اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ،آپ مجھے پولیس کے حوالے کر دیجیے اس جرم میں، پھر میں جانوں اور پولیس جانے۔ اس پر دوسرے صاحب نے مداخلتِ بجا کرتے ہوئے ہم کو سراسرقصوروار ٹھہرانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی خاطر کچھ کہا۔ اتنی دیر میں معاملہ ہماری سمجھ میں آ چکا تھا۔ آخر ہم اتنے ذہین اور تجربہ کار بھی تو ہیں۔ ہم نے کہا آپ کے ساتھ یہ جو معصوم سی نظر آتی خاتون ہیں، انہوں نے اوور اسمارٹ بنتے ہوئے ہمارا بیگ دھکیل کر پیچھے کیا اور اپنا بیگ آگے رکھ دیا۔ کیوں ایسا ہی کیا تھا نا آپ نے؟
شرلاک ہومز سے ملاقات ہونے پر وہ خاتون کچھ پشیمان اور کچھ حیران سی ہوئی اور جھینپے جھینپے انداز میں اس نے سر ہلا کر اقرار کیا۔ اب وہ دو حضرات بھیگے بلّے بن گئے۔ آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے۔ چھوٹے نے کہا کہ ان کی ڈیوٹی اسلام آباد جانے والی فلائٹ پر لگا دی جائے۔ ہماری بانچھیں کھل گئیں۔ بڑےنے اس تجویز کو حقارت سے مسترد کر دیا۔ ہماری بانچھیں کمھلا گئیں۔ پھر کیا ہوا، اس سے ہم ہمیشہ لاعلم ہی رہیں گے، اور آپ بھی۔ بس اتنا جانتے ہیں کہ انہوں نے ہمارا بیگ ہم کو ہینڈ بیگیج کے طور پر تھما دیا، اور ہم سے اس خاتون کے بیگیج کا ٹوکن لے کر چل دیے۔
ان دونوں میں لاگ بھی ہے اور لگاؤ بھی۔ جو چیز مریم کے ہاتھ میں ہو گی وہ فی الفور ماہ نور کو درکار ہو گی۔ اور مریم کا فلسفہ یہ ہے کہ جو چیز میرے لیے آتی ہے وہ صرف میری ہوتی ہے، کیونکہ ماہ نور دور حاضر کی پیداوار ہے، اور اس کی آمد سے پہلے سے یہ اصول چلا آ رہا ہے۔ لیکن جو چیز ماہ نور کے لیے آتی ہے اس پر دونوں کا حق ہوتا ہے، کیونکہ ہم دونوں بہنیں ہیں۔ اور چونکہ میں بڑی ہوں اس لیے یہ فیصلہ میں ہی کروں گی کہ کب اسے میں اپنے پاس رکھوں گی اور کب ماہ نور کے لیے چھوڑوں گی۔
'
ہمارے وطن عزیز میں بھی اوپر تلے کے دو بھائی ہیں۔ ایک مفتی ہے اور ایک چودھری۔ ان دونوں کی عمروں کا تناسب بھی تقریباً وہی ہے جو مریم اور ماہ نور کی عمروں کا ہے۔ویسے تو ان دونوں کے اور بھی بہت سے بہن بھائی ہیں مگر لاگ اور لگاؤ ان دو کے درمیان ہی کچھ زیادہ ہے۔ مفتی چپ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چاند سو رہا ہے۔ جبکہ چودھری سونے کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی نخریلا ہے۔ کہتا ہے جب تک میں پیشگوئی نہ کر لوں مجھے نیند نہیں آتی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ادھر چھوٹا بھائی پیشگوئی کر کے سونے لیٹا اور ادھر بڑا بھائی گرجتے دھاڑتے پہنچ گیا کہ چاند میرا ہے، تم پیشگوئی کرنے والے کون ؟
اب میں لاکھ اس کو سمجھاؤں کہ بھائی وہ پیشگوئی کرتا ہے تو کرنے دو، چاند ہمیشہ سے تمہارا ہے اور تمہارا ہی رہے گا۔ چاند دیکھنا تمہارا حق بھی ہے اور فرض بھی، اور ہمیشہ رہے گا۔ کوئی مائی کا لال تم کو چاند دیکھنے اور پھر سب کو بتانے سے نہیں روک سکتا۔ تم سارا سال چاند دیکھو، دن رات چاند دیکھو، اماوس کی راتوں میں بھی چاند دیکھو اور چاہو تو مفت کے نیٹ پر ایک لائیو چینل بنا کرمستقل اعلانات کرتے رہو ۔ مگر وہ تو جب تک چیخ چیخ کر آسمان سر پر نہ اٹھالے اور ساری قوم کو بیدار نہ کردے، کوئی بات سننے کو ہی تیار نہیں ہوتا۔ اور اگر اتّفاق سے چھوٹے بھائی کی پیشگوئی درست نکلے تو نماز روزوں کا حساب مانگنے لگتا ہے۔ یعنی جیسے چھوٹے بھائی نے اس کے حق پر ڈاکہ ڈالا، یہ منکر نکیر کے حق پر ڈاکہ ڈالنے لگتا ہے۔
چھوٹے بھائی کا خیال ہے کہ اس کے پیشگوئی کرنے سے کسی کا کوئی نقصان نہیں ہو سکتا، ہاں البتّہ عوام کو یہ فائدہ ضرور ہو سکتا ہے کہ وہ ایک عرصہ پہلے شادی ہال بک کرالیں، سفر کے ٹکٹ بک کروالیں، سنیما کے ٹکٹ لے لیں ، چھٹیّوں کی درخواستیں دے دیں،اور حکومت کو یہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک سال پہلے سے کسی چاند مشروط تہوار کی پلاننگ کر لے۔ ساتھ ہی مٹھائی بنانے والوں کا بھی بھلا ہو سکتا ہے ، اگرانہیں پہلے سے معلوم ہوجائے کہ کب مٹھائی بنانی ہے اور کب نہیں۔ دودھ والوں کو بھی پتا چل جائے کہ پانی کب ملانا ہے اور قصائی بھی اسی اعتبار سے تیّاری کرلیں۔ سب سے زیادہ فائدہ تو درزیوں کا ہو سکتا ہے۔ لیکن بڑے بھائی کا خیال مریم کے فلسفے کے مطابق ہے کہ وہ ڈیڑھ ہزار سال سے چاند کا مالک چلا آ رہا ہے اس لیے وہ کسی نئے آنے والے کو نہ صرف یہ کہ ملکیت میں شریک نہیں کرے گا، بلکہ کسی کو اپنے چاند پر اچھی یا بری نظر بھی نہیں ڈالنے دے گا، اور نہ کسی کو اس کا نام ہی لینے کی اجازت دے گا۔ ساتھ ہی نئے آنے والے کی ملکیت سائنس کو تو جوتے کی نوک پر رکھے گا، مگر اس کے ٹیکنیکل ثمرات ببانگِ دہل، یعنی لاؤڈ اسپیکر پر نہ صرف یہ کہ سمیٹے گا، بلکہ ملکیت میں بھی شریک ہوگا۔
اب اگر انتخابی شیر اور بکری کا معاملہ ہوتا تو ہم ان دونوں کو شاید ایک گھاٹ پر لائیو پانی پینے پر آمادہ کر لیتے مگر یہاں تو بات ہاتھی اور چیتے کی ہے۔ چیتے اور ہاتھی کے ایک ساتھ ایک گھاٹ پر پانی پینے کا معاملہ تو بہت دور کی بات ہے، چیتا ہاتھی کو گھاٹ کے قریب بھی آنے دینے کو تیار نہیں ہے۔ کیونکہ اسے ڈر ہے کہ ہاتھی ایک بار گھاٹ پر پہنچ گیا تو گھاٹ کا پانی گھٹا گھٹا کر ، گھاٹ کو چیتے کا مرگھٹ بنا دے گا۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ کہنے والے تو یہ کہتے ہیں کہ بڑے بھائی نے تو چاند ایسی عینک سے دیکھنے کا تہیّہ کیا ہوا تھا جس پر چاندی کا ورق چڑھا ہوا ہو، مگر پھر سی سی ٹی وی پراسے باوا جان کے بوٹ کی نوک نظر آ گئی، تو حالات کی سنگینی کا احساس ہوا۔ اور پھر روتے روتے ڈوب گئی آواز قتیل شفائی کی۔
'
یوں تو حق ملکیّت کی یہ داستان بہت پرانی ہے۔ یادش بخیر، کلیسا مرحوم نے بھی ایک زمانے میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ کہ زمین اس کی ، اور صرف اس کی ہے۔ اور وہ کسی گیلیلیو شیلیلیو کو یہ اجازت دینے کو تیّار نہیں کہ وہ اس کی زمین کو سورج کے گرد گھمائے۔ الحمد للہ بھائی بندی نباہتے ہوئے آج بھی ہمارے کچھ بھائی بند وں نے گلیلیو پر دفعہ 144 لگائی ہوئی ہے۔ بات دور تک چلی جائے گی لیکن ہمارے راجپوتوں نے تو سورج اور چاند کی بھی انتہائی صلح کل تقسیم کرتے ہوئے خود کو سورج بنسی اور چندر بنسی میں بانٹ لیا تھا۔ اور اسپین کے بادشاہ نے بھی ایک زمانے میں زمین کو اپنے اور غیروں کے درمیان آدھا آدھا بانٹ کر لاجواب انصاف کیا تھا۔
اس پر ہمیں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ دو سال پہلے کی بات ہے ہم کراچی سے اسلام آباد آ رہے تھے۔ صبح کی فلائٹ تھی۔ چھوٹے بھائی کو دفتر بھی جانا تھا تو ہم ان کے ساتھ گھر سے نکلے، انہوں نے ہمیں ایر پورٹ پر چھوڑا ، اور خود دفتر چلے گئے۔ ہمارے پاس ایک چھوٹا سا سوٹ کیس ٹائپ بیگ تھا اور ایک لیپ ٹاپ۔اس وقت تک مسافر زیادہ تعداد میں نہیں آئے تھے۔ ہم نے اپنی دونوں چیزیں اسکینر بیلٹ پر رکھیں، خود میٹل ڈیٹیکٹر ڈور سے گزر کہ جامہ تلاشی کروا کر اسکینر پر پہنچے تو ہمارا لیپ ٹاپ اور بیگ پہلے سے وہاں پڑے ہوئے تھے۔ دونوں کو اٹھا کر خراماں خراماں پی آئی اے ایر لائن کے کاؤنٹر پر پہنچے اور بورڈنگ کارڈ لینے کے لیے اپنا ٹکٹ اپنی منتظر نیک پروین کو تھما دیا۔ ساتھ ہی اپنا بیگ بھی لگیج بیلٹ پر رکھ دیا۔ اس بی بی نے جلد جلد اپنا کام کیا اور وزن دیکھ کر بیگ کو آگے روانہ کر دیا۔ اور پھر ہمارا بورڈنگ کارڈ چھاپنے لگی۔
بیگ نظروں سے اوجھل ہوا ہی چاہتا تھا کہ ہمیں احساس ہوا یہ بیگ ہمارا نہیں ہے۔ بیگ شکل و صورت، جسامت اور رنگ و نسل میں ویسا ہی تھا، بس اس پر ایک ربن اجنبی سا تھا۔ اس سے پہلے کہ ہم کچھ سوچ پاتے بیگ چلا گیا۔ ہم سوچتے ہی رہ گئے کہ معاملہ کیا ہے۔ بہرحال ہم اس نتیجے پر پہونچے کہ شاید بھائی کی گاڑی میں ہمارے جیسا ہی کسی اور کا بیگ تھا جو غلطی سے ہمارے ساتھ آ گیا ہے۔ اب اگر ہم بھائی کو واپس بلاتے تو اس کے لیے بہت جھنجھٹ کرنے پڑتے۔ سامان واپس منگوانا، بورڈنگ کارڈ واپس دینا، بھائی کو ایئر پورٹ بلوانا، باہر جا کر بیگ تبدیل کرنا اور پھر دوبارہ بورڈنگ کارڈ لینا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس بات کا بھی امکان تھا کہ فلائٹ ہی نکل جاتی۔ سو یہی سوچا کہ ساتھ آنے دیتے ہیں۔ گھر پہنچ کر ٹی سی ایس سے واپس بھیج دیں گے۔
بس پھر بورڈنگ کارڈ پکڑ کر ڈگ بھرتے ہوئے لاونج میں جا بیٹھے اور وقت ضائع کرنے کے مجرّب نسخے آزماتے رہے۔ پندرہ منٹ گزرے ہوں گے کہ پی آئی اے اسٹاف کی وردی پہنے دو صاحبان ہمارے سر پر آن کھڑے ہوئے ،اور ان کے پیچھے پیچھے ایک نرم و نازک سی پی آئی اے کی ایئر ہوسٹس ۔ ایک صاحب نے ہمارا وہ بیگ اٹھایا ہوا تھا جو واقعی ہمارا تھا، جبکہ دوسرے صاحب نے سینیئر ہونے کی رعایت سے درشت انداز میں ہم سے پوچھا کہ یہ بیگ آپ کا ہے؟ ہم نے کہا "بیگ ہمارا ہے"، تو اتنے ہی درشت انداز میں بولے آپ نے اپنا بیگ چھوڑ کر ان خاتون کا بیگ کیوں اٹھا لیا۔
اس پر ہم نے اپنا بوجھ نشست سے ٹانگوں پر منتقل کیا اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ،آپ مجھے پولیس کے حوالے کر دیجیے اس جرم میں، پھر میں جانوں اور پولیس جانے۔ اس پر دوسرے صاحب نے مداخلتِ بجا کرتے ہوئے ہم کو سراسرقصوروار ٹھہرانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی خاطر کچھ کہا۔ اتنی دیر میں معاملہ ہماری سمجھ میں آ چکا تھا۔ آخر ہم اتنے ذہین اور تجربہ کار بھی تو ہیں۔ ہم نے کہا آپ کے ساتھ یہ جو معصوم سی نظر آتی خاتون ہیں، انہوں نے اوور اسمارٹ بنتے ہوئے ہمارا بیگ دھکیل کر پیچھے کیا اور اپنا بیگ آگے رکھ دیا۔ کیوں ایسا ہی کیا تھا نا آپ نے؟
شرلاک ہومز سے ملاقات ہونے پر وہ خاتون کچھ پشیمان اور کچھ حیران سی ہوئی اور جھینپے جھینپے انداز میں اس نے سر ہلا کر اقرار کیا۔ اب وہ دو حضرات بھیگے بلّے بن گئے۔ آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے۔ چھوٹے نے کہا کہ ان کی ڈیوٹی اسلام آباد جانے والی فلائٹ پر لگا دی جائے۔ ہماری بانچھیں کھل گئیں۔ بڑےنے اس تجویز کو حقارت سے مسترد کر دیا۔ ہماری بانچھیں کمھلا گئیں۔ پھر کیا ہوا، اس سے ہم ہمیشہ لاعلم ہی رہیں گے، اور آپ بھی۔ بس اتنا جانتے ہیں کہ انہوں نے ہمارا بیگ ہم کو ہینڈ بیگیج کے طور پر تھما دیا، اور ہم سے اس خاتون کے بیگیج کا ٹوکن لے کر چل دیے۔
٭٭٭٭٭٭واپس جائیں٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں