Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 25 ستمبر، 2013

کتاب اللہ اور تصور ملکیت ۔ حصہ 2




        ٭-جھوٹے مقدمہ میں موکل کی پیروی کرنا  :
قانون کی نظر میں جھوٹا مقدمہ وہ ہوتا ہے ۔کہ جس میں مدعی کے پاس کوئی ثبوت  نہ ہوں  یا  مدعی  جھوٹے ثبوت کے باعث مقدمے کو اپنے حق میں کروانا چاہتا ہو۔ مروج قانون کے مطابق اگر مدعی کی طرف سے پیش کی گئی جھوٹی شہادتوں کے باعث ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو جج کے پاس کسی قسم کا  صوابدیدی  اختیار(Discretionary Power)  نہیں ہوتا  کہ وہ جھوٹی شہادتوں کو قبول نہ کرے۔ کیونکہ جج کے فیصلے کا مکمل دارومدار شہادتوں پر ہوتا ہے ۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ لالچی ہے اور اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کے مال کو کسی نہ کسی طرح ہڑپ کر جائے خواہ یہ بذریعہ چوری ہو یا سینہ زوری ہو ۔ جو  نہ صرف انسانی معاشرے میں قابل مذمت و سزا جرم سمجھا جاتا ہے  بلکہ اللہ تعالیٰ نے  ایک مومن کونہ صرف  اس گناہ سے بچانے کے لئے بلکہ دوسرے گناہوں سے بھی بچانے کے لئے اپنی کتاب میں اس کے لئے مثالیں بیاں کر دی ہیں۔
وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہَذَا الْقُرْآنِ مِن کُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ (39/27) 

  اور ہم نے اس القرآن میں ہر قسم کی مثالیں بیان کر دی ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں  ۔
 جھوٹے مقدمہ میں موکل کی پیروی کرنے کے بارے میں کتاب اللہ میں، اللہ  علیم و خبیر نے کیا مثالیں دی ہیں دیکھتے ہیں۔ جھوٹے مقدمے کے تین حصے ہوتے ہیں ۔
٭۔     جھوٹا مقدمہ ۔
٭۔     جھوٹے گواہ ۔
٭۔      جج کا فیصلہ ۔

٭- جھوٹا مقدمہ ۔

 وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُم بَیْنَکُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُواْ فَرِیْقاً مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (2:188)
  

اور آپس میں ایک دوسرے کے اموال باطل (طریقے)کے ساتھ مت کھاؤ۔اور تم کھینچ کر لے جاؤ(الناس کو) اس (باطل طریقے) کے ساتھ احکام کی طرف(جھوٹے مقدمے میں)  تاکہ تم لوگوں کے اموال میں سے ایک فریق (حصہ) گناہ کے ساتھ کھاؤ۔ اور تمہیں اس کا علم ہو۔ 
٭۔ جھوٹے مقدمے کے گواہ۔

انسانی  قانون  شہادت  کا  یہ  اصول  ہے۔  گواہان  جب  بھی  گواہی  دینے  کے  لیئے  بلائے  جائیں  تو نہ تو جھوٹی  گواہی دیں اورنہ ہی  وہ  پیچھے  (ڈر  یا  خوف  یا  لالچ  یا  رشتہ  داری  کے  باعث)  نہ  ہٹیں  ورنہ  وہ  شہادت  نہ  دینے  یا  چھپانے  کے  مجرم  قرار  پائے  جائیں  گے اور یہ  اصول  بلا تخصیص  مسلم  یا  غیر  مسلم  معاشرے  میں  لاگو  ہے۔  غیر  مسلم  معاشرے  میں  اسے  معاشرتی   اخلاقیات  کہتے  ہیں۔  جبکہ  مسلمان  کے  لئے  یہ  اللہ کا  حکم  ہے اور کتاب  اللہ میں  درج  ہے۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاء  لِلّٰہِ وَلَوْ عَلَی أَنفُسِکُمْ أَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالأَقْرَبِیْنَ إِن یَکُنْ غَنِیّاً أَوْ فَقَیْراً فَاللّٰہُ أَوْلَی بِہِمَا فَلاَ تَتَّبِعُواْ الْہَوَی أَن تَعْدِلُواْ وَإِن تَلْوُواْ أَوْ تُعْرِضُواْ فَإِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْراً(4:135)
 

اے ایمان لانے والو! اللہ کے لئے قسط (انصاف)کے ساتھ ہے شھداء ہوتے ہوئے قوامین ہو جاؤ! خواہ یہ تمھارے نفس، یا والدین اور الاقربین کے اوپر کیوں نہ ہو۔ کوئی غنی ہو یا فقیر ، پس اللہ اُن دونوں کے ساتھ اُولیٰ (اوّل)ہے۔عدل کرتے ہوئے  خواہشات (Discretionary Thoughts) کی اتباع مت کرو! اگر تم خرابی (Distort)کرو گے یا تم اعراض (Decline) کرو گے۔ تو بے شک اللہ کوتمھارے اعمال کی خبر ہے۔  O

  گواہی کے لئے سخت اور واضح اصول ہیں۔ ہو بہو یہی اصول غیر مسلم معاشرے میں بھی پائے جاتے ہیں۔ سوائے اس فرق کہ وہ اللہ کے ڈر سے قانون شہادت پر عمل نہیں کرتے۔ بلکہ ان کے مدنظر صرف اور صرف ضمیر ہے۔ ضمیر ایک قابل تغیر چیز ہے اس کے تغیرات میں ڈر، خوف، لالچ، رشتہ  داری، نسلی تفاخر اور خونی رشتے شامل ہیں۔اور سچ صرف اپنی قوم کے لوگوں کے لئے بولتے ہیں دوسری قوم کے لئے وہ نہایت مکار اور دھوکے باز ہوتے ہیں ۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک مومن بھی اپنے مسلمان بھائی کوجھوٹا حق دلانے کے لئے  دشمن  قوم کے خلاف جھوٹی شھادت دے سکتا ہے؟
 
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَاء  بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ  (5:8)
  

      اے وہ  لوگو جو ایمان لائے: تم اللہ  کے لئے عدل سے شہادت  (گواہی) دینے والے بنو۔ اور تمہیں قوم کی دشمنی اس جرم  سے آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل  کرو::  وہ  تقوی  کے  قریب  ہے۔  اور  اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک  اللہ  اس  بات  سے خبردار ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
٭- جج کا فیصلہ :     مروج قانون کے مطابق اگر مدعی کی طرف سے پیش کی گئی جھوٹی شہادتوں کے باعث ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو جج کے پاس کسی قسم کا  صوابدیدی  اختیار(Discreationary Power)  نہیں ہوتا کہ وہ جھوٹی شہادتوں کو قبول نہ کرے۔ کیونکہ جج کے فیصلے کا مکمل دارومدار شہادتوں پر ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگر جج بک جائے، خوف کے باعث یا کسی وقتی مصلحت کے باعث گواہیوں کے متضاد فیصلہ دیتا ہے  تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے اس اعتماد کو دھوکہ دیا جو مدعی نے اس پر کیا ۔ اور یہ اللہ کے نزدیک قابل گرفت ہے۔
وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَغُلَّ وَمَن یَغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ تُوَفَّی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَ(3:161)
 

ایک نبی کے لئے ممکن نہیں کہ وہ(اعتماد کو) دھوکہ دے۔ اور اگر کوئی شخص دھوکہ دیتا ہے، تو وہ یوم القیامۃ جس کا اس نے دھوکا دیا۔اس  (شئے) کے ساتھ آئے گا۔ پھر ہر نفس بدلہ دیا جائے گا جو اس نے کمایا  اور اس پر ظلم نہیں ہو گا۔
 
 وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہِ نَفْسُہُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (50:16) 

 اور حقیقت میں ہم نے انسان کو خلق کیا اور ہم علم رکھتے ہیں جواس کے ساتھ اس کے نفس میں وسوسہ کرتا ہے۔ اور ہم حبل الورید میں سے اس کی طرف اقرب ہیں ۔
 
إِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیَانِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ
(50:17) 
 جب القا کرتے ہیں،دو القا کرنے والے دائیں اور بائیں سے بیٹھے ہوئے۔
مَا یَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ
(50:18)  
کوئی لفظ قول نہیں بنتا مگر اس کے پاس رقیب(نگران) موجود ہوتا ہے۔ 
٭۔مال خرچ کرتے وقت کِن امور کا خیال رکھنا ضروری ہے ؟
لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّی تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَیْء ٍ فَإِنَّ اللّٰہَ بِہِ عَلِیْمٌ (3:92)  
 تم بھلائی کو نہیں پاسکتے حتیٰ کہ تم اس میں سے انفاق کرو جس سے تم ”محبت“ کرتے ہو۔ اور تم جس شئے میں سے انفاق کرو گے بے شک اللہ اس کے ساتھ علیم ہے۔
 

 زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاء  وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِکَ مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ عِندَہُ حُسْنُ الْمَآبِ
(3:14)
 لوگوں کے لئے مزین کیں ”محبت“ کی خواہش: عورتوں، بیٹوں، الذھب اور الفضہ کے ڈھیر کے ڈھیر، نشان زدہ اصیل گھوڑے، مویشی اور کھیتی میں سے۔ یہ متاعِ حیات الدنیا ہے۔ اور اللہ، اس کے نزدیک حسن المئاب ہے۔
٭- اللہ نے جو نیکی ہمیں بتائی وہ کیا ہے ؟ 
 

  لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ
 نیکی یہ نہیں کے تم اپنے چہرے المشرق یا المغرب کی قبل(سامنے) پھیرو  بلکہ نیکی تو یہ ہے:
مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ
1- جو اللہ کے ساتھ اور یوم الاخر اور ملائیکۃ اور”الکتاب“ اور نبیوں پر ایمان لایا۔
وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ
 2-   اورایتائے مال کیا اپنے محبت کرنے والوں پر،ذوی القربیٰ، اور یتامیٰ اورمساکین، ابن السبیل، اور سائلین اورجو الرقاب(مصیبت) میں ہیں۔
وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ
 3-    اور(جتنی بار) اقام الصلوٰۃ اور (اتنی  ہی بار) ایتائے الزکوٰۃ کی۔
وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ
 4-    اور اپنے عہد کے ساتھ وفا کرنے والے جب عہد کرتے ہیں۔
وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ
 5- اور مصیت اور ضرر میں اور تنگی کے درمیان صبر کرتے ہیں۔
أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا  وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (2:177)
 یہ وہ لوگ ہیں جو صدیق ہیں اوریہ لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔
ہم نے لوگوں کو صدیق اور متقی سمجھنے کے اپنی میعار بنائے ہیں اور جو میعار اللہ نے بنایا ہے اسے ہم پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔ کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ کے مقابلے میں ہم زیادہ میعار بنا سکتے ہیں ۔

٭- مال خرچ کرو ، اُس یوم سے پہلے جب کھاتہ بند ہوجائے : 
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِنَّ کَثِیْراً مِّنَ الأَحْبَارِ وَالرُّہْبَانِ لَیَأْکُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّونَ عَن سَبِیْلِ اللّہِ۔۔۔(9:34)
 اے ایمان والو! بے شک الاحبار(Doctors of Law)اور رہبان میں سے اکثر سبیل اللہ سے روکتے ہیں تاکہ وہ الناس کے اموال باطل کے ساتھ کھائیں۔
۔۔۔۔۔ وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلاَ یُنفِقُونَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ فَبَشِّرْہُم بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ
(9:34)  
اور وہ لوگ جو الذھب اور الفضہ کا ذخیرہ کرتے ہیں اور انہیں فی سبیل اللہ انفاق نہیں کرتے، پس انہیں عذاب الیم کے ساتھ بشارت  دو۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاکُم مِّن قَبْلِ أَن یَأْتِیَ یَوْمٌ لاَّ بَیْعٌ فِیْہِ وَلاَ خُلَّۃٌ وَلاَ شَفَاعَۃٌ وَالْکَافِرُونَ ہُمُ الظَّالِمُونَ (2:254)

  اے لوگو جو ایمان لائے! انفاق کرو اس رزق میں سے جو ہم نے تمھیں دیا اس دن کے آنے سے قبل جس دن نہ کوئی بیع(سودا) اور نہ کوئی سفارش اور نہ کوئی شفاعت ہو گی۔ اور کافر وہ ظالموں میں سے ہیں۔
اس دن  کے آنے سے پہلے،  جمع کیا ہوا مال کن افراد پر خرچ کرنا ہے ۔ اس کا میعار بھی اللہ نے بتا دیا ہے :

فَآتِ ذَا الْقُرْبَی حَقَّہُ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ ذَلِکَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُونَ وَجْہَ
اللَّہِ وَأُولَـٰئِكَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ (30:38

 پس ذی القربیٰ اور مساکین اور ابن السبیل کو اس کا ”حق“ دے دو یہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔
٭- اسراف یا کنجوسی کی ممانعت :
 يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿٣١
اے بنی آدم! ہر مسجد کے نزدیک اپنی زینت لو اور کھاؤ اور پیو مگر اسراف مت کرو بے شک وہ (اللہ) مسرفین سے محبت نہیں کرتا۔
إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَاللَّہُ عِندَہُ أَجْرٌ عَظِیْمٌ (
64:15) 
بے شک تمھارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں اور اللہ کے نزدیک اجر عظیم ہےO
فَاتَّقُوا اللَّہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِیْعُوا وَأَنفِقُوا خَیْراً لِاّئَنفُسِکُمْ وَمَن
یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُولَـٰئِكَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ
(64:16) 
 پس اللہ سے ڈرو جتنا ہو سکے اور سنو اور اطاعت کرو اور اور اپنے نفسوں کے لئے خیر انفاق کرو اور جو کوئی بچ گیا نفس کی بخیلی سے۔ پس وہی فلاح پانے والے ہیں۔

وَہُوَ الَّذِیْ أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَیْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفاً أُکُلُہُ وَالزَّیْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِہاً وَغَیْرَ مُتَشَابِہٍ کُلُواْ مِن ثَمَرِہِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُواْ حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ
(6:141 

اور وہ ہے جس نے جنات معروشات اور غیر معروشات انشاء کیں۔ اور نخل اور مختلف زرعی(اشیا) تم انہیں کھاتے ہو۔ اور زیتون اور انار متشابہ اور غیر متشابہ، کھاؤ پھلوں میں سے اور جب وہ پھل دیں توان کے اتارنے کے دن اس(اللہ) کا حق ایتاء کرو، اور اسراف مت کرو بے شک اللہ مسرفین سے محبت نہیں کرتا۔
٭- فضول طریقوں سے دولت مت لُٹاؤ: 
وَآتِ ذَا الْقُرْبَی حَقَّہُ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْراً (17:26
 اور ایتاء کرو ان ذی القربیٰ، اور مساکین اور ابن السبیل کا ”حق“ اور بذیر (لٹانے کے انداز میں) فضول خرچی(بذر) مت کرو O
إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُواْ إِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِرَبِّہِ کَفُوراً (
17:27)  
بے شک مبذرین الشیطان کے اخوان ہیں اور الشیطان اپنے رب کا احسان مندنہ ہوا۔
٭۔ ہمیشہ  اعتدال پر رہو :  
وَالَّذِیْنَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ یُسْرِفُوا وَلَمْ یَقْتُرُوا وَکَانَ بَیْنَ ذَلِکَ قَوَاماً (25:67)  

اور وہ لوگ جب انفاق کرتے ہیں تو وہ اسراف نہیں کرتے اور نہ کنجوسی کرتے ہیں اور وہ اس کے بین قائم رہتے ہیں۔
٭- آپ میں مالداروں ہی کے درمیان  دولت نہ بانٹو :
مَّا أَفَاء  اللَّہُ عَلَی رَسُولِہِ مِنْ أَہْلِ الْقُرَی 

جو اللہ نے اہل القریٰ میں سے اپنے رسول کے اوپر افاء کیا  وہ:
 فَلِلَّہِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِیْ الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ کَیْ لَا یَکُونَ دُولَۃً بَیْنَ الْأَغْنِیَاء  مِنکُمْ
    

(افاء اللہ) اللہ کے لئے اور  رسول کے لئے اور ذی القربیٰ  اور یتامی اورمساکین اور ابن السبیل کے لئے۔ تاکہ دولت تم میں سے اغنیاء کے درمیان نہ رہے
۔  وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا      
اور الرسول تمھیں (افاء اللہ میں سے) جو ایتاء کرے وہ لو اور جس سے منع کرے پس اس سے منع ہو۔
وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (
59:7)-O   
اور اللہ سے تقی رہو -  شک اللہ شدید العقاب ہے۔
٭





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔