حال میں نیٹ پر ریلیز ہونے والی یہ وڈیو ضرور دیکھئے تو آپ کو یقین آجائے گا ۔ کہ 1980 سے کی گئی انویسٹمنٹ کا صلہ امریکیوں کو لازماً چاھئیے ۔
یہ مضمون مارچ 2012 میں لکھا گیا تھا ۔
ایک فورم میں ”امریکہ اور ہمارا مستقبل“ کے تحت ہونے والی بحث میں جو میرا نقظہء نظر تھا، اُس کے مطابق آئیندہ ہمارے ملک اور اُس سے ملحقہ ملکوں میں جن تبدیلیو ں کے متعلق امریکی پچھلے ساٹھ سالوں غور کر رہے ہیں۔ اُن کے خد وخال اب واضح ہونے لگے ہیں۔ جس کا پہلا حصہ 15فروری 1989 کو مکمل ہوا جس وقت دریائے آمو کے پل سے گزرتے ہوئے روسی علاقے میں داخل ہوتے ہوئے روسی جنرل نے مڑ کر حسرت بھری نگاہوں سے افغانستان کی سرزمین کو دیکھا تو پنٹاگون میں معلوم مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ اب امریکہ بلا شرکت، غیرے انسانی دنیا کا حاکم بن چکا تھا۔ کیونکہ اُس کی بچھائی ہوئی بساط پر گھوڑے اور فیل مارے جاچکے تھے، پیادوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں تھا شاہ بھی خوشگوار امریکن مستقبل کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔
1979میں جب میں ایک نیم لفٹین تھا۔ ایک کورس سے واپس آیا تو کمانڈنگ آفیسر نے انٹرویوکے دوران بتایا کہ میں نے اگلے چھ مہینے ٹل اور پارا چنار کے درمیان اڑاولی فورٹ کے نزدیک پاک افغان بارڈر پر ایک آبزرویشن پوسٹ پر گذارنے ہیں۔لہذا مجھے ٹی بریک کے بعد روانہ ہو جانا چاہیئے۔ تقریباً گیارہ بجے ٹل سے اپنی آبزرویشن پوسٹ کی طرف روانہ ہو گیا چار گھنٹے کے سفر کے بعد جب میں گن پوزیشن میں پہنچا تو بیٹری کمانڈر نے خوش آمدید کہا اور بتایا کہ 5بجے پولیٹیکل ایجنٹ پارا چنار نے ایک جرگہ بٹھایا ہے ہم سب افسروں نے وہاں جانا ہے۔ جرگے میں پہنچے وہاں کوئی اندازاً تین سو افراد ہوں گے۔ جن میں مقامی اور افغان مہاجر تھے۔ سردار اور معززین اُن کرسیوں پر بیٹھے تھے جو کرم ملیشیاء نے بچھائی تھیں باقی سب قالینوں یا اپنی چادروں پر براجمان تھے۔ پولیٹیکل ایجنٹ نے جرگے کا مقصد بتایا۔ جو پشتو میں تھا۔ والد مرحوم کے فوج میں ہونے کی وجہ سے میری تعلیم ایبٹ آباد، نوشہرہ، پشاور اور کوئیٹہ میں گذری تھی لہذا پشتو میرے لئے مانوس زبان ہے۔ چنانچہ باقی افسروں کی طرح میں اُن کے ہر الفاظ اچھی طرح سمجھ رہا تھا۔ لیکن جس تقریر نے مجھ میں بجلیا ں پیدا کیں وہ ایک 25سالہ امریکن مسلمان کی تھی جس نے فصیح و بلیغ پشتو میں مسلمان اور جہاد کے بارے مدلل دلائل سے ہم سب کے خون کو گرما دیا اور فضا ء جو شیلے نعروں سے گونج اُٹھی۔ میں اُس امریکن مقرر سے بہت متاثر ہوا اور خود کو کوسا کہ ایک نو مسلم ہم پیدائشی مسلمانوں سے زیادہ جذبہ جہاد اور اسلام کے بارے میں معلومات رکھتا ہے، کھانے کے دوران میں نے اُس سے کئی سوال کئے۔ اُس سے معلوم ہوا کہ اُس کا باپ پٹھان اور ماں امریکن تھی۔ اُس کو پشتو اُس کی دادی نے سکھائی۔وہ سنّی عالم نہیں بلکہ اُس نے یونیورسٹی میں نہ صرف اسلامی علوم کا تفصیلاً مطالعہ کیا تھا بلکہ وہ دیگر مذاہب کے بارے میں بھی بہت معلومات رکھتا تھا، لیکن میں اُس کی پاکستان اور اُس کے لوگوں بارے میں معلومات سے بہت متاثر ہو ا۔ میری زندگی کا یہ پہلا ”لارنس آف عریبیا“تھا۔اِس کے بعد مجھے تین اور لارنس آف عریبیا ملے جن کی رگوں میں مخلوط امریکی خون دوڑ رہا تھا۔افغان وار میں ہم ”لارنس آف عریبین“ سے اسلام سیکھتے رہے۔ پھر امریکی مبلغین نے پاکستان کی مغربی سرحدوں کو دنیا بھر کے جہادیوں سے بھر دیا۔پاکستانی قوم کسی کے پیچھے کیوں رہتی۔ نسیم حجازی کے ناول جو 70کی دہائی میں طفننِ طبع کے لئے پڑھے جاتے اچانک، اسلامی تاریخ اور اسلام پر مصدّقہ دستا ویز بن گئے۔ حسن بن سبّاح اپنے فدائین کے ساتھ دوبارہ تاریخ کی گرد سے نکال کر عالمِ غیب سے عالمِ وجود میں نمودار ہو گیا۔بے روزگار نوجوانانِ مسلم کی ایک فوجِ ظفر موج نے ”ڈالروں کی تلاش میں شہادت کے مزے“ لینے کے لئے کرائے کے گوریلوں کی فوج میں شمولیت اختیار کرنی پڑی۔ امریکیوں نے ساری دنیا کو ڈرانا شروع کیا کہ روسی ریچھ سرد علاقوں سے نکل کر گرم پانیوں میں جاکر غسل کرنا چاہتا ہے۔ جس کے لئے وہ مستی میں دندناتا افغانستان سے پاکستان میں مغربی بلوچستان کو روندتا، کاٹتا اور رگیدتا بذریعہ آر۔سی۔ڈی ہائی وے بحیرہ عرب میں سونمیانی کے پاس نکلے گا، اُس کے بعد جب وہ اپنی ٹانگیں پسارے گا تو شائد نہیں بلکہ حقیقتاً اُس کے پاؤں ایرانی بلوچستان میں قیلولہ فرمائیں گے۔ لہذا یہ تما م دنیا کا فرض عین ہے کہ وہ روسی ریچھ کو روکے۔ امریکی مشورے کو بلوچیوں نے دل پر لگا لیا اور اُن کے سردار اپنے قبیلوں کے ساتھ کابل پہنچ گئے تاکہ روسی ٹینکوں پر بیٹھ کر عظیم بلوچستان میں داخل ہوں۔ مگر امریکیوں نے روسیوں اور بلوچ سرداروں کا یہ خواب پورا نہ ہونے دیا اور وسی دریائے آمو کے پار چلے گئے۔
ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے والے سرداروں کو ملا عمر نے راکٹ لانچروں، کی مدد سے قابو میں کیا، سرداروں کے سر ”دار“ پر لٹکا دئے گئے، امریکہ کی پشت پناہی سے پلنے والے ہیروئین کے سوداگروں زمین میں دفن کر دیا گیا پورا ایک سال ایک گرام ہیروئین افغانستان سے باہر نہ نکلی۔ بلوچی سردار کو پاکستان محافظ قوتوں نے ہیلی کاپٹروں پر وہاں سے نکالا کہ شائد وہ اب عظیم بلوچستان کو بھول کر متحد پاکستان کے شانہ بشانہ چلنے لگیں اور امریکی ابلاغ کئے ہوئے اسلام نے ایک نیا لبادہ اوڑھ لیا۔ جب تما م وارلارڈ امریکی پلاننگ کے مطابق شہادت کا رتبہ پا کر دوسری دنیا کے پار جا پہنچے تو امریکہ کے ڈہین اور فطین لوگوں نے اپنے چند افریقی باشندوں کو امریکن قرار دینے اور دیگر بے وقوف اقوام کے افراد کو امریکی شہریت دینے کے بعد،مروا کر اپنی پلاننگ کا دوسرا ایکٹ شروع کیا۔ ”لارنس آف عریبین“ نے صدام کی طرح ملا عمر کو کہا ”ڈٹ جاؤ۔ ہم بریف کیس میں ایٹم بم لے کر پھرتے ہیں، امریکہ ہم سے لرزتا ہے“، اِ سے پہلے کہ ہم امریکہ کے ایکٹ ٹو کی طرف چلیں ذرا امریکی شہریت اختیار کرنے والوں کی بے بسی ملاحظہ کریں۔
ہم دونوں نے میٹرک تک ساتھ پڑھا ،پھر ہماری ملاقات ، اتفاقاً ایک شادی کی محفل میں ہو گئی۔ عرفان انجنئیرنگ کے بعد امریکہ شفٹ ہو گیا میں پاکستان میں رہا۔ مدت کے بعد ملنے کی وجہ سے پرانی یادیں دہرائیں گئیں دوستوں کے متعلق معلومات کا تبادلہ ہوا، میں نے پوچھا کہ وہ بایر کیوں شفٹ ہوا۔ عرفان بولا،”کسی تھرڈ کلاس ملک میں پہلے درجے کا شہری بن کر رہنے سے بہتر ہے کہ کسی فرسٹ کلاس ملک کا تھرڈ کلاس شہری بن کر رہا جائے“۔ مجھے عجیب سا لگا لیکن کچھ نہ بولا۔ البتہ، اُس کے بعد جب بھی ملاقات ہوتی تو میں مذاقاً اُسے”تھرڈ کلاس شہری“ کہتا۔ بہرحال وقت پر لگا کر اُڑتا رہا 2005میں میں اپنے آفس میں بیٹھا تھا کہ دروازے سے ایک جانا پہچانا ہیولا اندر داخل ہوا۔ جو لمبائی اور چوڑائی میں تقریباً برابر تھا، یہ عرفان تھا ماہ و سال نے اُس کے خد وخال پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ دونوں گرم جوشی سے ملے۔ چائے پیتے ہوئے میں نے مذاقاً کہا،” تھرڈ کلاس شہری“ کھانا کہاں کھانے چلیں۔ اُس نے دکھی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ میرا مذاق اُڑانے کے بجائے اُس نے ایک لمبی سانس لی اور بولا،”اِس تھرڈ کلاس شہری کو جو کھلانا ہے کھلا دو“۔ تفصیل جاننے پر بتایا،”امریکہ کو لاکھوں ڈالر 29سال تک ٹیکس دینے کے باوجود اُس کا سٹیٹس روزگار الاؤنس میں پلنے والے امریکن شہری سے کم ہے۔ کیوں تمام وعدے وعید، قصے کہانیاں ثابت ہوئے، ”ہم رہے پیاسے کے پیاسے لاکھ ساون آ گئے“۔ امریکن آئین کے قسم کھاتے وقت میں بہت پر جوش تھا۔ اُس کے بعد میں نے سوچا ہی نہیں کہ امریکہ میں رہنے کے لئے میں نے اپنے آئین اور اپنی دھرتی کو چھوڑ دیا۔ جب افغان جہاد شروع ہوا تو چندہ دینے والوں میں میں بھی شامل تھا 9/11 کے بعد چندہ دینے والے مجرم بن گئے۔ اُنہوں نے ہم سے ایسے ایسے سوال پوچھے کہ ہم اپنی نگاھوں میں مجرم بن گئے۔ ہم وہاں اب مشکوک لوگ ہیں، وہ جب چاہیں ہمیں یہاں سے اٹھا کر لے جا سکتے ہیں کیونکہ ہم حلفِ وفاداری اُٹھانے کے بعد امریکی شہری بن گئے ہیں۔ امریکی بیوی سے ہونے والے بچوں کے زیادہ حقوق ہیں ہمارے بچوں کے کم اور ہم پاکستان میں پیدا ہونے والے اگر اسلام سے دور ہیں تو اچھے امریکن شہری ہیں“۔ عرفان نے اور بہت باتیں بتائیں ۔
کسی بھی قوم کی طرف ہجرت کرنے والی قوم اپنے ماضی کو بھول جاتی ہے جبھی وہ دوسری قوم میں ضم ہو کر اُس کا حصہ بن جاتی ہے اُس کی دوسری اور تیسری نسل اپنے اسلاف کی جنم بھومی سے تعلق ختم کر لیتی ہے، لیکن ”پدرم سلطان بود“ کا نعرہ لگانے والی اقوام نہ ہی تیتر بنتی ہے اور نہ ہی بٹیر۔ بہر حال اپنے آئین کو ردی کا ٹکڑا سمجھنے والوں نے امریکی آئین سے اپنا رشتہ جوڑتے وقت امریکیوں کو جو حلفِ وفاداری دیا ہے اُس کے الفاظ نیٹ پر کچھ ایسے ہیں،اآپ بھی دیکھیں۔
"I hereby declare, on oath, that I absolutely and entirely renounce and abjure all allegiance and fidelity to any foreign prince, potentate, state, or sovereignty of whom or which I have heretofore been a subject or citizen; that I will support and defend the Constitution and laws of the United States of America against all enemies, foreign and domestic; that I will bear true faith and allegiance to the same; that I will bear arms on behalf of the United States when required by the law; that I will perform noncombatant service in the Armed Forces of the United States when required by the law; that I will perform work of national importance under civilian direction when required by the law; and that I take this obligation freely without any mental reservation or purpose of evasion; so help me God.\"
Signed by:_________
” میں اپنی تمام وفا داری اور
اعتماد جو میں نے، کسی غیر ملکی شہزادے، بادشاہت، ریاست یا خود مختار ریاست کو دی جس کا میں
باشندہ تھا،سے مکمل دستبرداری کا قسمیہ اعلان کرتا ہوں۔اور یہ کہ میں
ریاستہائے متحدہ امریکہ کے قانون اور آئین کی حفاظت اور مدد تمام غیر ملکی اور
ملکی دشمنوں سے کروں گا ۔ اور پر میں پورے ایمان اور خلوص سے عمل کروں گا
اور میں یہ ذمہ داری کسی ذہنی دباؤ یا مجبوری کے بغیر آزادانہ قبول کرتا
ہوں، خدا میری مدد کرے۔ اور میں اِس کا اقرار اپنے دستخطوں کے ساتھ کرتا ہوں“
اِن دستخطوں کے ساتھ ہی اِس فرد کا اپنے مادرِ وطن سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے اور یہ فرد کاغذوں میں امریکی شہری کہلانے لگتا ہے اُسے امریکن پاسپورٹ مل جاتا وہ اپنے ملک کے راز، خبریں اور دیگر معلومات اپنے نئے ہم وطنوں کو دینا شروع کرتا ہے۔اور امریکی رازوں، خبروں اور دیگر معلومات کا امین بن جاتا ہے، امریکی مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور اپنی مادرِ وطن کی سلامتی کوداؤ پر لگا دیتا ہے تب حقیقت میں وہ اُس وقت امریکی شہری کہلانے کا حق دار ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ فرد امریکیوں کو ہاتھ دکھانے لگے تو پھر امریکی قانوں حرکت میں آجاتا ہے۔ چنانچہ اُس کے مادرِ وطن کے معصوم لوگوں کو امریکی ڈالروں بذریعہ این جی اوز، پر پلنے والے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ معصوم فرد ہمارا باشندہ ہے اِس کو قانون کے مطابق سزا دینا ہمارا فرض بنتا ہے، انہیں یہ نہیں معلوم کہ یہ فرد توغیر ملکی شہریت حاصل کرنے کی خاطر اپنے ملک کی شہریت بیچ چکا ہے۔ بکی ہوئی چیز کو دوبارہ آسانی سے واپس خریدا نہیں جاسکتا۔
بہر حال امریکہ میں داڑھیوں کی پیمائش ہونی شروع ہوگئی اور پلاننگ کا دوسرا حصہ شروع ہوا۔ وہ تمام امریکی شہریت زدہ افراد جنہوں نے امریکی پہلے پلان کا حصہ روسیوں کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کو امدادی رقوم بھجوا کر کیا انہیں نے امریکی پلان دوئم کو سمجھنے میں دقت پیش آئی اور جب تک وہ اسے سمجھتے امریکی جاسوسی اداروں نے انہیں مجاہدین کا دایاں بازو سمجھتے ہوئے اُن کے خلاف گھیرا تنگ کرنا شروع کیا کیوں کہ امریکی۔ ”لارنس آف عریبین“ کی جوشیلی تقاریر نے مجاہدوں کی فصلوں کی فصلیں تیار کر دیں اور اِن فصلوں نے اپنی جڑیں ہر اُس جگہ گہری کر دیں جہاں کی فضا انہیں موافق آئی۔ مجاہدین کی پہلی نسل جہاں جاتی،اِسلامی شریعت کے مطابق نکاح کے سبزہ زاروں سے ضرور گزرتی۔یہ امریکی پلان کا حصہ نہ تھی امریکی پلانر یہ بھول گئے کہ پہلی نسل کے بعد دوسری نسل بھی آتی ہے اور یہ دوسری نسل وہ ہوتی ہے جو میدان جنگ کے پچھواڑوں میں، گھوڑوں کی ٹاپوں یا موجودہ دور میں، بموں کے دھمکوں، بارود کی بدبو اور مسلسل ہجرت کی بھول بھلیوں میں بڑھتی اور پروان چڑھتی ہے۔ اگر دوسری نسل کو لانے والے مرد میدان جنگ میں مارے جائیں، تو انتقام کے گیت اور کہانیاں اِنہیں پروان چڑھاتی ہیں۔
ٰ دوسری نسل آج سے 23 سال کے عرصے یعنی 1990میں جوانی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے، کلاشنکوف سے راکٹ لانچر کا وزن اٹھانے اور ان کے مہلک خیز اسلحے کو نشانے پر مارنے کے قابل ہو چکی تھی۔اور خاص طور پر جب اُن کے دل و دماغ میں انتقام کا جذبہ کافر غاصبوں کو اپنے ملک سے نکالنے کے لئے مسجدوں اور ہجروں میں کوٹ کوٹ کر بھرا گیا ہو پھر انہوں نے اپنی ماؤں کو کسمپرسی کے عالم میں زمانے کے حالات سے نبر و آزما دیکھا ہو۔ یہ دوسری نسل پہلی نسل سے زیادہ جذبہ ء جنگ والی تھی، پہلی نسل نے اپنے مقصد کو پانے کے لئے لوگوں کو خریدنا شروع کیا۔ ہر امریکی نقصان پر امریکی ڈالروں کی تقسیم اور بے تحاشا تقسیم، جس نے قلعہ الموت کے بے شمار حسن بن سباؤں کو جنم لیا۔ اِن حسن بن سباؤں کے پیروکاروں نے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے، ملک میں موجود مدرسوں کا رخ کرنا شروع کیا اور ڈالر کے بدلے فدایوں کی خرید شروع ہوگئی، جیب سے ڈالر جاتے سب کو برے لگتے ہیں، جب اُن بے وقوف لوگوں کی جیبوں میں جائیں جنہیں استعمال کرنے کا سلیقہ نہ آتا ہو۔ چنانچہ، ملک میں گھروں سے بھاگ کر پھرنے والے بے تحاشہ تعداد میں دستیاب مال سے فائدہ اُٹھانے کا سلسلہ شروع ہوا، پیار، محبت۔ دھونس و دھمکی اور لالچ سے دوسری نسل کے ساتھی تلاش کئے گئے۔ جب یہ لوگ تربیت گاہوں میں پہنچے تو انہیں، تربیت نے دوآتشہ کر دیا اور انہیں ظالم معاشرے سے انتقام لینے کی تربیت دی گئی، یہ انتقام اور جذبہ شہادت سے لبریز لڑکپن سے جوانی کی طرف جانے والے، اپنے جسموں پر بارود باندھے، انسانی ہجوم میں چیتھڑوں کی صورت میں بکھر گئے اور اُن کی روحوں کو اُن کے ”استادوں“ کے مطابق حوریں اٹھا کر سیدھا جنت میں لے گئیں۔ تربیت گاہ سے اُن کے ساتھ نکلنے والے مگر آدھے راستے سے لوٹ آنے والے، پہلی یا دوسری رات سو کر اُٹھنے کے بعد، خوابوں میں ُ ان زمین پر بکھرنے والوں کو آسمان میں حوروں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھتے، بالکل ایسے ہی جیسے 1965کی جنگ میں لوگوں نے، ہرے لباس میں گھوڑوں پر سوار، سرزمین ِ حجاز سے چل کر لاہور پہنچنے والوں کو، لاہوریوں سے واہگہ یا سیالکوٹ کی سمت پوچھتے دیکھا، شاید لاہور پہنچ کر اُن کی سمت بتانے کی قوت جواب دے جاتی یا اُن کا مقناطیسی کمپاس جواب دے جاتا۔
امریکی شایدیہ بھول گئے کہ غلطیاں بانجھ نہیں ہوتی وہ بچے جنتی چلے جاتی ہیں۔ روس کے خلاف، امریکیوں کا پاکستانیوں اور خاص طور پر مغربی پہاڑوں میں رہنے والے باسیوں کو جہاد کا سبق دینا اِن کی ایسی غلطی تھی کہ جس کے بچے چنتے چنتے نہ صرف پاکستان بلکہ امریکہ بھی تھک چکا ہے۔ امریکیوں نے اپنے عظیم پلان کو کامیاب کرنے کے لئے 9/11سے بہت پہلے ایک اور پلان شروع کیا تھا۔
1990 کا ذکر ہے۔شہید صلاح الدین مدیر تکبیر نے ایک مضمون شائع کیا جس میں ”مستقبل کی اسماعیلی ریاست“ کے مکمل پلان کے متعلق تفصیلاً اعداد و شمار کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔۔ 1993 میں سیاچین جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ مدیر تکبیر کا اندازا کچھ غلط نہ تھا۔گلگت اور بلتستان صوبے میں اسماعیلیوں نے ہر آبادی میں ہسپتال اور سکول تعمیر کر دیئے۔ اُن علاقوں میں رہنے والے مذہب کے اتنے نزدیک تھے جتنا سورج اُن سے گرمیوں میں چند دن کے لئے نزدیک ہوتا ہے۔ اسماعیلیوں نے سب سے پہلے وہاں فری ہسپتال کھولے، انگریز مشنریوں نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا۔ پھر سکول کھول کر وہاں ایسی تعلیم کا آغاز کیا جو پاکستان میں اعلیٰ درجے کے مقابلے میں تھی، جس کے لئے بے تحاشا انگریز بوڑھے اُن علاقوں میں آنے لگے۔ اس کے علاوہ، اپنے علاقوں میں پاکستانیوں کو زمین خریدنے پر پابندی لگانے والوں نے شاہرہ ریشم کے ساتھ ساتھ آباد علاقوں میں زمین خرید کر گھر بنانے شروع کر دئے۔ اُس کے بعد اِن لوگوں نے اپنے پاؤں اسلام آباد میں پھیلانے شروع کر دئے ہیں، مستقبل میں آنے والے سیلاب کا پانی ابھی ٹخنوں تک پہنچا ہے، جب یہ گردن تک پہنچے گا تو پھر،ہمارے پلاننگ کرنے والوں کو ہوش آئے گا، لیکن اُس وقت اِن کی دوسری نسل جوان ہو چکے گی بالکل اُسی طرح جیسے مغرب سے آنے والے بے خانماں برباد لوگوں کی دوسری نسل پاکستانی شناختی کارڈ بنا کر، پاکستانیوں کے ہجوم میں کھو چکی ہے لیکن جب اِس قوم کو کوئی خطرہ ہو تو یہ ایک دم کھمبیوں کی طرح اچھل کر اُگتے ہیں اور مخالفوں کے خلاف صف آرا ء ہوجاتے ہیں۔
حال میں نیٹ پر ریلیز ہونے والی یہ وڈیو ضرور دیکھئے تو آپ کو یقین آجائے گا ۔ کہ 1980 سے کی گئی انویسٹمنٹ کا صلہ امریکیوں کو لازماً چاھئیے ۔
http://www.yesofpakistan.com/videos/Bitter_Truth.mp4
اِن دستخطوں کے ساتھ ہی اِس فرد کا اپنے مادرِ وطن سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے اور یہ فرد کاغذوں میں امریکی شہری کہلانے لگتا ہے اُسے امریکن پاسپورٹ مل جاتا وہ اپنے ملک کے راز، خبریں اور دیگر معلومات اپنے نئے ہم وطنوں کو دینا شروع کرتا ہے۔اور امریکی رازوں، خبروں اور دیگر معلومات کا امین بن جاتا ہے، امریکی مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور اپنی مادرِ وطن کی سلامتی کوداؤ پر لگا دیتا ہے تب حقیقت میں وہ اُس وقت امریکی شہری کہلانے کا حق دار ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہ فرد امریکیوں کو ہاتھ دکھانے لگے تو پھر امریکی قانوں حرکت میں آجاتا ہے۔ چنانچہ اُس کے مادرِ وطن کے معصوم لوگوں کو امریکی ڈالروں بذریعہ این جی اوز، پر پلنے والے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ معصوم فرد ہمارا باشندہ ہے اِس کو قانون کے مطابق سزا دینا ہمارا فرض بنتا ہے، انہیں یہ نہیں معلوم کہ یہ فرد توغیر ملکی شہریت حاصل کرنے کی خاطر اپنے ملک کی شہریت بیچ چکا ہے۔ بکی ہوئی چیز کو دوبارہ آسانی سے واپس خریدا نہیں جاسکتا۔
بہر حال امریکہ میں داڑھیوں کی پیمائش ہونی شروع ہوگئی اور پلاننگ کا دوسرا حصہ شروع ہوا۔ وہ تمام امریکی شہریت زدہ افراد جنہوں نے امریکی پہلے پلان کا حصہ روسیوں کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کو امدادی رقوم بھجوا کر کیا انہیں نے امریکی پلان دوئم کو سمجھنے میں دقت پیش آئی اور جب تک وہ اسے سمجھتے امریکی جاسوسی اداروں نے انہیں مجاہدین کا دایاں بازو سمجھتے ہوئے اُن کے خلاف گھیرا تنگ کرنا شروع کیا کیوں کہ امریکی۔ ”لارنس آف عریبین“ کی جوشیلی تقاریر نے مجاہدوں کی فصلوں کی فصلیں تیار کر دیں اور اِن فصلوں نے اپنی جڑیں ہر اُس جگہ گہری کر دیں جہاں کی فضا انہیں موافق آئی۔ مجاہدین کی پہلی نسل جہاں جاتی،اِسلامی شریعت کے مطابق نکاح کے سبزہ زاروں سے ضرور گزرتی۔یہ امریکی پلان کا حصہ نہ تھی امریکی پلانر یہ بھول گئے کہ پہلی نسل کے بعد دوسری نسل بھی آتی ہے اور یہ دوسری نسل وہ ہوتی ہے جو میدان جنگ کے پچھواڑوں میں، گھوڑوں کی ٹاپوں یا موجودہ دور میں، بموں کے دھمکوں، بارود کی بدبو اور مسلسل ہجرت کی بھول بھلیوں میں بڑھتی اور پروان چڑھتی ہے۔ اگر دوسری نسل کو لانے والے مرد میدان جنگ میں مارے جائیں، تو انتقام کے گیت اور کہانیاں اِنہیں پروان چڑھاتی ہیں۔
ٰ دوسری نسل آج سے 23 سال کے عرصے یعنی 1990میں جوانی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے، کلاشنکوف سے راکٹ لانچر کا وزن اٹھانے اور ان کے مہلک خیز اسلحے کو نشانے پر مارنے کے قابل ہو چکی تھی۔اور خاص طور پر جب اُن کے دل و دماغ میں انتقام کا جذبہ کافر غاصبوں کو اپنے ملک سے نکالنے کے لئے مسجدوں اور ہجروں میں کوٹ کوٹ کر بھرا گیا ہو پھر انہوں نے اپنی ماؤں کو کسمپرسی کے عالم میں زمانے کے حالات سے نبر و آزما دیکھا ہو۔ یہ دوسری نسل پہلی نسل سے زیادہ جذبہ ء جنگ والی تھی، پہلی نسل نے اپنے مقصد کو پانے کے لئے لوگوں کو خریدنا شروع کیا۔ ہر امریکی نقصان پر امریکی ڈالروں کی تقسیم اور بے تحاشا تقسیم، جس نے قلعہ الموت کے بے شمار حسن بن سباؤں کو جنم لیا۔ اِن حسن بن سباؤں کے پیروکاروں نے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے، ملک میں موجود مدرسوں کا رخ کرنا شروع کیا اور ڈالر کے بدلے فدایوں کی خرید شروع ہوگئی، جیب سے ڈالر جاتے سب کو برے لگتے ہیں، جب اُن بے وقوف لوگوں کی جیبوں میں جائیں جنہیں استعمال کرنے کا سلیقہ نہ آتا ہو۔ چنانچہ، ملک میں گھروں سے بھاگ کر پھرنے والے بے تحاشہ تعداد میں دستیاب مال سے فائدہ اُٹھانے کا سلسلہ شروع ہوا، پیار، محبت۔ دھونس و دھمکی اور لالچ سے دوسری نسل کے ساتھی تلاش کئے گئے۔ جب یہ لوگ تربیت گاہوں میں پہنچے تو انہیں، تربیت نے دوآتشہ کر دیا اور انہیں ظالم معاشرے سے انتقام لینے کی تربیت دی گئی، یہ انتقام اور جذبہ شہادت سے لبریز لڑکپن سے جوانی کی طرف جانے والے، اپنے جسموں پر بارود باندھے، انسانی ہجوم میں چیتھڑوں کی صورت میں بکھر گئے اور اُن کی روحوں کو اُن کے ”استادوں“ کے مطابق حوریں اٹھا کر سیدھا جنت میں لے گئیں۔ تربیت گاہ سے اُن کے ساتھ نکلنے والے مگر آدھے راستے سے لوٹ آنے والے، پہلی یا دوسری رات سو کر اُٹھنے کے بعد، خوابوں میں ُ ان زمین پر بکھرنے والوں کو آسمان میں حوروں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھتے، بالکل ایسے ہی جیسے 1965کی جنگ میں لوگوں نے، ہرے لباس میں گھوڑوں پر سوار، سرزمین ِ حجاز سے چل کر لاہور پہنچنے والوں کو، لاہوریوں سے واہگہ یا سیالکوٹ کی سمت پوچھتے دیکھا، شاید لاہور پہنچ کر اُن کی سمت بتانے کی قوت جواب دے جاتی یا اُن کا مقناطیسی کمپاس جواب دے جاتا۔
امریکی شایدیہ بھول گئے کہ غلطیاں بانجھ نہیں ہوتی وہ بچے جنتی چلے جاتی ہیں۔ روس کے خلاف، امریکیوں کا پاکستانیوں اور خاص طور پر مغربی پہاڑوں میں رہنے والے باسیوں کو جہاد کا سبق دینا اِن کی ایسی غلطی تھی کہ جس کے بچے چنتے چنتے نہ صرف پاکستان بلکہ امریکہ بھی تھک چکا ہے۔ امریکیوں نے اپنے عظیم پلان کو کامیاب کرنے کے لئے 9/11سے بہت پہلے ایک اور پلان شروع کیا تھا۔
1990 کا ذکر ہے۔شہید صلاح الدین مدیر تکبیر نے ایک مضمون شائع کیا جس میں ”مستقبل کی اسماعیلی ریاست“ کے مکمل پلان کے متعلق تفصیلاً اعداد و شمار کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔۔ 1993 میں سیاچین جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ مدیر تکبیر کا اندازا کچھ غلط نہ تھا۔گلگت اور بلتستان صوبے میں اسماعیلیوں نے ہر آبادی میں ہسپتال اور سکول تعمیر کر دیئے۔ اُن علاقوں میں رہنے والے مذہب کے اتنے نزدیک تھے جتنا سورج اُن سے گرمیوں میں چند دن کے لئے نزدیک ہوتا ہے۔ اسماعیلیوں نے سب سے پہلے وہاں فری ہسپتال کھولے، انگریز مشنریوں نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا۔ پھر سکول کھول کر وہاں ایسی تعلیم کا آغاز کیا جو پاکستان میں اعلیٰ درجے کے مقابلے میں تھی، جس کے لئے بے تحاشا انگریز بوڑھے اُن علاقوں میں آنے لگے۔ اس کے علاوہ، اپنے علاقوں میں پاکستانیوں کو زمین خریدنے پر پابندی لگانے والوں نے شاہرہ ریشم کے ساتھ ساتھ آباد علاقوں میں زمین خرید کر گھر بنانے شروع کر دئے۔ اُس کے بعد اِن لوگوں نے اپنے پاؤں اسلام آباد میں پھیلانے شروع کر دئے ہیں، مستقبل میں آنے والے سیلاب کا پانی ابھی ٹخنوں تک پہنچا ہے، جب یہ گردن تک پہنچے گا تو پھر،ہمارے پلاننگ کرنے والوں کو ہوش آئے گا، لیکن اُس وقت اِن کی دوسری نسل جوان ہو چکے گی بالکل اُسی طرح جیسے مغرب سے آنے والے بے خانماں برباد لوگوں کی دوسری نسل پاکستانی شناختی کارڈ بنا کر، پاکستانیوں کے ہجوم میں کھو چکی ہے لیکن جب اِس قوم کو کوئی خطرہ ہو تو یہ ایک دم کھمبیوں کی طرح اچھل کر اُگتے ہیں اور مخالفوں کے خلاف صف آرا ء ہوجاتے ہیں۔
حال میں نیٹ پر ریلیز ہونے والی یہ وڈیو ضرور دیکھئے تو آپ کو یقین آجائے گا ۔ کہ 1980 سے کی گئی انویسٹمنٹ کا صلہ امریکیوں کو لازماً چاھئیے ۔
http://www.yesofpakistan.com/videos/Bitter_Truth.mp4
نعيم الدين خالدصاحب كا يه مضمون باكستان كي كورس كا حصه هونا لازمي هي
جواب دیںحذف کریںاتنا خوبصورت تجزيه هماري دل كي اواز هي ١٩٨٢ سي مين تقرباً برطانيه ان جان مستقل رهتا اور مين كًورنر بنجاب كي اس قول كي قائيل هون كرورها بوند كا تيكس ادا كيا كًلاسكًو مين بهت هي قانون كا خيال ركهني والا معزز فرد هين مكًر جو احترام اور بروتوكول اب ملا هي اس كي اك باكستاني هي كر سكتا ه ي وكًرنه ساري عمر باكستا ني نزاد برطاني هي كهلاتي هين خواه نسلين قربان كر دي هون يهي حال امريكه اور يورب كا هي
جواب دیںحذف کریںخالد صاحب كا تجزيه اتنا حقيقت بسند هي كي دل جاهتا اسكول كي كورس مين شامل كرون بهرحال ابني اسكول مين اس تجزيه كا مطالعه ضرور كراؤن كًي انشاءالله