Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 29 اپریل، 2015

نمّو کا جرمنی کا سفر


   یہ 1970  مئی کی بات ہے، میٹرک کے امتحان ہو چکے تھے ، گھر والے سارے کوئٹہ میں تھے اور میں میرپورخاص میں ، کہ  تقریباً دس بجے، ہمیں کراچی سے میرپور خاص گھر کے پتے پر  ایک رجسٹرڈ  خط ملا  جو ڈاکیئے نے ہمارے دستخط   لینے کہ بعد دیا  ۔
  قارئین! یہ یہ خوفناک خط ملتے ہی ہمارے حواس نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا، ہم کوئٹہ کی طرف بھاگے  اور کوئٹہ پہنچ کر دم لیا،
یہ داستان پڑھئیے : رنگروٹ سے آفیسر تک ،
کوئٹہ میں آکر دوستوں سے معلوم ہوا ، کہ  کبیر ، اسلم اور جبّار ، جرمنی جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں ، جبّار  کوئٹہ کا  چنگیزی (ہزارہ ) تھا ، کبیر بروہی اور اسلم فیصل آباد کا رہنے والا پنجابی تھا ، پروگرام یہ تھا کہ بدھ کو جانے والی زاہدان ٹرین پر  زاہدان جائیں گے ۔ ٹکٹ کی ضرورت نہیں ، کبیر نے بتایا کہ اُس کا چچا ، گارڈ ہے ، وہ ہمیں  اپنے ڈبے میں مُفت لے جائے گا ۔جہاں سے تہران ، تہران جاکر ہم ، سفارت خانے میں جاکر بتائیں گے کہ ہمارے پاسپورٹ بیگ سمیت چوری ہو گئے ہیں ۔ تو وہ ہمیں پاسپورٹ بنا دیں گے ۔پاکستان میں پاسپورٹ بنوانا مشکل ہے ، جبکہ تہران سے 100 روپے میں پاسپورٹ بن جائیں گے، وہاں سے ہم ترکی سے ہوتے ہوئے جرمنی جائیں گے ۔جہاں اچھی ملازمت مل جاتی ہے ۔ زیادہ پیسوں کی ضرورت نہیں  بس جیب میں 300 روپے ہونا چاہیئں ۔ باقی ہم راستے میں کما کر آگے بڑھیں گے ، اور اگر ترکی یا بلغاریہ میں اچھے نوکری مل گئی تو تم لوگ وہاں رہ جانا ، جبّار جرمنی جائے گا کیوں کہ اُس کا بھائی وہاں  چار سال سے ہے ۔
پیسے کیسے جمع کئے جائیں ؟
اُس کا حل بھی جبّا ر ہی نے تجویز کیا ، کہ فروٹ مارکیٹ میں مزدوری کریں گے، وہاں سے جورقم ملے گی وہ جمع کریں گے کیوں والدین نے تو دینا نہیں ۔ کوئٹہ فروٹ مارکیٹ  میں پورے دن کی مزدوری ، بمشکل پانچ روپے ملا کرتی تھی ۔ مجھے ٹائیپنگ آتی تھی جو میں نے میرپورخاص میں سیکھی ۔ کسی آفس میں 100 روپے  مہینہ کام کرنے کے مل جاتے تھے ، شارٹ ہینڈ آتا ہو تو 150 روپے کی نوکری آسانی سے مل جاتی تھی  ، مجھے سائیکل ٹھیک کرنا اور کلاک ٹھیک کرنا بھی آتا تھا  ، لیکن یہ 75 روپے مہینہ کی بمشکل ملازمت ملتی تھی ۔
چنانچہ ، پیسے جمع کرنے کے لئے، ایمپلائیمنٹ ایکسچینج کے آفس میں ، کبیر ، اسلم اور میں گئے ، وہاں نام لکھوایا ۔ ہفتہ بعد آنے کا کہا ، اتنے دن ہم تینوں نے ، ٹرکوں سے کریٹ اتارنے وار چڑھانے کا کام کیا ۔پہلے دن 5 روپے کمائے تو خوشی کا حال یہ کہ پاؤں زمین پر نہیں پڑتا تھا ۔ جوانی تھی تھکن کا بالکل احساس نہیں تھا ، 15 روپے کما کر تیسرے دن تینوں ، ایمپلائیمنٹ ایکسچینج گئے ۔ وہاں سے ہم تینوں کو  کوئٹہ ایکسچینج میں 50  روپے ماہانہ ملازمت کا  لیٹر تھما دیا ،
صرف 50 روپے مہینہ ،ہم تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔صبح  7 بجے سےدوپہر 2 بجے تک  ایکسچینج آپریٹر کی ملازمت تھی۔ 
تینوں ، ایکسچینج گئے وہاں گیٹ والے کو لیٹر دکھایا اُس نے اندر جانے کی اجازت دی، ریسیپشن پر پہنچے وہاں موجود ادھیڑ عمر  آدمی نے پوچھا ، "زوئے ،  نوکری کے لئے آئے ہوَ؟"
" جی، ہم تینوں نے جواب دیا
ہم نے اپنے لیٹر اُس کی طرف بڑھائے ،" زوئے ، اِسے اپنے پاس رکھو" وہ بولا ۔ " گل خان ، اوئے گل خان ، انہیں ایڈمن کے آفس لے جاؤ
  " زوئے ، تم لوگ ادر آجاؤ " گل خان ایک دروازے سے گردن نکال کر بولا ، ہم گل خان کے پاس گئے ۔
،"
زوئے  تم وہ بالٹی لاؤ " گل خان نے مجھے حکم دیتے ہوئے کہا
" تم  زوئے ، وہ کپڑا لاؤ " گل خان نے کبیر کو کہا ۔
" تم وہ جاڑو اٹھاؤ "
گل خان نے کبیر کو کہا ۔  " اور امارے پیچھے آؤ  " 
ہم تینوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ، آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارہ کیا  اور وہیں کھڑے رہے ۔
" ام یہاں بھنگی بننے نہیں آیا لالہ " کبیر نے گل خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔
" زوئے ، پہلے سب یہاں بھنگی بنتا ہے ، پھر آگے بڑھتا ہے " گُل خان بولا ۔
" میں گھر جارہا ہوں " میں نے اعلان کیا  اور ریسیپشن کے پاس سے گذرتے ہوئےداخلی دروازے سے باہر نکل گیا ۔ پیچھے مُڑ کر دیکھا تو، کبیر اور اسلم بھی ساتھ تھے ۔
ہم نے کوئی اور کام کرنے کے بجائے  ، فروٹ منڈی میں وزن اٹھانا زیادہ مناسب سمجھا ۔
 قصہ مختصر  ، جولائی کے پہلے ہفتے  ہم جانے کے لئے تیار تھے ۔ زاہدان ایکسپریس بدھ کو کوئٹہ سے چلتی تھی  اور نوشکی اور  دالبدین  سے گذرتی  جمعرات  کی شام تفتان پہنچتی لیکن اکثر راستے میں پٹریوں پر ریت آجانے کی وجہ سے  لیٹ ہو جاتی ، پٹریوں سے ریت ہٹانا  بھی مسافروں کا کام تھا جو مُفتے میں سفر کرتے تھے ۔
ہم چاروں دوست ، ریلوے سٹیشن پہنچے وہاں دو اور ابنِ بطوطہ مل گئے جو 
جبّار    کے  تعلق سے جرمنی جانے کے لئے آئے تھے ، اُن میں ایک  ذرا عمر والا کاکڑ  تھا کوئی  22 سال کا ، وہ خود بخود ہمارا لیڈر بن گیا ۔ گارڈ کے ڈبے میں بیٹھے  اپنے اپنے سپنوں میں گرفتار روانہ ءِ سفر تھے ۔
مجھے امی  یاد آرہی تھیں ، کہ جب اُنہیں معلوم ہوگا کہ اُن کا نمّو بتائے بغیر کہیں چلا گیا ،تو اُن کا کیا حال ہوگا ، کبیر کا بھی یہی حال تھا ، اسلم نے اپنے بڑے بھائی کو بتایا تھا ۔
جبّار  نے حوصلہ دیا کہ  بدھ کو ہم تہران میں ہوں گے جب پاسپورٹ مل جائیں تو گھر خط لکھ دینا ، اُن دنوں فورٹ  سنڈیمن میں  میرے ماموں زاد بھائی ریلوے میں ہوتے تھے ۔ ایک دفعہ میں اور چھوٹا بھائی ، اُن کے ساتھ فورٹ سنڈیمن گئے تھے رات وہاں رہ کر صبح کی ٹرین سے واپس آگئے تھے کیوں کہ وہاں دیکھنے کی کوئی چیز نہیں تھی ۔ میری بڑی بہن بھی کوئٹہ میں رہتی تھی  ، کبھی رات کو اُس کے ہاں بھی ٹہر جاتے ، ہفتہ تو نہیں تین یا چار دن  کے بعد ہماری تلاش شروع ہوتی ۔
تفتان ٹرین کا آخری سٹیشن تھا  جہاں کاغذات دیکھے جاتے ، جن کے پاس کاغذات نہ ہوتے تو اٗنہیں عارضی زاہدان تک جانے کا  پروانہ دے دیا جاتا ، ہمیں پروانہ حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی ،
کبیر کے چچا نے بہت مدد کی ویسے بھی وہ سلیمان بھائی سے واقف تھے ۔اُنہیں  بھی یہی بتایا  کہ زاہدان دیکھنے جا رہے ہیں، جمعہ کی شام  ہم زاہدان پہنچ گئے ۔ کبیر کے چچا نے ہدایت دی کہ مسافرخانے میں رات کو سونا ،  اب اتوار کی صبح ٹرین  واپس جائے گی ۔ زاہدان کا سٹیشن زیادہ بڑا نہیں تھا -زاہدان سے تہران تک کا سفر ہمیں  مال برداری ٹرکوں پر کرنا تھا ، ٹرین میں پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے نہیں کر سکتے  تھے ، پروگرام یہ بنا کہ رات پلیٹ فارم پر گذار کر صبح  تہران کے لئے روانہ ہوں گے ۔
صبح اُٹھے تو معلوم ہوا  کہ کاکڑ کے ساتھ جو لڑکا تھا ، اُس کی کسی نے جیب کاٹ لی، گو کہ اُن کا ہم چاروں سے کوئی تعلق نہ تھا لیکن وہ جبّار کے جاننے والے تھے لہذا اُس کی کیسے مدد  ہو ؟  کاکڑ اور جبّار نے فیصلہ کیا کہ ہم ، زاہدان فروٹ منڈی میں مزدوری کرتے ہیں اور جو پیسے ملیں ، اُس لڑکے کو تہران تک کے سفر کے لئے دیں گے ۔ میں ، کبیر اور اسلم  اِس ہمدردی کے پروگرام سے متفق نہ تھے ، جبّار نے  اسلم کو شرم دلائی تو وہ نیم راضی ہو گیا ، ہم دونوں نہیں ہوئے ، کیوں کہ گروپ ہم چار کا تھا اور یہی طے ہوا تھا کی مصیبت میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے ۔ خیر ہمارا لیڈر جبّار تھا ، ہم اُس کے ساتھ سبزی منڈی گئے ، وہاں کاکڑ نے ایک ٹرک والے سے بات کی اور پھل  لوڈکرنے کا معاہدہ  کیا ، لیکن بجائے کہ ٹرک والا پیسے ہم سب کو الگ الگ دے ۔ اُس نے خود لینے کا کہا ، جس پر کبیر بپھر گیا کہ ہمارے کام کے پیسے ہمیں ملیں گے تم کیوں لو گے ؟ اُس نے کبیر کا گریبان پکڑ لیا  ، بڑی مشکل سے معاملہ رفع دفع کروایا ۔کبیر نے کہا ،" نعیم میں نے آگے نہیں جانا ،  چھوڑو اِن کو واپس چلتے ہیں "
میں اور اسلم اُس کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے رہے - لیکن وہ نہ مانا ۔اُس کی منطق تھی کہ ہم اُس کے دوست کا تاوان کیوں بھریں ؟   یہ آگے ہمیں اور تنگ کرے گا اور جبّار اُس کا ساتھ دے رہا ہے ۔
کبیر  اور اسلم میرے محلّے دار تھے  ، اُس کا ساتھ دینا  ضروری تھا ۔ ہم تینوں نے جبّار سے بات کی ، اُس سمجھایا کہ اِن کا ساتھ چھوڑ دو ، ہم چاروں ساتھ رہیں گے ، کوئی مصیبت آئی تو آپ میں مدد کریں گے ، جبّار  نے اُنہیں بھی ساتھ  رکھنے پر زور دیا  ، تو کبیر اور میں پیچھے ہٹ گئے اور واپس جانے کا پروگرام بنا لیا ۔ اسلم  اور جبّار محلےے دار تھے ، اُنہوں نے آگے جانے کا پروگرام بنایا ، کبیر اور میں نے واپس جانے کا ۔ فروٹ منڈی سے کوئٹہ  کی طرف ٹرک جاتے رہتے تھے ، ہم دونوں نے بجائے زاہدان ٹہرنے کے تفتان ٹہرنے کا پروگرام بنایا  جو یہاں سے سو کلومیٹر دور تھا  اور ایک ٹرک ڈرائیور سے بات کی اُس نے  5 روپے لے کر ہمیں تفتان پہنچانے کا ذمہ لے لیا ہم شام تین بجے واپس تفتان بارڈر پر پہنچ کر ٹرک سے اترے ، کسٹم پوسٹ پہنچے وہاں کبیر کو اُس  کا ایک رشتہ دار ملا جو کسٹم میں سپاہی تھا ، اُس نے خوب آؤ بھگت کی ، جب اُس نے سنا کہ ہم جرمنی جانے کا پروگرام کینسل کر کے واپس جارہے ہیں تو اُس نے افسوس ظاہر کیا ، کہ وہاں جاؤ ، بہت پیسہ ہے ۔اُس وقت ڈالر 4 روپے کا تھا ۔ مگر ہم دونوں نے ڈالر کمانے کا پروگرام کینسل کر دیا تھا ، اُس نے اُسی ٹرک پر ہمیں ، مُفت کوئٹہ کے لئے بٹھا دیا ، اتوار کی شام ہم دونوں کوئٹہ پہنچ گئے ۔ میں بہن کے گھر چلا گیا ۔ اُسے بتایا کہ میں کبیر کے ساتھ گھومنے، امّی کو بتائے بغیر زاہدان گیا تھا ، امّی کو مت بتانا ، وہ پوچھیں تو کہنا تمھارے پاس تھا ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔