Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 8 اپریل، 2015

اقبال- من بگل گفتم بگو ای سینہ چاک


1
ذات حق را نیست این عالم حجاب
غوطہ را حایل نگردد نقش آب
2
زادن اندر عالمی دیگر خوش است
تا شباب دیگری آید بدست
3
حق ورای مرگ و عین زندگی است
بندہ چون میرد نمیداند کہ چیست
گرچہ ما مرغان بے بال و پریم
از خدا در علم مرگ افزون تریم
4
وقت ؟ شیرینی بہ زھر آمیختہ
رحمت عامی بہ قھر آمیختہ
خالی از قہرش نبینی شہر و دشت
رحمت او اینکہ گوئی در گذشت
5
کافری مرگست ای روشن نہاد
کی سزد با مردہ غازی را جہاد
مرد مؤمن زندہ و با خود بہ جنگ
بر خود افتد ہمچو بر آہو پلنگ
6
کافر بیدار دل پیش صنم
بہ ز دینداری کہ خفت اندر حرم
7
چشم کورست اینکہ بیند نا صواب
ہیچگہ شب را نبیند آفتاب
8
صحبت گل دانہ را سازد درخت
آدمی از صحبت گل تیرہ بخت
دانہ از گل مے پذیرد پیچ و تاب
تا کند صید شعاع آفتاب
9
من بگل گفتم بگو ای سینہ چاک
چون بگیری رنگ و بو از باد و خاک؟
گفت گل ای ہوشمند رفتہ ہوش
چون پیامی گیری از برق خموش؟
جان بہ تن ما را ز جذب این و آن
جذب تو پیدا و جذب ما نہان

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔