ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مراکش کے دور افتادہ اور پسماندہ گاؤں میں ایک بچہ حمید رھتا تھا ۔ حمید کو تمام کلاس فیلوز اُس کی بے وقوفانہ حرکات کی وجہ سے پسند نہیں کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ اُس کی استانی بھی اُس پر چینختی چلاتی رہتی تھی ۔
" حمید تمھیں کب عقل آئے گی "
"حمید جب عقل بٹ رہی تھی تو کیا تم گھاس چرنے گئے تھے "
" حمید تمھیں کب عقل آئے گی "
"حمید جب عقل بٹ رہی تھی تو کیا تم گھاس چرنے گئے تھے "
" حمید گدھا تم سے زیادہ عقلمند ہوتا ہے "
" حمید کیا تمھاری بڑی کھوپڑی میں دماغ ہے " وغیرہ وغیرہ ۔
ایک دن حمید کی ماں ، حمید کے سکول گئی تاکہ وہ اپنے پیارےے بچے کی تعلیمی قابلیت کے بارے میں معلوم کر سکے ۔
ایک دن حمید کی ماں ، حمید کے سکول گئی تاکہ وہ اپنے پیارےے بچے کی تعلیمی قابلیت کے بارے میں معلوم کر سکے ۔
وہاں ٹیچر نے اُسے بتایا کہ اُس کا بیٹا سکول بلکہ گاؤں کا سب سے کُند ذہن بچہ ہے ، اُس کے کلاس میں سب سے کم نمبر ہوتے ہیں ، سوالوں کے جواب وہ دینے سے قاصر ہے ، یہاں تک کہ اُس کی تحریر صرف وہی پڑھ سکتا ہے اور وہ بھی اٹک اٹک کر ۔ بہتر یہ ہے حمید کو پڑھانے کے بجائے ایک گدھا لے کر دے دیا جائے تاکہ وہ تعلیم کے بجائے ، تعلیم برائے روزگار حاصل کرے ۔
لیکن اگر گدھا ، حمید سے ذہین ہوا تو وہ حمید سے کام لینا شروع کردے گا ۔ ٹیچرنے تنبیہہ کی ۔
ماں بہت دکھی ہوئی اور سوچا کہ اُس کے لائق اور ہونہار بیٹے کا اِس خبطی ٹیچر اور بے کار سکول میں رہنا بے کار ہے ۔ چنانچہ اُس نے سوشل سائینسز کے اصولوں کے تحت جو اس نے نہیں پڑھے تھے- لیکن وہ عقلمند اور ذہین تھی ۔
لیکن اگر گدھا ، حمید سے ذہین ہوا تو وہ حمید سے کام لینا شروع کردے گا ۔ ٹیچرنے تنبیہہ کی ۔
ماں بہت دکھی ہوئی اور سوچا کہ اُس کے لائق اور ہونہار بیٹے کا اِس خبطی ٹیچر اور بے کار سکول میں رہنا بے کار ہے ۔ چنانچہ اُس نے سوشل سائینسز کے اصولوں کے تحت جو اس نے نہیں پڑھے تھے- لیکن وہ عقلمند اور ذہین تھی ۔
Horizontal Mobility کا فیصلہ کرتے ہوئے گاؤں سے شہر جانے کا فیصلہ کیا تاکہ اُس کا ہونہار بیٹا Vertical Mobilty کے قانون کے تحت ترقی پائے ۔
ٹیچر گاؤں کے بچوں کو پڑھاتی پڑھاتی بوڑھی ہو گئی تھی 25 سال کے بعد اُسے آٹھ اٹیک نہیں بلکہ ھارٹ اٹیک ہوا ، اُس کے بچے اُسے شہر کے ہسپتال لے آئے ، ڈاکٹروں نے اُسے بتایا کہ اُس کی ، اوپن ھارٹ سرجری ہوگی ۔
چنانچہ اُس کے بیٹوں نے ماں سے پوچھ کر ، ڈاکٹروں کو سرجری جیسے عمل سے گذرنے کا عندیہ دے دیا ۔
قارئین ، قصہ یہاں سے دل کو جھٹکا لگانے والا موڑ لیتا ہے ۔
جب ہسپتال کے روشن کمرے کے سفید بستر پر ٹیچر کی آنکھ کھلتی ہے ۔ تو اُس کے سامنے ایک ہینڈسم ڈاکٹر کا چہرہ دکھائی دیتا ہے ، جس کے چہرے پر کامیابی کی مسکراہٹ ہوتی ہے ۔ وہ اُس کی طرف جھکتا ہے ۔
ٹیچر گاؤں کے بچوں کو پڑھاتی پڑھاتی بوڑھی ہو گئی تھی 25 سال کے بعد اُسے آٹھ اٹیک نہیں بلکہ ھارٹ اٹیک ہوا ، اُس کے بچے اُسے شہر کے ہسپتال لے آئے ، ڈاکٹروں نے اُسے بتایا کہ اُس کی ، اوپن ھارٹ سرجری ہوگی ۔
چنانچہ اُس کے بیٹوں نے ماں سے پوچھ کر ، ڈاکٹروں کو سرجری جیسے عمل سے گذرنے کا عندیہ دے دیا ۔
قارئین ، قصہ یہاں سے دل کو جھٹکا لگانے والا موڑ لیتا ہے ۔
جب ہسپتال کے روشن کمرے کے سفید بستر پر ٹیچر کی آنکھ کھلتی ہے ۔ تو اُس کے سامنے ایک ہینڈسم ڈاکٹر کا چہرہ دکھائی دیتا ہے ، جس کے چہرے پر کامیابی کی مسکراہٹ ہوتی ہے ۔ وہ اُس کی طرف جھکتا ہے ۔
ٹیچر دواؤں کے زیر اثر ادھ کھلی آنکھوں سے ڈاکٹر کا شکریہ ادا کرنے کے لئے لب کھولتی ہے ۔ تو اُس کے لب پھڑپھڑا کر رہ جاتے ہیں ۔ اُس کا چہرہ ایک طرف ڈھلکنے لگتا ہے اور چہرے کی رنگت نیلاہٹ میں تبدیل ہونے لگتی ہے ۔ وہ ہاتھ اُٹھا کر ڈاکٹر کو کچھ کہنا چاہتی ہیں ۔لیکن اُس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر جاتی ہے ۔
ڈاکٹر کو ایک شدید جھٹکا لگتا ہے کہ اُس کا تجربہ اور لیاقت ناکام ہوگئے ۔
ایسا کیوں ہوا ؟
ایسا کیوں ہوا ؟
یہ ناممکن ہے ، تمام آلات آپریشن کی کامیابی کی خبر دے رہے تھے ۔ پھر
ایسا کیوں ہوا ؟
اچانک ہسپتال کے کمرے کی خاموشی میں ایک مانوس سا شور اُٹھتا ہے ۔
ڈاکٹر پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہے ۔ اُسے حیرت کا شدید جھٹکا لگتا ہے ۔
ڈاکٹر کو ایک شدید جھٹکا لگتا ہے کہ اُس کا تجربہ اور لیاقت ناکام ہوگئے ۔
ایسا کیوں ہوا ؟
ایسا کیوں ہوا ؟
یہ ناممکن ہے ، تمام آلات آپریشن کی کامیابی کی خبر دے رہے تھے ۔ پھر
ایسا کیوں ہوا ؟
اچانک ہسپتال کے کمرے کی خاموشی میں ایک مانوس سا شور اُٹھتا ہے ۔
ڈاکٹر پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہے ۔ اُسے حیرت کا شدید جھٹکا لگتا ہے ۔
جہاں حمید ، وینٹی لیٹر کا پلگ نکال کر، اپنا ویکیوم کلینر لگانے کے بعد تندھی سے ہسپتال کا فرش صاف کرتا نظر آتا ہے ۔
ہاہاہاہاہاہاہاہاہا ۔۔۔ یعنی چول ۔۔ چول ہی رہا
جواب دیںحذف کریں