Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 8 اپریل، 2015

اقبال- یا ضمیر من فلک را در گرفت


مشت خاکی کار خود را بردہ پیش
در تماشای تجلی ہای خویش
یا من افتادم بدام ہست و بود
یا بدام من اسیر آمد وجود
اندرین نیلی تتق چاک از من است
من ز افلاکم کہ افلاک از من است
یا ضمیرم را فلک در بر گرفت
یا ضمیر من فلک را در گرفت
اندرونست این کہ بیرون است چیست؟
آنچہ می بیند نگہ چون است چیست؟
پر زنم بر آسمانی دیگری
پیش خود بینم جھانی دیگری
عالمی با کوہ و دشت و بحر و بر
عالمی از خاک ما دیرینہ تر
عالمی از ابرکے بالیدہ ئے
دستبرد آدمی نادیدہ ئے
نقشہا نابستہ بر لوح وجود
خردہ گیر فطرت آنجا کس نبود

من بہ رومی گفتم این صحرا خوش است
در کہستان شورش دریا خوش است
من نیابم از حیات اینجا نشان
از کجا می آید آواز اذان
گفت رومی این مقام اولیاست
آشنا این خاکدان با خاک ماست
بوالبشر چون رخت از فردوس بست
یک دو روزی اندرین عالم نشست
این فضاہا سوز آہش دیدہ است
نالہ ہای صبحگاہش دیدہ است
زائران این مقام ارجمند
پاک مردان از مقامات بلند
پاک مردان چون فضیل و بوسعید
عارفان مثل جنید و با یزید
خیز تا ما را نماز آید بدست
یک دو دم سوز و گداز آید بدست

رفتم و دیدم دو مرد اندر قیام
مقتدی تاتار و افغانی امام
پیر رومی ھر زمان اندر حضور
طلعتش بر تافت از ذوق و سرور
گفت ’’مشرق زین دو کس بہتر نزاد
ناخن شان عقدہ ہای ما گشود
سید السادات مولانا جمال
زندہ از گفتار او سنگ و سفال
ترک سالار آن حلیم دردمند
فکر او مثل مقام او بلند
با چنین مردان دو رکعت طاعت است
ورنہ آن کاری کہ مزدش جنت است‘‘
قرأت آن پیر مرد سخت کوش
سورہ والنجم و آن دشت خموش
قرأتی کز وی خلیل آید بہ وجد
روح پاک جبرئیل آید بہ وجد
دل ازو در سینہ گردد ناصبور
شور الا اﷲ خیزد از قبور
اضطراب شعلہ بخشد دود را
سوز و مستی میدہد داؤد را
آشکارا ہر غیاب از قرأتش
بی حجاب ام الکتاب از قرأتش

من ز جا بر خاستم بعد از نماز
دست او بوسیدم از راہ نیاز
گفت رومی ’’ذرۂ گردون نورد
در دل او یک جہان سوز و درد
چشم جز بر خویشتن نگشادہ ئی
دل بکس نادادہ ئی آزادہ ئی
تند سیر اندر فراخای وجود
من ز شوخے گویم او را زندہ رود‘‘

افغانی
زندہ رود از خاکدان ما بگوی
از زمین و آسمان ما بگوی
خاکی و چون قدسیان روشن بصر
از مسلمانان بدہ ما را خبر
زندہ رود
در ضمیر ملت گیتی شکن
دیدہ ام آویزش دین و وطن
روح در تن مردہ از ضعف یقین
ناامید از قوت دین مبین
ترک و ایران و عرب مست فرنگ
ہر کسی را در گلو شست فرنگ
مشرق از سلطانی مغرب خراب
اشتراک از دین و ملت بردہ تاب

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔