Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 8 اپریل، 2015

اقبال- وای بر دستور جمہور فرنگ


بندۂ حق بی نیاز از ہر مقام
نی غلام او را نہ او کس را غلام
رسم و راہ و دین و آئینش ز حق
زشت و خوب و تلخ و نوشینش ز حق
عقل خود بین غافل از بہبود غیر
سود خود بیند نبیند سود غیر
وحی حق بینندۂ سود ہمہ
در نگاہش سود و بہبود ہمہ
عادل اندر صلح و ہم اندر مصاف
وصل و فصلش لایراعی لایخاف
غیر حق چون ناہے و آمر شود
زور ور بر ناتوان قاھر شود
زیر گردون آمری از قاہری است
آمری از ’’ما سوی اﷲ‘‘ کافری است
قاہر آمر کہ باشد پختہ کار
از قوانین گرد خود بندد حصار
جرہ شاہین تیز چنگ و زود گیر
صعوہ را در کارہا گیرد مشیر
قاہری را شرع و دستوری دہد
بی بصیرت سرمہ با کوری دہد
حاصل آئین و دستور ملوک
دھخدایان فربہ و دہقان چو دوک

وای بر دستور جمہور فرنگ
مردہ تر شد مردہ از صور فرنگ
حقہ بازان چون سپہر گرد گرد
از امم بر تختۂ خود چیدہ نرد
شاطران این گنج ور آن رنج بر
ھر زمان اندر کمین یکدگر
فاش باید گفت سر دلبران
ما متاع و این ھمہ سوداگران
دیدہ ہا بی نم ز حب سیم و زر
مادران را بار دوش آمد پسر
وای بر قومے کہ از بیم ثمر
می برد نم را ز اندام شجر
تا نیارد زخمہ از تارش سرود
می کشد نازادہ را اندر وجود
گرچہ دارد شیوہ ہای رنگ رنگ
من بجز عبرت نگیرم از فرنگ
ای بہ تقلیدش اسیر آزاد شو
دامن قرآن بگیر آزاد شو

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔