Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 3 جنوری، 2014

ہونہار بِروا - 3

    
      غالباً، جون 1999کا ذکر ہے۔ ہمارے سکول میں  چھٹیوں میں کرنے کے لئے بچوں کو مختلف کام ملے۔ جونئیر سیکشن  میں، میں نے ہر بچے کو اپنے اپنے علاقے میں چھٹیوں کے دوران، دستکاریوں، تاریخی عمارتوں، یادگاروں، پرانی تہذیبوں، کاشتکاری، ڈیم، دریا، تفریح گاہوں، جانوروں، پرندوں، حشرات الارض اوردیگر اشیاء کے بارے میں معلومات، تصویریں اور نمونے وغیرہ لانے اور ان کے بارے میں کلاس میں دو منٹ کا معلوماتی لیکچر دینے کا چھٹیوں کے بعد رکھا۔  چونکہ یہ کام بچوں کو پہلی دفعہ ملا تھا لہذا ان کا شوق دیدنی تھا۔ اب چونکہ بہت سے بچے فوٹو گرافی افورڈ نہیں کر سکتے تھے لہذا انہیں پرانی کتابوں سے یا خود ڈرائینگ کر کے تصویر لگانے کی اجازت دے دی۔  عروضہ آٹھویں میں تھی، اسے دس حشرات الارض جمع کرنے کا کام ملا۔
          بچوں کی سکول کی چھٹیوں میں ہر سال کوئٹہ سے کراچی، حیدر آباد، میرپورخاص، نواب شاہ، مورو، سکھر اور واپس کوئٹہ اپنی گاڑی پر تمام رشتہ داروں سے ملتے، مہینے کی چھٹیاں، جنوری میں گذار کر واپس کوئٹہ آجاتے، میرپورخاص میرا اور نعیم کا آبائی شہر ہے میں نے ابن رشد گرلز کالج سے 1978میں گریجویشن کی، 1977میں میری منگنی نعیم سے ہوئی یہ میرے بھائی کے دوست تھے، ہم بہنوں نے ان کا نام لمبے کانوں والا فوجی رکھا تھا۔ یہ بڑی مزیدار داستان ہے۔ موقع ملا تو آپ کو ”فوجی کی بیوی“ میں ضرور سناؤں گی۔  ”ہونہار بروا“ دراصل میرے چاروں بچوں کی داستان ہے۔ ابتداء میں نے آخری بیٹی عروضہ سے کی ہے۔کیوں کہ ان تینوں میں سب سے ذہین اور محنتی عروضہ، سائر ہ ذہین ہے، ارسلان صرف محنتی ہے اور ارمغان کی صرف یاداشت  بہت تیز ہے  ایک رات پہلے پڑھا ہوا سبق وہ فل سٹاپ اور کامے تک لکھ سکتا ہے۔ 
          نعیم کی پوسٹنگ حیدرآباد سے کوئٹہ ستمبر 1991میں ہوئی، درمیان میں نعیم ڈیڑھ سال کے لئے سیاچین پوسٹ ہوئے۔ لیکن ہم لوگ  کوئٹہ ہی میں رہے۔ سیاچین کے بعد نعیم نے اپنی پوسٹنگ واپس کوئٹہ کروا لی۔ کوئٹہ ایسی جگہ ہے جہاں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے افسر یا جوان کے علاوہ کوئی پوسٹ ہونا نہیں چاہتا اور فوج کی پالیسی کے مطابق، کوئٹہ کے رہنے والے کو ئٹہ صرف دو سال کے لئے یا پھر  Compassionate Groundپر ہی پوسٹ کیا جاسکتا ہے۔ نعیم کا تعلق کوئٹہ سے اس طرح تھا کی ان کے والد فوج میں تھے۔ یہ غالباً پانچویں جماعت سے نویں تک کوئٹہ میں رہے۔ دسویں کا امتحان انہوں نے میرپورخاص سے دیا۔  لہذا کوئٹہ ان کے لئے دوسرا گھر سمجھیں۔  کوئٹہ سے ہم لوگ اٹک آئے تو گرمیوں کی چھٹیوں میں میرپوخاص جانا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔چنانچہ ہم، مری نتھیا گلی، ایبٹ آباد گھومنے پھرنے جاتے۔
          لہذا جولائی میں ہم اپنے ٹور پر نکلے، موٹر وے ان دنوں نئی نئی بنی تھی ہم نے غلطی سے گاڑی موٹر وے پر موڑ دی۔ پنڈی سے لاہور تک کا سفر ایک تھکا دینے والا سفر تھا جو بالکل کراچی سے کوئٹہ  کے سفر سے ملتا جلتا تھا۔پوری سڑک پر صرف ہم نہ کوئی آدم نہ آدم زاد، کہیں کہیں راستے میں سڑک پر کام کرنے والے لوگ یا اوور ٹیک کرتی ہوئی اکا دکا گاڑیاں نظر آتیں، اس سے کہیں بدرجہا بہتر، جی ٹی روڈ کا سفر تھا۔ بہرحال کلر کہار کے پاس ہمیں ایک کھچوا سڑک پار کرتا نظر آیا۔ عروضہ  نے دیکھا تو شور مچا دیا کی ایک Living Thing مل گئی نعیم نے گاڑی روک کر کچھوا پکڑا، عروضہ کی ضد کہ کچھوا پسنجر سیٹ کی پیروں کی جگہ میں رکھا جائے جہاں میں بیٹھی، مجھے کچھوے سے ڈر بھی لگتا  اور گھن بھی آتی۔ بہرحال طے پایا کہ کچھوا ہم واپس چھوڑ دیں یا ڈکی میں رکھیں اور واپسی پر پھر کوئی نہ کوئی کچھوا مل جائے گا ہم لے لیں گے۔ عروضہ رسک لینے پر تیار نہ تھی، چنانچہ وہ کچھوا ڈکی میں رکھنے پر تیار ہو گئی۔ ڈکی میں موجود سامان کو ایک طرف کھسکایا۔  کچھوے کو پانی اور بلحاظ حجم کچھوا دو دن کے راشن کے ساتھ رکھ دیا۔ اور ہم چل پڑے۔کچھوا ڈکی میں کیا رکھا کہ ہماری مصیبت آگئی ہر پچاس کلو میٹر کے بعد کچھوے کو دیکھا جاتا کہ وہ زندہ ہے کھانا کھا رہا ہے، پانی پی لیا ہے۔ جہاں راستے میں ہم ریسٹ کرتے کچھوے کو زمین پر چھوڑا جاتا تاکہ وہ ہماری طرح  ٹہل کر اپنی ٹانگیں سیدھی کر لے۔ خدا خدا کر کے ہم نعیم کے چچا کے گھرلاہور پہنچے وہاں کچھوے کو صحن میں چھوڑا۔ تو مرغوں نے کچھوے کو دشمن سمجھ کر اس پر حملہ کر دیا اور ٹھونگیں مارنی شروع کر دیں۔ اب عروضہ کو سمجھ نہ آئے وہ کیا کرے آخرکار کچھوے کو ٹوکرے میں ڈھک کر اس پراینٹ رکھ دی۔ تو مرغیوں نے ٹوکرے کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔وہ حیران ہو کر ٹوکرے کو ٹھونگیں مارتیں کہ اُن کے میٹرنٹی ہوم میں یہ کون مردوا گھسا ہوا ہے۔
          لاہور میں ہم  1988میں سال رہے پھر دسمبر میں نعیم کی والدہ  کی وفات پر نعیم نے اپنی پوسٹنگ گھر کے نزدیک حیدرآباد کروا لی۔ لاہور میں گھومنے کی بے شمار جگہیں ہیں۔ طے یہ پایا کے رشتہ داروں اور پرانے دوستوں کو ملنے کے علاوہ  چڑیا گھر  اور واپسی میں جی ٹی روڈ سے واپس جاتے ہوئے۔ بادشاہی مسجد اور یادگار پاکستان دیکھیں گے۔چڑیا گھر میں عروضہ کا واحد  بچپن پسندیدہ جانور ”ہاتھی“ ہے۔ کوئیٹہ پوسٹنگ کے وقت ہم کراچی سے بذریعہ کارگئے تھے تو کراچی چڑیا گھر میں۔ ایک ہاتھی کے چھوٹے بچے نے عروضہ سے لے کر پاپ کارن کھائے۔ تب سے ہاتھی عروضہ کا  پسندیدہ جانور ہو گیا۔ کوئٹہ پہنچ کر عروضہ نے ضد شروع کردی کہ اسے ہاتھی کا بچہ ”ٹم ٹم“ چاہیئے۔  
          ”ٹم ٹم“ عروضہ کا بچپن سے دوست ہے۔ جب وہ ڈیڑھ سال کی تھی تو نعیم نے اسے باقی بچوں کی طرح کہانیا ں سنانی شروع کر دیں۔ جس کا اہم کردار،  ہاتھی ’کا بچہ ’ٹم ٹم“  تھا جس پر بیٹھ کر عروضہ جنگل کے دوسرے سرے پر اپنی دوست سے ملنے جاتی، کہانی کہانی میں نعیم، نظمیں، گنتی اور حساب  سکھاتے،اس طرح بچوں کی تربیت بھی ہوتی اور وہ تعلیم بھی حاصل کرتے۔ آج کل نعیم اپنی نواسی کو اسی کہانی کا ری پلے ماڈرن انگلش نرسری رہائم، میتھ وغیرہ کے ساتھ سنا رہے ہیں۔ بہرحال  کراچی کے ”ٹم ٹم“  نے عروضہ کو باقی جانوروں کے ساتھ، ”ٹم ٹم“  رکھنے کی خواہش بیدار کر دی۔ دونوں باپ بیٹی نے  1991ستمبر میں فیصلہ کیا کہ عروضہ جتنے پیسے جمع کرے گی اُتنے اُس میں نعیم اور میں ملائیں گے اور پھر ہاتھی کا بچہ خریدیں گے جو نیا نیا پیدا ہوا  افریقہ سے چھ ہزار کا ملے گا یا نعیم کے کلاس فیلو اشرف انکل جو افریقہ میں ہیں جنگل سے پکڑ لیں گے۔ لائسنس کی فیس، گورنمنٹ کی اجازت اور بحری جہازکا افریقہ سے کراچی تک کا کرایہ۔کراچی سے کوئٹہ تک کا ٹرک کا کرایہ، ہاتھی کی رہائش کا کمرہ  وغیرہ کے اخراجات اُس وقت حساب لگائیں گے۔ 

چنانچہ عروضہ نے بازار سے سب سے بڑی گلک خریدی اور بچت شروع  ہو گئی۔ جتنے پیسے وہ ملاتی اتنے نعیم اور مجھے بھی ملانے پڑتے۔ عید ی۔ امتحان پاس ہونے پر نقدی۔ آنے والے مہمانوں کی طرف سے دئیے جانی والی رقوم سب اُس گلک کی نذر ہونے لگیں۔  روزانہ حساب بنایا جانے لگا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ عمران خان اپنی والدہ کی یاد میں کینسر ہسپتال بنانے کوئٹہ آیا  آرمی پبلک سکول سٹاف کالج  بھی آنا تھا مگر وقت کی کمی کے باعث غالباً نہیں آیا  تمام بچوں نے اپنی بچت ہسپتال کو دی عروضہ نے بھی اپنی پوری گلک  ہسپتال کی نذر کر دی۔ گلگ توڑنے لگے تو عروضہ نے کہا ایسے ہی بھجوا دیں توڑیں نہیں اور ایک کاغذپر لکھے مکمل حساب کے ساتھ کہ کس کس نے اس میں ہاتھی کا بچہ ”ٹم ٹم“  خریدنے کے لئے   گلک میں رقم ڈالی ہے جو غالباً ڈیڑھ سال میں 2,753/-روپے بن چکی تھی۔ عمران خان نے اپنی ماں کی یادگار بنانے کے لئے اپنی تمام جمع پونجی زمین خریدنے اور عمارت کا سٹرکچر بنوانے میں لگا دی۔ صدقہ، فطرات، نذر و نیاز مسلمانوں نے دئیے اور ڈونیشن غیر مسلم سے ہسپتال تعمیر ہوا۔ لیکن حیرت ہوتی ہے کہ عمران خان نے پہاڑی پر ہزاروں کنال کا بنی گالہ میں محل بنانے کے لئے رقم کہاں سے لی؟ 
          لاہور میں گھومنے کے بعد بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ اوریادگار پاکستان گھومنے کے بعد ہم دو بجے گجرانوالہ پہنچے جہاں نعیم کی ایک یونٹ تھی جس میں انہوں نے سروس کی تھی۔ یونٹ آفیسر نے میس میں ہمارے رہنے کا انتظام کیا۔ نعیم اور ان کے دوست گالف کھیلنے چلے گئے ہم سب ان کے دوست کے ہاں پانچ بجے چائے پر گئے۔ مغرب کے وقت واپس آئے تو ہمارے گیسٹ روم کے باہر  لوگوں کا رش پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایک خوفناک سانپ ہمارے کمرے میں گھس گیا ہے۔ روم اٹینڈنٹ نے درواز بند کر دیا ہے اور کسی کو اندر نہیں جانے دے رہا، سانپ مارنے والی پارٹی بھی کھڑی ہے۔ سانپ کا سن کر عروضہ ہائپر ہو گئی کہ میں پکڑتی ہوں۔ پارٹی انچارج  اسے خوفزدہ کرے کہ بیٹی بہت خوفناک سانپ ہے۔ اندر مت جائیں۔ تھوڑی دیر بعد نعیم آگئے۔ انہوں نے سانپ پکڑنے والی پارٹی کودیکھا اور پو چھا ”چاند پر جانے کا ارادہ ہے“  نائب صوبیدار انچارج نے جواب دیا،”نہیں سر، یہ سنیک کلنگ پارٹی ہے“۔  نعیم  نے انچارج کے ہاتھ سے چار فٹ کی چھڑی لی اور عروضہ کے ساتھ، گیسٹ روم میں داخل ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد عروضہ سانپ ہاتھ میں پکڑ کر نکلی، 

 پارٹی انچارج اور باقی لوگ حیران رہ گئے۔ پارٹی انچارج بار بار کہے سانپ کو نیچے ڈال دیں اسے مارنا ہے۔ نعیم نے سمجھایا کہ اس کے دانت نکال دئے ہیں اب یہ تین مہینے تک کے لئے صرف کھیلنے والا سانپ ہے۔ یہ ایک پانچ فٹ لمبا کوبرا سانپ تھا۔ عروضہ کی خوشی کے مارے برا حال کہ ایک اور
Living Thingمل گئی جو سب سے اہم ہے۔  نعیم نے وہاں سانپ پکڑنے والی پارٹی کو بغیر مارے سانپ پکڑنا سکھایا  انہوں نے کہاں سے سیکھا یہ الگ داستان میں سنئے گا۔  دوسرے دن یونٹ سے ایک چھوٹا سا بکس بن کر آگیا جس کے اوپر ہوا کے سوراخ تھے۔ یہ  ”وائیکنگ“ کوبرا کا گھر تھا،  اس نے ہمارے ساتھ اٹک جانا تھا۔ 
          گجرانوالہ سے ہم  جہلم آئے جہاں نعیم کی لوکیٹنگ بیٹری تھی جس کو نعیم نے سیاچین کے بعد کوئٹہ میں کمانڈ کیا تھا۔ یہاں ہم دو دن رہے۔ کیونکہ نعیم جہلم میں 1980سے 1983تک رہے۔ یہاں ان کے کافی سویلین دوست بھی تھے اور گالف گراونڈ بھی۔ یہاں ہم اپنے پرانے گھر بھی گئے۔جہاں نعیم کی موٹر سائیکل چوری ہوئی تھی۔ سائرہ کو وہ واقعہ فوراً یاد آگیا۔ گھر میں انفنٹری کے ایک میجر صاحب رہ رہے تھے انہوں نے ہمیں چائے پلائی۔ سائرہ نے موٹر سایکل چوری ہونے کی پوری روئیداد ان کو سنائی۔ سائرہ ان دنوں ڈھائی سال کی تھی۔ ہم اُس کی یاداشت پر حیران رہ گئے۔ میجر صاحب کے دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے ایک بیٹی سات سال اور بیٹا چار سال دونوں نے بڑے مزے سے یہ واقعہ سنا جب سائرہ واقع سنا چکی تو بیٹا کہنے لگا باجی اور کہانی سنائیں۔ ہم سب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
جہلم سے ہم لوگ منگلا کینٹ گئے۔ یہاں نعیم کی وہ یونٹ تھی جس میں وہ حیدر آباد میں سیکنڈ ان کمانڈ رہے۔ یہاں ہم نے منگلا ڈیم اور دیگر تفریحی مقامات دیکھے۔ بچوں کا سب سے پسندیدہ مقام سوئمنگ پول تھا۔ لیکن ایک بات وہ یہ کہ بچے اپنی چھٹیوں کا کام ساتھ ساتھ کرنے کے علاوہ  مضمون ”میں نے چھٹیا ں کیسے گذاریں“ وہ بھی روزانہ کے حساب سے لکھ رہے تھے۔ نعیم کی ہدایات تھیں کہ جب بھی ہم گھومنے کے لئے اپنے شہر سے باہر جائیں گے بچے اس پر مضمون لازماً لکھیں گے، جس پر دو اچھے مضمونوں، کم غلطیاں،اہم واقعات اور خوبصورت جملوں پر الگ الگ انعام ملتا یہ اور بات کہ چاروں بچے کوئی نہ کوئی انعام حاصل کر لیتے۔  کھیل کھیل میں تعلیم اور  بچوں کی نفسیات نعیم کا پسندیدہ موضوع ہے لیکن وہ مغربی نفسیات سے زیادہ متاثر نہیں۔ اُن کے خیال میں دس بہترین باتوں سے سمجھانے کے بجائے ، ایک جوتا یا تھپڑ  بچے کو زیادہ سمجھ دلاتا ہے۔ ”کھلاؤ سونے کا نوالہ اور نقصان دہ شرارت پر دیکھو شیر کی نظر سے“  جس سے میں متفق کبھی نہیں رہی لیکن کیا کروں میری واحد مجبوری، بیوی ہونا ہے۔

اب نعیم کی نواسی نے ، نعیم کو لوہے کے چنے چبوائے ہوئے ہیں اور میں سوچتی ہوں کہ باپ اور نانا میں کتنا فرق ہوتا ہے ۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭
 پچھلا مضمون ۔ ۔ہونہار برِوا -2  ٭٭ ٭٭  اگلا مضمون ۔ ۔  ہونہار برِوا -4
 
٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔