Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 13 جنوری، 2018

ڈاکٹر رامیش فاطمہ-سیکس ایجوکیشن - وقت کی ضرورت

سیکس ایجوکیشن کا تعلق صرف ریپ سے یا صرف بچے پیدا کرنے سے نہیں ہوتا  اور نہ ہی  ہر انسان ریپ کی حد تک جا سکتا ہے۔
 سو چیزیں ہوتی ہیں اور، جس دن آپ نے ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کی فہرست بنائی، تو اتنے قریبی رشتے اس کی زد میں آئیں گے کہ یہ سزا والے معاملے پہ نعرے لگانے والے چپ چاپ دروازے بند کر لیں گے۔
ایک بات یاد رکھیے گا ،
سیکس ایجوکیشن سے  نقصان کسی بچے کو نہیں ہو گا، لیکن فائدہ ایک کو بھی ہو جائے تو بہت بڑی بات ہے۔ شاید آپ لوگوں کو واقعی اندازہ نہیں ہے کہ ریپ کے علاوہ بہت کچھ ہوتا ہے جو والدین کے علم میں نہیں ہوتا یا پھر وہ جان کر بھی چپ رہنے کا کہتے ہیں۔ کہیں بات نکلی تو بدنامی ہوگی ۔
مجرم کی سزا کا مطالبہ بجا ہے، لیکن ایک مجرم ہر بچے کو ہراساں نہیں کر تا۔ ہر بچے کا مجرم الگ الگ ہے، شاید دو چار چھ دس کا کوئی ایک ہو ۔
کبھی سوچا ہے  کہ:
٭- کچھ لوگ بچیوں کو گود میں بٹھا کر اپنی تسکین کا سامان کر لیتے ہیں
٭- کچھ مذاق میں  ران پر  ہاتھ پھیرتے ہیں -
٭- کچھ کی تسلی  کولہوں پر ہلکا سا تھپڑ مارنے یا غیر محسوس طریقے پر ہاتھ لگانے  سے ہو جاتی ہے-
٭-  کوئی سینے پہ چھو کر لذت حاصل کرنا چاہتا ہے-
٭- کوئی خوشی میں بچیوں کو گلے سے لگانے کی حرکت کرتے ہیں ، اور سر پر ہاتھ پھیر کر لوگوں کو توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اِ ن  حرکات کو ریپ نہیں کہا جاسکتا  ، کیوں ٹھیک ہے نا؟
لیکن جو کر رہے ہیں وہ غلط ہی ہے ، کیوں کہ بچہ اِن حرکات کو  عام سمجھنے لگے گا ، لیکن  دھچکا وہاں لگے گا جب کوئی ذہنی بیمار اِن حرکات سے آگے بڑھے گا ۔
یہ تو آپ کو معلوم ہے نا ، کہ انسانی جسم میں کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں ، جہاں کسی دوسرے  کے ہاتھ کے مساس سے لطف آتا ہے ؟
  بچے ناسمجھ ہوتے ہیں  بس اِسی ناسمجھی  کا فائدہ  جنسی ذہنی بیمار اُٹھا جاتے ہیں ۔ اُس کے بعد بچوں (لڑکیوں یا لڑکوں) کو بلیک میل کیا جاتا ہے ۔
کبھی کبھار انسان کو سمجھدار ہونے کا ثبوت دینا چاہیئے،  اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ آپ چوبیس گھنٹے بچے کے سر پہ سوار نہیں رہ سکتے، لیکن پیار سے سمجھا سکتے ہیں ، تاکہ کوئی  خطرے کی بات  ہو تو وہ شیئر کر سکے۔
جنسی کرائم ریٹ دنیامیں کہیں بھی  زیرو نہیں۔ بہت کیئر فل لوگوں کے ساتھ بھی مس ہیپس ہوتے ہیں ، عقل مندی کے تقاضوں میں سے ایک اگر سزا کا مطالبہ ہے تو ایک آگاہی بھی ہے۔
آپ شاید اس بات کو ایسے نہ سمجھ سکیں یا اس کی نوعیت نا سمجھیں ، پرسوں میرے چچا کی سات سالہ بیٹی ساتھ بیٹھی تھی اسے میں عامر خان والی ویڈیو دکھا رہی تھی، دیکھ کر کہتی ،
" باجی  اس نے ایک جگہ نہیں بتائی"
میں نے پوچھا، " کونسی؟"
"  لپس پہ بھی کسی کو کِس نہیں کرنے دینا چاہیئے!   ٹھیک کہہ رہی ہوں نا؟"
میں نے کہا ،" بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو۔ کوئی ایسا کچھ بھی کرنے کی کوشش کرے تو آپ نے مجھے بتانا ہے، کسی  بھی سہیلی کے ساتھ ممی بابا کو بتائے بغیر نہیں جانا"
خیر بات صرف ریپ کی نہیں ہے یا کم از کم میں صرف ریپ تک یہ معاملہ محدود نہیں کرتی۔
ہمارے ہاں ریپ سروائیورز کے لیے بھی معاشرہ کوئی آئیڈیل نہیں ہے ، نہ انہیں خاندان سپورٹ کرتا ہے اور نہ  ہی نفسیاتی مدد کا کوئی خاص نظام موجود ہے۔ یہ ڈی سینسیٹائز ہو جانا الگ بات ہے لیکن ہر بندہ نہیں ہو سکتا ۔
جیسے ہر انسان کے ساتھ ضروری نہیں کہ ریپ یا سکچوئل اسالٹ یا ہیراسمنٹ ہو پھر بھی ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا ہوتا ہے۔
حقیقت کو جھٹلانے یا بھاگنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، مجھے سزا پہ اعتراض نہیں شاید کسی کو بھی نہیں ہو گا۔ پہلے بھی لکھا ہے کہ یہ معاملہ محض ریپ کا نہیں ہے، میں ان خواتین سے بھی ملتی ہوں جو اپنے شوہر کے ساتھ نارمل جنسی تعلق نہیں رکھ پاتی ہیں۔ کیونکہ کہیں بہت پہلے کسی کزن کسی رشتے دار نے اس طرح انہیں چھو کر ستایا ہوتا ہے۔ میاں کے قریب آنے پر انہیں وہی وقت وہ اذیت یاد آنے لگتی ہے۔
آئی ایم سوری میں یہ باتیں یہاں لکھ رہی ہوں، جس کی اجازت ہمارا معاشرہ نہیں دیتا ،  لیکن یہ سچ ہے۔ اپنے ہی جسم یا وجود کے ساتھ ایسے کسی احساس کا جڑ جانا اور پھر اس پر کسی سے بات نہ کر سکنا خاصا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ہم لوگ بہت سی چیزوں کو عام سمجھتے ہیں لیکن سمجھنا نہیں چاہیئے۔
فیصل آباد میں جس لڑکے نے بتایا کہ اس کے قاری صاحب بھی ایسا ہی کرتے تھے اور اس نے بھی جواباً آگے بچوں کے ساتھ ایسا کیا،  شاید یہ ایک مثال سمجھنے کے لیے کافی ہو کہ ان معاملات پر خاموشی اختیار کرنا ایک سائیکل یا چین ری ایکشن یا کچھ بھی کہہ لیں اسے جنم دیتا ہے۔
سکول کالج یا یونیورسٹی میں ہر بندہ ایسا نہیں ہوتا لیکن کوئی ایک ایسا بھی  ہوتا ہے۔ باقی آپ کی مرضی۔
یہ سب واقعات کسی نا کسی کے بھائی بیٹے شوہر بہنوئی باپ رشتےدار کزن نے ہی کیے ہوتے ہیں ۔تو آپ یا کتنی خواتین انہیں پھانسی کی سزا سنائیں گی؟
شاید کہنے کو آسان ہو کہ اپنے میاں کو یا باپ کو پھانسی لگا دیں گے۔ لیکن کہنے اور عمل کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ شاید ہم کہیں،  نہیں ہمارے رشتےدار تو سب اسلام کو ماننے والے اور شریعت کے پابند ہیں وہ تو ایسا کر ہی نہیں سکتے !
لیکن اس ملک کے ستانوے فیصد لوگ ایسے ہی ہیں اور انہیں میں سے یہ سب کرنے والے بھی موجود ہیں۔ ریپ کرنے والے بھی، چھاتی یا پشت پہ ہاتھ پھیرنے والے بھی، گود میں بٹھا کر تسکین کا سامان کرنے والے بھی اور چھونے والے بھی۔
مزید یہ کہ جو لوگ یہاں بہت سادے بن کر یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سیکس ایجوکیشن سے  ملک میں بےحیائی وغیرہ عام ہو جائے گی یا لوگ شادی کے بغیر سیکس کرنے لگیں گے ۔تو ان سادہ دلوں کو جاننا چاہیئے یا اعداد و شمار اکٹھے کرنے چاہیئے تاکہ علم ہو ایسا واقعی ہو رہا ہے۔
ان لوگوں کو واقعی سیف سیکس پڑھانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔لیکن اگر معاملے سے بھاگنا ہے ۔تو بس اتنا کہہ دیں کہ یہ اسلامی معاشرہ ہے یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا! 
لیکن کیا ایسا ہے ؟
 
 کاؤنسلنگ ، تعلیم،آگاہی شعور دینا اپنی اولاد کو ہر مرحلے پہ ایک ضروری عمل ہے ۔ 

بشکریہ ڈاکٹر رامیش فاطمہ۔ - - -  


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


  
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔