Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 6 جنوری، 2018

ناقابلِ یقین، بیویاں !

 میری دوسری شادی ہوجائے گی سوچا نہ تھا معذرت دوستوں کو اطلاع نہ کرسکا اور آناً فاناً نکاح ہوا اور رخصتی ہوئی ۔ 

قصہ یوں ہے ، کہ ہماری بیگم نے  ایک قرانی فورم جائن کر لیا  ، جہاں محلے کی ساری خواتین  درس سننے کے لئے جایا کرتی تھیں ،  بیگم کو ایک بات بڑی عجیب لگی وہ یہ کہ وہاں پر آنے والی ساری خواتین کے شوہروں کی کم از کم دو بیویاں تھی، جنہیں ہم جولیوں کے لقب سے مخاطب کیا جاتا ، اورہم جولیاںساتھ  ساتھ درس پر آیا کرتیں  میری بیگم    کو اُن میں رتّی برابر بھی حسد یا مقابلے کا عنصر نظر نہیں آتا -
درس دینے والی آپا  کے سوال کا بہترین جواب دینے والی اپنی ہم جولیوں  کو سب سبحان اللہ کہہ کر ستائش سے نوازتیں ، درس والی آپا  کی دونوں ہم جولیاں بھی درس میں آتیں ۔کیوں کہ  وہ سب قرآنی سوچ پر تھیں۔ لہذا سادے کپڑے مگر اچھے سلے ہوئے  مناسب رنگوں کے انتخاب  کے ساتھ ، کوئی میک اپ نہیں ، میک اپ ضرور کرتیں مگر گھر میں صرف شوہر کے لئے  اور وہ بھی آنکھوں میں ہلکا سا سرمہ  لیکن  شوہر کے گھر سے ملازمت یا بزنس پر  نکلتے ہی منہ دھو کر سادہ چہرے میں رہتیں ، اِس سادگی نے اُن سب قرآنی خواتین کے چہرے پر ملکوتی حُسن پیدا کر دیا تھا ۔
میری بیوی میں پہلی تبدیلی تو یہ آئی کہ اُس نے اپنا تمام میک اپ کاسامان ، الماری میں بند کر دیا ۔ اور سرمہ لگانا شروع کر دیا ، پہلے دن میں جب گھر میں داخل ہوا اور بیوی کو سادے چہرے میں دیکھا  توخیال آیا شائد آنکھوں میں درد ہوگا اِس لئے سرمہ لگایا ہے ۔
پوچھا ،" بیگم اگر آنکھوں میں درد ہے تو بتاتیں  دوائی لیتا آتا "
بولیں ۔" نہیں بس ویسے ہی دل کر رہا تھا "
بولا، " خوب ، لیکن اچھا لگ رہا ہے "
اُس کے بعد  بیگم کے سرمے کا عادی ہوگیا ، دوسرا یا تیسر ادن تھا ، گھرمیں داخل ہوا  تو ایسا لگا  جیسے ماضی میں چلا گیا ہوں ۔ اماں تو خیر پرانے سٹائل کے کپڑے پہنتی ہی تھیں ۔ لیکن بیگم کو دیکھ کر لگا کہ بشریٰ خالہ، زیبن پھوپّی  اور شکورن تائی کے دور میں پہنچ گیا ہوں ۔
پوچھا :"کیا کہیں عورتوں کا فینسی ڈریس شو ہورہا ہے ؟
 
بولیں ۔" نہیں بس ویسے ہی ایسے کپڑے پہننے کو  دل کر رہا تھا "
بولا، " خوب ، لیکن اچھا لگ رہا ہے " 

 ایک دن کا ذکر ہے کہ میں گھر جلدی آگیا ، راستے میں مارکیٹ سے گذرا تو دور سے ایک خاتون نظر آئی ، اچٹتی نظر ڈالی  بیگم کی شباہت لگی  ۔ گھر آیا ، سلام کیا ،  امّاں  نے جواب دیا بیوی کی چہکتی آواز سنائی  نہیں دی ، امّاں نے  پوچھا ۔
" طبیعت ٹھیک ہے بیٹا ؟
جلدی گھر آگئے ہو ؟"
" امّاں ایسی کوئی بات نہیں  ایک دوست اِس طرف آرہا تھا اُس نے لفٹ دے دی ، گھنٹے کا سفر دس منٹ میں طے ہوگیا " کہتا ہوا  کمرے میں گیا بیگم نہیں تھیں ! 

میرا سات مرلے کا گھر ہے ، جو  بیگم نے  ڈیزائن کیا تھا   ۔ اوپر چار کمرے اور نیچے تین  کمرے بڑا لاونج   اورکچن ، ایک کمرے کو  ڈرائینگ روم  بنایا ہے ، جس میں 6 افراد کے بیٹھنے کی جگہ ہے ، مہمان آتے ہیں تو مرد ڈرائینگ روم اور عورتیں لاونج میں بیٹھتی ہیں ۔ بیگم کا کہنا تھا کہ کمرے صرف سونے کے لئے ہوتے ہیں، بڑے کمرے بناؤ تو پھر رہنے والے اپنے اپنے کمروں میں قید ہوجاتے ہیں ۔
میں آفس سرکاری بس پر جاتا ہوں جو سو گز دور مین سڑک پر آتی ہے اور سب کو لیتی ہوئی  آفس جاتی ہے اور واپسی پر یہی روٹین ہے۔ کار پر جاؤں تو وقت کی بچت ہوتی ہے لیکن پیٹرول ضائع ہوتا ہے پھر محلے میں دو اور افراد ہیں جنھیں لینا پڑتا تھا ، جلدی تو وہ کبھی نہیں نکلے ۔ ہمیشہ پانچ یا دس منٹ لیٹ ہوجاتے ۔  کوئی چھ مہینے پہلے کی بات ہے  گاڑی خراب ہو گئی پورا ہفتہ بس میں جانا پڑا ، ایسا مزا آیا کہ کیا بتاؤں  اور یوں بس کا عادی ہوگیا  ۔

کوئی دس منٹ بعد واش روم سے نکلا اور لاونج  میں  آیا  کہ دروازہ کھلا اور  بیگم داخل ہوئی،  یا وحشت ، تو اِنہیں ہی مارکیٹ میں دیکھا ۔ وہ چہرہ ہی نہیں تھا جو گھر سے نکلتے ہوئے نظر آتا تھا ۔
" آج جلدی آگیا ہوں ، کیا آپا کے ہاں ایک چکر نہ لگا آئیں ؟  میں نے بھائی صاحب سے کچھ باتیں ڈسکس کرنا ہیں"
" میں یہ سامان رکھ دوں ، پھر چلتے ہیں ، بچوں کو رہنے دیں وہ امتحان کی تیاری کر رہے ہیں ، امّاں آپ نے چلنا ہے  آپا کے ہاں ؟"  بیگم نے ایک سانس میں کہا اور کچن کی طرف بڑھ گئی وہاں سامان رکھا واپس آئی -
" چلیں " بولیں
" آپ نے تیار نہیں ہونا ؟" میں نے حیرانی سے پوچھا
" میں تیار ہوں ، امّاں چلیں !"  بیگم بولی
" نہیں بیٹا تم لوگ جاؤ ، میرا ارادہ نہیں " امّاں بولیں
بیگم میں ایک اور تبدیلی دیکھی ، کہ وہ جب بھی میرے ساتھ شاپنگ پر باہر جاتیں ، ساتھ بچے ہوں یا اماں  وہ کسی نہ کسی اکیلی خاتون کا انٹرویو ضرور لیتی ۔ درس پر جاتے ہوئے ڈھائی یا تین ماہ ہوچکے تھے ، میں نے یہی خیال کیا ، کہ اب بیگم نے بھی ہلکی پھلی تبلیغ شروع کر دی ہے ۔
پچھلے ہفتے کی بات ہے کہ بیگم نے کہا ،" آج کھانا باہر کھاتے ہیں "-

 امّاں دونوں بچے اور ہم  پار ک پہنچے ، شہر کا بہت بڑا پار ک ہے ، لوگ اپنی  اپنی فیملی کے ساتھ پارک میں پکنک منانے آتے  ہیں ۔ پارک میں پہنچے  اپنے پسندیدہ درخت کے پاس چادریں بچھا دیں ، میں اور بچے  پکنک بال سے کیچ کیچ کھیلنے لگے ، بیگم کی کوئی  ہم عمر سہیلی مل گئی وہ ، بیگم اور امّاں آپس میں باتیں کرنے لگیں ۔ اُن خاتون نے ہمارے ساتھ کھانا کھایا ۔  کھانے کے بعد  بیگم وہ خاتون اور دونوں بچے بال سے کھیلنے لگے ، امّاں اُنہیں دیکھ کر خوش ہو رہی تھیں میں امّاں کے پاس لیٹ آنکھیں موند لیں ، نجانے کب آنکھ لگ گئی  ، پیالیوں کی کھنک سے آنکھ کھلی ، چائے پی وہ خاتون اور بچے آپس میں ایس گھل مل گئے جیسے عرصے سے جانتے ہوں ، بعد میں معلوم ہوا کہ بیٹی کے سکول میں  ٹیچر ہیں ، عمر چالیس سال ہے ، ماں باپ ہیں  شادی نہیں ہوئی ہے ، کیوں کہ کوئی رشتہ ہی نہیں آیا ۔
بیگم نے بتایا  کہ میری  پرائمری اور ہائی سکول کلاس فیلو تھی ہم پورے دس سال، ایک ساتھ رہتے اور  ایک ہی میز پر بیٹھتے رہے تھے ،بیٹی کے سکول گئیں تو وہاں اچانک ملاقات ہوئی ، معلوم ہوا کہ کسی دوسرے سکول سے  یہاں پوسٹنگ ہوئی  تو

پرسوں  یعنی جمعرات کی بات ہے ، کہ بیگم نے کہا،
" میری خواہش ہے کہ آپ کی دوسری شادی کروا دوں ، میر ابوجھ بھی ہلکا ہوجائے گا ، اور ایک بے چاری کو ٹھکانہ اور اچھا شوہر مل جائے گا "
" تلاش کر لو کوئی خاتون مجھے بتادینا ، میں  تیار ہوں ، اُس کو سنبھالنا  تم ہی نے ہے ۔ " میں نے جواب دیا
" وعدہ ؟" بیگم بولی
" پکّا وعدہ " میں نے ہنس کر جواب دیا ۔
تو دوستو ! جمعہ کا دن تھا ، آفس سے واپس آیا ۔
بیگم نے کہا ،" آج کہیں چلنا ہے ، کپڑے میں نے رکھ دیئے ہیں نہا کر تیار ہو جائیں " 

میں نہا کر تیار ہوکر نکلا ، ہم سب روانہ ہوگئے ۔اور کوئی کلومیٹر دور بس سٹاپ کے بعد ایک محلے میں پہنچے ، وہاں ہمارا استقبال ایک بوڑھے مرد نے کیا گھر میں داخل ہوئے  زمین پر سفید چاندنی بچھائی ہوئی تھے ، وہ خاتون بھی شربت کے گلاس لے کر داخل ہوئی ، جو پکنک پر ہمارے ساتھ تھی ۔وہ بھی گلاس سب کو دے کر ایک طرف بیٹھ گئی ، ہم آٹھ افراد بیٹھے تھے  ۔ شربت پینے کے بعد  بیگم نےکان میں پوچھا-
" آپ اپنے وعدے پر قائم ہیں ؟ "
" کونسا ؟ " میں نے پوچھا ۔
" دوسری شادی ، جس کا آپ نے وعدہ کیا تھا ؟"
" قائم ہوں!  گھر چل کر بات کریں گے " میں نے مذاق میں ٹالتے ہوئے کہا ۔
" میں مذاق نہیں کر رہی ، آپ کہیں پیچھے تو نہیں ہٹ رہے " بیگم نے ٹھوس آواز میں کہا ۔
" نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں لیکن یہ کیا شروع کر دیا ہے ، یہاں !"میں نے ہکلاتے ہوئے کہا ۔
بیگم بولی " انکل  ، آنٹی    جیسا میں نے آپ کو کہا تھا کہ میں آپ کی بیٹی کو اپنی ہم جولی بنانا چاہتی ہوں ، میرے شوہر نے اُس کا انتخاب مجھ پر چھوڑا ہے ۔ کیا آپ لوگ رضامند ہیں ؟"
تو دوستو قصہ مختصر جب ہم گھر واپس ہوئے  تو پانچ کے بجائے  چھ افراد تھے ۔ دو بچے اور چار بڑے جن میں ایک دلہن تھی ۔ بیگم  گھر پہنچتے ہی اپنی ہم جولی کو اوپر کے کمرے میں لے گئی مجھے بھی اوپر آنے کا اشارہ کیا ، میں گیا تو کمرہ دلہن کے لئے سجایا جا چکا تھا ۔
کیا آپ نے کبھی ایسا سنا کہ ایک  عورت  نے اپنی ہم مزاج  عورت تلاش کرکے اپنے شوہر کی شادی کرائی ہو ، جس پر کل خرچ   دلہن کا  سادہ جوڑا ،دلہن  کے گھر ایک ڈش کھانا  اور چار کپڑوں میں دلہن کی رخصتی -
ہے نا،   ناقابلِ یقین ؟ 

لیکن یہ ہوا کیسے ؟
 درس والی آپا اپنے شوہر کے ساتھ ،شادی کے دوسرے سال حج پر گئیں ۔ اُن دونوں کا ارادہ تھا  کہ ایسا حج کریں گے جو
تَوْبَةً نَّصُوحًا بن کر  تمام گناہوں کا کفارہ ہو ، اُن دنوں حج  پر جانے والے اپنی مرضی کی رہائش اختیار کرتے ، لہذا اُن کے گروپ نے بھی  ایک عربی کے گھر میں رہائش لی ، جہاں عورتیں الگ اور مرد الگ ، عورتوں نے کچن کی ذمہ داری بھی سنبھال لی تھی ، حج سے پہلے اِن کے گروپ نے مدینہ جانا تھا اور واپسی پر حج کرکے پاکستان آنا تھا ، جب یہ مدینہ جانے لگے تو آپا کے شوہر کو  مکہ بدّو نے اپنے ساتھ رہنے کی خواہش ظاہر کی جو اُنہوں نے رد و قدح کے بعد قبول کر لی ، حج کے بعد یہ بدّو کے ساتھ اُس کی کار میں خصوصی اجازت نامے کے بعد مدینہ پہنچے ، آپا تو زنان خانے میں چلی گئیں ، جہاں بدّو کی چار بیویاں اپنے  17 بچوں کے ساتھ ہنسی  خوشی رہ رہی تھیں ۔
ساتواں دن تھا جب  ڈھابے سے  چائے پی کر آپا اور اُن کے شوہر ، مسجدنبوی کے فرش پر عصرکی نماز  کا انتظار کر رہے تھے ۔
آپا نے اپنے شوہر سے کہا، " میں چاہتی ہوں کہ آپ میری پسند کی عورت سے دوسری شادی کر لیں "
شوہر نامدار مذاق سے بولے، "میں تو تیسری اور چوتھی کے لئے بھی تیار ہوں ، لیکن پھر آپ کا  کیا بنے گا ؟"
" میں اُن کے ساتھ ہنسی خوشی رہوں گی ،لیکن آپ کہیں اُن کے خاطر میرے لئے  
تَمِيلُواْ كُلَّ الْمَيْلِ  نہ بن جانا ! " آپا نے خوش دلی سے جواب دیا ۔
" ارے نہیں  آپ ہمیشہ خاتونِ اوّل ہی رہیں گی ، وعدہ رہا " 
شوہر نامدار نے ہنس کر کہا ۔
"وعدہ رہا " آپا بولیں ۔
شوہر سمجھے شائد چار بیویوں کے بدّو گھرانے میں رہتے ہوئے بیگم  ، " اجتماعی شعور   یت   Collective Consciousness " کا شکار ہو گئی ہیں ، پاکستان واپس جا کر ٹھیک ہو جائےگی  ۔
اتنے میں اذان ہوئی تو آپا ، اُٹھ کر عورتوں کے حصے کی طرف چلی گئیں ،  اب عشاء کے بعد ہی دونوں نے واپس جانا تھا ۔ یہ روزانہ کامعمول تھا ۔چالیس نمازوں  کے بعد  گروپ کی واپسی مکّہ ہوئی ۔

حج کے بعد واپسی کے دوسرے ہفتے ، آپا نے شوہر کوچھاپ لیا اور اپنی چہیتی سہیلی کو ہم جولی بنا کر لے آئیں ، شوہر کو  دوسری بیوی کےحجلہءِ عروسی  میں داخل  کرانے کے بعد ، سجدہءِ شکر کیا کہ  آج     تَوْبَةً نَّصُوحًا پوری  کر کے وہ اللہ کے سامنے سرخرو ہوگئیں ۔
اپنے شوہر کی تیسری شادی ، اُنہوں نے اپنی ہی ایک ایم اے پاس  شاگرد سے کی ، بانجھ ہونے کی وجہ سے طلاق ہوئی   ، بالوں میں چاندی اترنے لگی تھی، بھائی کے گھر بھاوج  کے رحم و کرم پر پڑی ہوئی تھی،ٹیچنگ سے جو کماتی  بھابی لے لیتی   اور وہ آپا  کے شوہر سے سات سال بڑی ہیں ۔شوہر نے بیگم کے مشن میں ساتھ دینے کے لئے تیسری شادی کر لی ۔
ہے نا،   ناقابلِ یقین ؟ 
مجھے بھی یقین نہیں آیا تھا  ، خواب سالگا تھا ۔ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے ؟
 جہاں  معاشرے میں ، شادی کے انتظار میں  بغیر جہیز کے بیٹھی ہوئی ، یتیم النساء  کے دکھوں سے عورتوں کو متعارف کروایا جاتاہے-

 جہاں درس دینے والیاں ، عورت کوصرف نماز روزہ حج زکاۃ  اور  تسبیح پر نہیں لگاتیں  ! بلکہ 
۔ ۔ ۔  فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً ۔ ۔ ﴿4:3
 کے مطابق ، ہر عورت اپنی حیثیت کے مطابق ، دل بڑ اکر کے کم از کم ایک  یتیم النساء  کو اپنی ہم جولی بناتی ہے ۔ کیوں کہ وہ نہیں چاہتیں  کہ   ،اُن کا شوہر اللہ کی اِس تادیب کا شکار  ہوجائے !
ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ ﴿102:8
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔