پاکستان
کی سپریم کورٹ نے کراچی میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کے3015
ایکڑ میں مزید تعمیراتی کام پر پابندی عائد کرتے ہوئے قومی
احتساب بیورو کو سرکاری زمین کے نجی زمین سے تبادلے کی تحقیقات دو ماہ میں
مکمل کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس مشیر عالم پر
مشتمل دو رکنی بنچ نے پیر یکم جنوری 2018 کو یہ حکم ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے
مبینہ طور پر سرکاری زمین کے نجی زمین سے تبادلے اور اس کی غیر قانونی
طریقے سے الاٹمنٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران دیا۔
سپریم کورٹ میں محمود اختر نقوی نامی شہری نے ایک درخواست دائر کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ہزاروں ایکڑ سرکاری زمین ’کنسالیڈیشن‘ کے نام پر اپنے کنٹرول میں لا کر اس کا نجی زمین سے تبادلہ کر دیا ہے اور اس کارروائی کا مقصد بحریہ ٹاؤن کو فائدہ پہنچانا ہے جس کے نتیجے میں سرکاری خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔
9385.185 ایکڑ
وہ زمین جس پر تعمیراتی کام مکمل ہو چکا ہے : 9140.260 ایکڑ
زمین پر جس پر تعمیراتی کام نہیں ہوا: 244.925 ایکڑ
ایم ڈی اے کی منتقلی نہ ہونے کے باوجود بحریہ ٹاؤن کے زیرِ استعمال زمین: 2271.79 ایکڑ بحریہ ٹاؤن کے زیرِ استعمال زمین ایم ڈی اے کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کو فراہم کی گئی کل زمین:
سپریم کورٹ میں محمود اختر نقوی نامی شہری نے ایک درخواست دائر کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ہزاروں ایکڑ سرکاری زمین ’کنسالیڈیشن‘ کے نام پر اپنے کنٹرول میں لا کر اس کا نجی زمین سے تبادلہ کر دیا ہے اور اس کارروائی کا مقصد بحریہ ٹاؤن کو فائدہ پہنچانا ہے جس کے نتیجے میں سرکاری خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔
9385.185 ایکڑ
وہ زمین جس پر تعمیراتی کام مکمل ہو چکا ہے : 9140.260 ایکڑ
زمین پر جس پر تعمیراتی کام نہیں ہوا: 244.925 ایکڑ
ایم ڈی اے کی منتقلی نہ ہونے کے باوجود بحریہ ٹاؤن کے زیرِ استعمال زمین: 2271.79 ایکڑ بحریہ ٹاؤن کے زیرِ استعمال زمین ایم ڈی اے کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کو فراہم کی گئی کل زمین:
سماعت کے موقع پر عدالت کو قومی احتساب بیورو کے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ
سروے آف پاکستان سے بحریہ ٹاؤن کو دی گئی زمین کا سروے کرایا گیا ہے۔ اس
سروے ٹیم میں ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی، ڈپٹی کمشنر ملیر اور بحریہ ٹاؤن کے
نمائندے شامل تھے اور اس سروے میں بحریہ ٹاؤن کا نقشہ بنایا گیا ہے۔
عدالت میں پیش کی گئی سروے رپورٹ کے مطابق ایم ڈی اے کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی میں فراہم کیا جانے والا کل رقبہ 12156.964 ایکڑ ہے جس میں سے عدالت نے 3015 ایکڑ رقبے پر تا حکمِ ثانی تعمیراتی کام پر پابندی عائد کی ہے۔
تاہم حکم نامے میں اس بقیہ 9141 ایکڑ رقبے کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی جہاں تعمیراتی کام مکمل ہو چکا ہے یا جاری ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ بیرسٹر ضمیرگھمرو کا عدالت میں کہنا تھا کہ سرکاری زمین کا نجی زمین سے تبادلہ نہیں کیا جاسکتا اور ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو حکومت نے متعلقہ زمین الاٹ ہی نہیں کی اور اتھارٹی یہ زمین الاٹ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔
نیب کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ تحقیقاتی رپورٹ تقریباً مکمل ہے لیکن اس میں سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو سے کچھ معلومات لینی ہے اور بحریہ ٹاؤن میں شامل ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے کچھ دیہوں کی نشاندہی کرنی ہے تاہم سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو رضوان میمن نے ایسے کسی نقشے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ بحریہ ٹاؤن کو الاٹ کی گئی زمین کے سروے کا کام 27 جون کو شروع کیا گیا تھا جو 15 جولائی کو اختتام پذیر ہوا۔
عدالت نے اپنے حکم میں 3015 ایکڑ رقبے پر تا حکمِ ثانی تعمیراتی کام پر پابندی عائد کی ہے۔
عدالت میں پیش کی گئی سروے رپورٹ کے مطابق ایم ڈی اے کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی میں فراہم کیا جانے والا کل رقبہ 12156.964 ایکڑ ہے جس میں سے عدالت نے 3015 ایکڑ رقبے پر تا حکمِ ثانی تعمیراتی کام پر پابندی عائد کی ہے۔
تاہم حکم نامے میں اس بقیہ 9141 ایکڑ رقبے کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی جہاں تعمیراتی کام مکمل ہو چکا ہے یا جاری ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ بیرسٹر ضمیرگھمرو کا عدالت میں کہنا تھا کہ سرکاری زمین کا نجی زمین سے تبادلہ نہیں کیا جاسکتا اور ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو حکومت نے متعلقہ زمین الاٹ ہی نہیں کی اور اتھارٹی یہ زمین الاٹ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔
نیب کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ تحقیقاتی رپورٹ تقریباً مکمل ہے لیکن اس میں سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو سے کچھ معلومات لینی ہے اور بحریہ ٹاؤن میں شامل ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے کچھ دیہوں کی نشاندہی کرنی ہے تاہم سینیئر ممبر بورڈ آف ریونیو رضوان میمن نے ایسے کسی نقشے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ بحریہ ٹاؤن کو الاٹ کی گئی زمین کے سروے کا کام 27 جون کو شروع کیا گیا تھا جو 15 جولائی کو اختتام پذیر ہوا۔
عدالت نے اپنے حکم میں 3015 ایکڑ رقبے پر تا حکمِ ثانی تعمیراتی کام پر پابندی عائد کی ہے۔
نیب کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ تحقیقات مکمل کر لی گئی ہیں لیکن ابھی اس تبادلے کے ذمہ داروں کا تعین کرنا ہے، جس کے لیے مہلت دی جائے۔ بورڈ آف ریونیو کے وکیل فاروق ایچ نائک نے بھی ان کے موقف کی تائید کی اور کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی نیب پر انگلیاں اٹھائے اور یہ دباؤ میں آ کر غلط لوگوں کو شامل کر لے اس لیے اسے آزاد چھوڑ دیا جائے۔ اس پر عدالت نے قومی احتساب بیورو کو ہدایت کی کہ وہ دو ماہ کے اندر رپورٹ مکمل کر کے عدالت میں پیش کرے -
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Below is as Received... on WhatsApp
Heard that today evening i. e. 1st January 2018 Sindh Rangers has entered Bahria Town Karachi on the orders of Supreme Court and stopped all sort of work and transaction۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں