Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 14 جون، 2015

شہید کی بیوی

 کہنا جتنا آسان ھوتا ھے کر کے دکھانا شاید اتنا ہی مشکل ھوتا ھے، کہنے کو تو ھم ھر شہید کی ماں،بہن، بیٹی اور بیوی کو کہہ دیتے ھیں کہ
, You Are A Proud Sister, ,Be A Brave Wife Of A Brave Soldier, Or Amma Jee You Are Mother Of A Shaheed Etc etc.

لیکن یہ سب برداشت کرنا اور ہجر کو سہنا کتنا مشکل ھوتا ھے یہ تو وہی بتا سکتے ھیں جن کے اپنے جان سے پیارے شھید ھوتے ھیں ـ ایک شہید کی بیوی کی اپنے شوھر کی شہادت کے بعد کی ایسی تحریر جو دل کو چھوتی ہے

(ان کے نام جن کی سونی زندگی کے صدقے ہزاروں زندگیاں آباد ہیں)

♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥ ♥

ایک برس بیت گیا۔۔۔
یا شاید ایک صدی بیت گئی۔۔۔
یا پھر ایک لمحہ ہی بیتا ہے۔۔۔
تمہارے جانے کے بعد دنوں کا حساب کتاب ہی کس نے رکھا ہے۔۔۔
یہ دن‘ یہ منٹ‘ یہ سیکنڈ۔۔۔
یہ تو صرف گھڑی کی بدلتی اکائیاں ہیں یا کیلنڈر کی بدلتی تاریخیں۔ میرے منجمد وجود کو زندہ ہونے کا احساس دلاتی ۔ یہ اگربتی کی خوشبو‘ یہ تلاوت کی مدھم آوازیں‘ یہ خواتین کی آپس کی بھنبھناہٹ۔۔۔ ایک خواب ہے یا پھر میں ایک خیال ہوں۔ ’’ہونے‘‘ اور ’’نہ ہونے‘‘ کے منجدھار میں پھنسی میری ذات کی ڈولتی ناؤ کو ایک کرخت آواز نے تمہارے وجود کے سراب سے نکال کر تلخ حقیقت کے گدلے ساحل پر ایک جھٹکے سے لاپھینکا۔۔۔ رسمِ زمانہ کے تحت مہمانوں کو کھانا کھلایا جارہا ہے اور میں تمہیں اور تمہاری یاد کو پسِ پشت ڈالے صرف اس کوشش میں مگن ہوں کہ کوئی ناراض نہ جائے تمہارے گھر سے۔۔۔
کوئی یہ نہ کہہ دے کہ کھانا شایانِ شان نہیں۔ کوئی یہ اعتراض نہ کردے کہ انتظامات مناسب نہیں۔۔۔ اس سمے ہلکان ہوتے ہوئے مجھے تمہارے بچوں کا بھی شاید خیال نہیں رہا جو سہمے‘ سُکڑے ایک کونے میں دبکے‘ پتھرائی آنکھوں سے لوگوں کو اپنے بابا کی برسی کا کھانا  "enjoy " کرتے دیکھ رہے ہیں۔ میں شاید جان بوجھ کر ان آنکھوں میں رقم اَن گنت سوالوں سے بچنا چاہ رہی ہوں۔
مجھ میں شاید یہ ہمت نہیں کہ میں تمہاری لاڈلی گڑیا کو بابا کی ’’برسی‘‘ اور ’’برتھ ڈے‘‘ کا فرق سمجھاسکوں۔
دستورِ زمانہ کے مطابق ایک ایک کرکے مہمان رخصت ہونے لگے۔۔۔ انتظامات کی توصیف کرتے ہوئے۔۔۔ کچھ میرے حوصلے اور صبر کو سراہتے ہوئے۔۔۔ اور کچھ مضبوط رہنے کی تلقین کرتے ہوئے۔
ڈھلتی شام کے سائے میں تمہارے جگر گوشوں کو سینے سے چمٹائے‘ برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے میں اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں وہ دن ڈھونڈ رہی ہوں جو خوشبو کی طرح اُڑ گئے یا میری مٹھی سے اس طرح پھسلے کہ میں چاہ کر بھی ان دنوں کو‘ ان ساعتوں کو سمیٹ کر مقید نہ رکھ سکی‘ ان رنگوں کو اپنے آنچل میں جذب نہ کرسکی۔۔۔ اپنے ہاتھوں کی کھردری جلد اور ان پر اُبھرتی رگوں کو گن کر میں سُودو زیاں کا حساب کرنا چاہ رہی ہوں یا پھر عہدِ رفتہ کو آواز دینا چاہ رہی ہوں۔
مجھے خود نہیں معلوم کہ خالی خالی نظروں سے خلاؤں میں گھورتے میرے چہرے کو تکتے ان معصوم ذہنوں کی میں تشفی کر پاؤں گی کہ نہیںٖ۔۔۔
کیا میں ان کو یہ یقین دلا سکتی ہوں کہ وقت کے ساتھ ’’سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘ یا پھر ’’صبر آجائے گا‘‘۔۔۔
کیا واقعی وقت کے ساتھ ’’صبر‘‘ آجاتا ہے۔۔۔ کیا مجھے ’’صبر‘‘ آگیاہے۔۔۔ کیا مجھے اب تمہاری کمی پہلے جیسی شدت کے ساتھ محسوس نہیں ہوتی۔ کیا روز مرہ کے امور نمٹاتے ہوئے لحظہ بھرکو میں بھی بھول پاتی ہوں۔ کہ گر تم ہوتے تو یہ کام کس سرعت اور خوش اسلوبی سے انجام پاتا۔۔۔
 سب کہتے ہیں کہ میں بہت ’’بہادر‘‘ ہوں۔۔۔ میں نے گھر کو‘ بچوں کو بہت عمدگی سے سنبھال لیا ہے۔۔۔ مگر۔۔۔ تم تو جانتے ہو نہ کہ یہ ’’سچ‘‘ نہیں ہے۔
تمہیں تو اچھی طرح خبر ہے کہ سڑک پار کرتے ہوئے مجھے کتنا ڈر لگتا تھا اور میں ہمیشہ تمہارا ہاتھ پکڑ کر‘ تمہاری اوٹ میں چھپ کر سڑک پار کرتی تھی۔۔۔
اب جب تمہارے جسم و جان کے ٹکڑوں کو اپنی بانہوں میں سمیٹ کر دھیان سے سڑک پار کراتی ہوں تو تمہیں میری خاموش صدائیں سنائی دیتی ہیں نہ کہ۔۔۔ آجاؤ۔۔۔ کہیں سے آجاؤ اور ہمیں اپنی آغوش میں بھر کر اس ظالم دنیا سے کہیں دُور لے جاؤ۔
گھر کے لئے روزمرہ کی اشیاء خریدتے ہوئے مجھے ایک پل کو بھی نہیں بھولتا کہ تمہیں بھاؤ تاؤ کرنا پسند نہیں تھا اور میں ایک معمول کی طرح چیزیں خرید کر ٹوکری میں رکھتی چلی جاتی ہوں۔
پنکھے کا سوئچ بدلوانے کے لئے الیکٹریشن کو بلاتے ہوئے۔۔۔
باتھ روم کا نل ٹھیک کرانے کے لئے پلمبر کے پیچھے بھاگتے ہوئے۔۔۔
فون‘ پانی‘ گیس کا بل جمع کرانے کے لئے بینک کے باہر لمبی لائن میں لگتے ہوئے۔۔۔
بجلی کا بل دیکھ کر پریشان ہوتے ہوئے۔۔۔
پانی کی موٹر جل جانے پر نئی موٹر خریدنے کے لئے دکانوں پر خوار ہوتے ہوئے۔۔۔
کوکنگ رینج ٹھیک کرانے کے لئے مستری کی دکان کے چکر لگاتے ہوئے۔۔۔
دن کے بیسیوں کام کرتے ہوئے کیا میں یہ بھول پاتی ہوں کہ تم نے‘ میں نے یہ کب سوچا تھا کہ ایک دن یہ کام مجھے کرنے پڑیں گے۔۔۔
تم تو ناراض ہو جاتے تھے نا میرے ان کاموں میں مداخلت کرنے پر بھی۔۔۔
پھر تم کیوں مجھے اکیلا چھوڑ گئے ہو ان کاموں کے کرنے کے لئے۔ تم تو ہر لمحہ‘ ہر آن میرے ساتھ ہوتے ہو۔۔۔ بچوں کو پڑھاتے ہوئے۔۔۔
رات کو انہیں تمہاری چھوٹی چھوٹی باتیں‘ نصیحتیں سناتے ہوئے۔۔۔
تم سے متعلق‘ تمہاری ذات سے متعلق اُن کے کرید کرید کر ہزاروں بار کئے گئے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے۔۔۔بخدا میں تمہیں اس وقت اپنے پاس پاتی ہوں جب میں بچوں کے Parents Dayپر ان کے ٹیچرز سے اکیلے ان کی پرفارمنس ڈسکس کرتی ہوں۔۔۔
 یا پھر رزلٹ ڈے پر ان کی کامیابی پر تالیاں بجاتے ہوئے اپنے ہاتھوں کی لرزش میں تمہارے مضبوط ہاتھوں کی گرمجوشی اور تالیوں کی گونج محسوس ہوتی ہے۔
تمہیں بتایا تھا نا کہ کچھ دن پہلے بچوں کے سکول کے Fun Weekکے لئے ان کے مختلف Costumesخریدنے کے لئے بہت دشواری ہوئی لیکن جب تمہاری Princessکو Snow Whiteبنے دیکھا تو ایسے لگا کہ میری نظروں سے تم اس کی دیوانہ وار بلائیں لے رہے ہو۔۔۔
جب تمہارے شیر بہادر نے رائیڈنگ گالا جیتا تو یوں محسوس ہوا جیسے تم نے خوشی سے سینہ پھلائے فخر و انبساط سے ہمیں بہت زور سے بھینچا ہو۔
جب میں گاڑی کا انجن سٹارٹ کرتی ہوں تو یکدم مجھے تمہاری وہ پیار بھری ڈانٹ‘ وہ گاڑی چلانا سیکھنے پر دی جانے والی گُھرکیاں یاد آتی ہیں۔
وہ جملہ یاد آتا ہے جب تم مجھے کہتے تھے کہ گاڑی چلانا سیکھ لو‘ تاکہ کل کو جب میں نہ ہوں تو تمہیں کسی کا سہارا نہ لینا پڑے۔ کسی سے مدد نہ مانگنی پڑے۔ تم سے تو میری کوئی سوچ‘کوئی کیفیت چھپی ہوئی نہیں ناں۔
تم تو خوب جانتے ہو کہ رات کو کئی بار میں اٹھ بیٹھتی ہوں۔۔۔ مجھے تکیے پر تمہاری سرسراہٹ سنائی دیتی ہے۔۔۔
بیڈ شیٹ کی سلوٹوں میں تمہاری کروٹیں نظر آتی ہیں۔
میں کمرے کی تنہائی میں جب کونج کی طرح کرلاتی ہوں تو تم سہاگ رات کا وعدہ یاد دلاتے ہو کہ میں تمہاری جدائی میں روؤں گی نہیں اور تمہیں دنیاوی طور پر کھو کر ابد تک کے لئے ’’پا‘‘ لوں گی۔ مگر میں کیا کروں جب یہ طویل ‘ بے خواب راتیں بیڈ کی پائنتی سے ٹیک لگائے‘ تمہاری شوخیوں‘ تمہارے چٹکلوں‘ تمہاری ہدائتوں‘ تمہاری سرگوشیوں کو یاد کرتے گزرتی ہیں تو رواں رواں تمہاری یاد کی مہک سے معطر ہو جاتا ہے۔ امتداد زمانہ کے ہاتھوں مسلے ہوئے نوخیز جذبات کی کلیاں سراٹھانے لگتی ہیں۔۔۔ تمہارے وجود کی خوشبو میں لپٹا ہوا میرا وجود سسک سسک کر بین کرتا ہے۔ میرا انگ انگ تمہیں پکارتا ہے۔
تمہیں تو یہ بھی خبر نہیں کہ صبح اٹھ کر باتھ روم میں رکھے تمہارے شیونگ کے سامان کو دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ چیخ چیخ کر تمہیں پکاروں۔۔۔ تمہیں کہوں کہ آ جاؤ۔۔۔ کہیں سے آ جاؤ۔۔۔ آ کر گیلے تولیہ کا گولہ بنا کر پھینکو۔۔۔ شیونگ کریم کی جھاگ شیشے پر لگا دو۔۔۔ ٹوٹھ پیسٹ کا ڈھکن کھلا چھوڑ دو۔۔۔ واش بیسن کا نل ٹپکتا چھوڑ دو۔۔۔
تاکہ میں تم سے تکرار کروں اور میری صبح ہو سکے۔۔۔
پورا سال گزر گیا ’’صبح‘‘ نہیں ہوئی ہے۔ لاؤنج میں پڑے صوفوں کے کشنوں کی دن میں کئی بار ترتیب درست کرتے ‘ ٹی وی‘ اے سی‘ ڈی وی ڈی پلیئرز کے ریموٹ کو میکانکی انداز میں ترتیب سے رکھتے ہوئے میرے خالی وجود میں تنہائی سرجھکائے ماتم کرتی ہے کہ آ جاؤ۔۔۔ تم آ کر یہ سب ترتیب بگاڑ دو۔۔۔
تاکہ تم سے بحث کروں اور میری شام ہو سکے۔۔۔
تمہارے جانے کے بعد ہمارے لاؤنج میں’’شام‘‘ نہیں اتری ہے۔۔۔ بچوں کو سلانے کے بعد گھنٹوں ٹی وی تکتے ہوئے احساس ہی نہیں ہوتا کہ کونسا پروگرام چل رہا ہے۔ ٹی وی کی خالی سکرین کو تکتی میری تھکی ماندی آنکھیں تمہیں ڈھونڈتی ہیں کہ تم اچانک سے ٹی وی کا ریموٹ چھین لو۔۔۔
اپنی مرضی کا پروگرام دیکھنے کے لئے تم سے تو تکار کروں اور میری رات ڈھل سکے۔ تمہارے بغیر ایک شب بھی ہمارے کمرے میں رات نہیں ڈھلی ہے۔
تم دیکھتے تو ہو گے نا کہ تمہارے بعد بچوں نے ضد کرنا یا فرمائشیں کرنا بالکل چھوڑ دی ہیں۔ کھانے کی ٹیبل پر مجھ سے نظر بچا کر تمہاری خالی کرسی کو گاہے بگاہے تکتے ہیں اور مجھ سے نظر ملنے پر چور سے ہو جاتے ہیں۔
جب میں ان سے سکول کی باتیں کرتی ہوں تو اپنی روانی میں بولتے بولتے تمہاری تائید یا ستائش حاصل کرنے کے لئے نادانستگی میں تمہاری راکنگ چیئر کی طرف مڑ کر کہتے ہیں۔
’’ہے نا بابا‘‘ اور پھر یکبارگی خاموشی چھا جاتی ہے۔۔۔

تم آ کر خاموشی کا یہ طلسم توڑ کیوں نہیں دیتے۔ جب پچھلے دنوں گڑیا بیمار ہوئی۔ اکیلے اسے بازوؤں میں اٹھا کر ڈاکٹر کی طرف لے جاتے ‘ہاسپٹل کے کاریڈور میں ٹہل ٹہل کر ان دیکھی کے خوف سے شل ہوتے بدن کے ساتھ تمہیں بے نوا صدائیں لگاتے یا پھر عید کے دن بچوں کو کمروں میں گھٹ گھٹ کر سسکیاں لیتے دیکھنے کی اذیت تم نے اکیلے نہیں جھیلی نہ ۔۔۔
تمھارے سٹڈی روم کی ٹیبل پر رکھی تمہاری پسندیدہ کتاب کے صفحوں پر ہاتھ پھیرنے کی لذت سے بھی تم ماورا ہو نہ۔۔۔

تم اتنے کٹھور تو نہ تھے کہ تمہیں احساس ہی نہ ہو کہ تمہارے ساتھ کی آخری شاپنگ کا ایک ایک جوڑا اب بھی الماری میں پڑا تمہاری راہ تک رہا ہے۔

تمہارے دل پر کیا گزری جب ہماری شادی کی سالگرہ کے لئے آرڈر کئے گئے کیک کو میں اکیلے لینے گئی۔۔۔
جب تمہاری لاڈلی کے برتھ ڈے پر وہ نادان بابا کے گفٹ کا انتظار کرتی رہی۔۔۔
تمہارے ساتھ شیئر کیا تھا نہ کہ تمہارے چلے جانے کے بعد ہمارا بڑا بیٹا بہت گم صم ہو گیا ہے۔ میں اس پر سے یہ بردباری اور ذمہ داری کا بھاری غلاف اتار دینا چاہتی ہوں مگر وہ اس پردے کے پیچھے مزید چھپتا جا رہا ہے۔
تمہارا دوسرا بیٹا بہت غصیلا ہو گیا ہے۔ سکول میں کسی بچے نے اپنے بابا کی تعریف کی تو اس نے اسے تھپڑ دے مارا۔ 
تمہاری آبگینے جیسی گڑیا ہر وقت فاختہ کی طرح ڈری سہمی رہتی ہے۔ ہواؤں کی زد میں رکھے تنکا تنکا بکھرتے اس آشیانے کو بچانے کی خاطر میں ادھ موئی ہو چکی ہوں۔ مجھے تمہاری مضبوط پناہ چاہئے۔ بچے بڑے ہو رہے ہیں۔
تمہارا شیرعلی اب آٹھویں کلاس میں پہنچ گیا ہے۔
حیدر علی نے بھی خوب قد کاٹھ نکال لیا ہے۔ تم اس کو بندوں کی طرح درخت پرجو لٹکاتے تھے۔
آمنہ سکول جانے لگی ہے۔
اس ایک برس کے دوران زندگی رواں دواں ہے مگر شاید میرا وقت ٹھہر گیا ہے۔ اب سورج ڈھل چکا ہے اور گھروں کو لوٹنے کی جلدی میں شور مچاتے پرندے بھی یکدم خاموش ہو گئے ہیں۔ میری گود میں سوئی تمہاری لاڈو رانی کسمسا رہی ہے اور میرے دونوں شانوں سے ٹیک لگائے بیٹھے ہمارے بیٹوں نے حوصلہ بڑھانے کے لئے میرے ہاتھ پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے ہیں۔
یہ کیا ہوا ہے؟
 اچانک مجھے یوں لگا کہ تم نے اپنے مخصوص سٹائل میں مجھے دلاسہ دینے کی خاطر میرے سر پر ہلکے سے تھپکی دی ہو۔
ارے۔۔۔ یہ تو ہمارا شیرعلی ہے۔۔۔ یہ اتنا بڑا کب سے ہو گیا۔ کہ اس نے تمہارا ‘ سٹائل تمہاری ذمہ داری اپنے سر اٹھالی۔ حیدرعلی بھی میری خشک آنکھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نم آنکھوں سے سرہلا کر میرا حوصلہ بڑھا رہا ہے۔۔۔
اور یہ تو دیکھو تمہاری گڑیا بالکل تمہاری طرح مسکرا رہی ہے۔۔۔ اس کی مسکراہٹ میں تم جھلک رہے ہو۔۔۔ ان تینو ں کے چہروں میں تمہارا عکس جھلملا رہا ہے۔۔۔
تم دور ہو کر بھی ان تینوں کی ذات میں بٹ کر پھر میرے پاس آ گئے ہو۔۔۔ 
ہجر کا درمان بن کر



1 تبصرہ:

  1. عمدہ انداز تحریر اور ایک مختلف موضوع کا انتخاب بہترین ہے، شہداٗ کے کئی پسماندگان کی کہانی ہے یہ !

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔