مسئلہ رباء کا حل
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (3/130)
اے ایمان والو! تم دوگنا اور چارگنا ”الربٰو“ مت کھاؤ۔ اور اللہ سے تقویٰ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ ۔
وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (3/131)
اور تقویٰ کرو اُس آگ سے جو کافرین کے لئے تیار ہے ۔
وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (3/132)
اللہ اور الرسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (2/278)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو تو الربوٰ میں سے جو بقایا ہے اسے چھوڑ دو ۔
فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ۖ
اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے۔ پس تمھیں اجازت ہے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ حرب کی۔
وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (2/279)
اور اگر تم توبہ کرو۔ تو تمھارے لئے اموال کے رؤس ہیں۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم ہو!
وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (2/280)
اور اگروہ عسرت والا ہو(جس پر اموال کے رؤس میں سے بقایا ہے) تو آسانی کی طرف منتظر رہو۔ اور اگر تم (اس کی آسانی تک) تصدیق کرو تو تمھارے لئے خیر ہے اگر تمھیں علم ہو
----- فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ۖ (2/279)
--- اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے۔ پس تمھیں اجازت ہے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ حرب کی۔
اس حرب کا کیا نتیجہ نکلے گا؟
وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّـهِ ۖ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (2/281)
اور تم اللہ سے ڈرو، ایک دن جس میں تم اللہ کی طرف رجوع کرو گے۔ پھر ہر نفس کو پورا (بدلہ) دیا جائے گا جو اس نے کمایا اور ان کے ساتھ ظلم نہیں کیا جائے گا۔
اگر تم مومن ہو تو الربوٰ میں سے جو بقایا ہے اسے چھوڑ دو، تو تمھارے لئے اموال کے رؤس ہیں۔نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم ہو!
اموال کے رؤس
اگر ہم وہ تمام اموال (اصل زر) جس میں کسی بھی قسم کا منافع شامل ہو۔ اُسے چھوڑنے کا حکم ہے اور نہ چھوڑنے پراللہ اور اس کے رسول کے ساتھ حرب کی تنذیر ہے۔ اب وہ ایسا کون سا عمل ہے جس سے اموال میں دوگنا اور چو گنا منافع غیرحقیقی(رباء) شامل ہو جاتا ہے۔
تجارت میں باہمی صحت مندانہ مقابلے کے باعث منافع کی سالانہ شرح (10-20%) اتنی نہیں ہو تی کہ وہ راس المال سے بڑھ سکے لیکن اگر تجارت یا بیع(معاہدہ) میں بھی منافع کی شرح راس المال سے دو گنا یا چار گنا ہو جائے تو وہ منافع غیرحقیقی ہو کر رباء میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ریاست میں اقتصادی بھونچال آنا شروع ہو جاتا ہے ۔ رباء کی کمائی پر پلنے والوں کی قوت خرید بڑھ جاتی ہے -
انسانی معاشی نظام میں شامل وہ تمام اموال جن کے منافع ان کے اصل اموال سے بڑھ جاتے ہیں وہ افراطِ زر اور معاشی عدمِ توازن کو فروغ دیتے ہیں۔ مثلاً:
1- جائیداد کا کاروبار۔
2- فاضل مکانوں کی تعمیر (برائے آمدنی کرایہ جات)۔
3- غذا کی اجناس کی خام اور تیار شدہ حالتوں میں قیمتوں میں بے تحاشا فرق اور
4- انسانی مجبوری سے ناجائز فائدہ۔
معاشرے سے رباء ختم کرنے کی سب سے بڑی ذمہ داری انفرادی ہے اور اگر یہ عمل انفرادی طور پر ختم نہ ہو سکے تو رباء کا استعمال کرنے والوں سے حرب ہو گی اور یہ کام اولی الامر کا ہو گا۔
دولت کی پیداوار میں چار عناصر کار فرما ہوتے ہیں۔زمین، محنت، سرمایہ اور تنظیم۔
زمین اور سرمایہ، مال کا اعلانیہ (Direct)حصہ ہیں۔ جبکہ محنت اور تنظیم سرّی (Indirect) حصہ ہے۔
لہذا اِن چاروں کے اشتراک سے جو دولت پیدا ہوتی ہے۔وہ انِ چاروں میں ایک خاص تناسب کے حساب سے تقسیم ہوتی ہے۔ ماضی میں سب سے پہلے انسان نے اپنے محدود سرمائے سے ذاتی کاروبار شروع کیا۔
پھر کاروبارکی وسعت نے اسے شراکت (دو یا دو سے زائد) پر مجبور کیا۔
پھر عمر رفتہ یا کسی اور بندش نے اسے سفر کی صعوبتوں کے باعث مضاربت (ایکٹو پارٹنر(ز) اور سلیپنگ پارٹنر(ز)) کی راہ دکھائی۔
انسانی معیشت کا یہ عمل ترقی کرتا رہا۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ پیداواری ادارے وجود میں آئے اور ان کے کام کی نوعیت فرد واحد یا چند افراد کی دلچسپیوں سے بڑھ کر اقوامی یا کثیر الاقوامی فوائد پر پھیل گئی۔
آفاقی سچائی کے قوانین کے تحت یہ توسیع عمل سرمایہ کاری اپنے حیطہء عمل کو کرہ الارض تک پھیلاتا رہا۔ چنانچہ بڑے بڑے پیداواری ادارے بہت بڑے پیمانے پر کام کرنے لگے۔ اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ مہیا کرنا کسی فردِواحد کے بس کی بات نہیں رہی اور یوں سرمایہ مہیا کرنے کے لئے بنک وجود میں آئے۔ ان کا مقصد ملکی معیشت کو فروغ دینے کے لئے، لوگوں کو اس بات کی ترغیب دینا ہو اکہ وہ انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ لوگ اپنی بچتیں اپنے گھروں میں دفینے، زیورات اور جائیداد کی صورت میں رکھنے کے بجائے اُن کے پاس امانتاً رکھوائیں اور اس طرح مرتکز کی گئی رقومات سے قومی اور نجی پیداواری اداروں کو سرمایہ مہیا کیا جائے۔ تاکہ وہ یہ سرمایہ اپنے کاروبار میں استعمال کریں۔ اب صورت ِحال یہ بنی کہ ملک کے ہر امیر اور غریب نے اپنی بچت قومی بنکوں نے یہ سرمایہ کاروبار کے لئے فرد۔افراد اور اداروں کو مہیا کیا جس سے گردشِ زر وجود میں آئی-
قومی معیشت سطح بلند کرنے کے لئے بڑی بڑی فیکٹریاں اور کارخانے تعمیر کئے گئے۔ ان فیکٹریوں اور کارخانوں نے نہ صرف ملک میں کثیر افراد کو روزگار مہیا کیا بلکہ ملکی خام مال سے تیار ہونے والی مصنوعات، ملک میں مہیا کرنے کے علاوہ برآمد کرنے سے زرِ مبادلہ کی وصولیوں کو استحکام پہنچا۔ بینکوں نے جوسرمایہ کاروبار کے لئے فرد۔افراد اور اداروں کو مہیا کیاتو ان کے جواب میں اُن سے منافع (Interest) وصول کیا جسے عرف العام میں سود کا نام دے کر متعارف کرایا گیا۔ جو نہ تو بلیک منی کی تعریف میں آتا ہے اور نہ ہی رباء میں۔
بینکوں نے اپنے اس منافع کا کچھ حصہ معاوضے کے طور پر (بینک کی عمارات کا کرایہ اور اس سے متعلق دیگر اخراجات ، افراد کی تنخواہیں، غیر یقینی حالات سے تحفظ کے لئے کچھ حصہ، افراطِ زر کی وجہ سے زر کی قیمت میں کمی کا فرق، وغیرہ) رکھ کر باقی تمام منافع ان افراد میں تقسیم کردیا جن کی بچتیں بنکوں میں جمع تھیں۔
سرمائے کی یہ گردش پیداواری ہے۔اس گردشِ زر کی وجہ سے پیدا ہونے والی منافع (Interest)کہلاتی ہے۔ اس تمام عمل میں تجارت کی جو شکل سامنے آئی وہ مضاربت کہلاتی ہے۔ یعنی Sleeping Partnership کیونکہ بنکوں میں سرمایہ جمع کروانے والوں کا کردار Sleeping Partner ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا عمل اگر بنک کے علاوہ فرد واحد کرے یا دو یا دو سے زیادہ افرا د ہر صورت میں یہ عمل پیداواری سرمایہ کاری کا کہلاتا ہے۔ اس قسم کا ایک اور عمل جس میں سارے سرمایہ کاری کرنے والے افراد باہم مل جل کر کوئی بھی پیداواری کاروبا ر کریں۔ جس میں سب کی شراکت ہو تو یہ شراکتی کاروبار ہو گا۔اس میں نفع اور نقصان کی شراکت سرمایہ کاری کی مناسبت سے ہو گی۔اگر اس میں لگی رقم ڈوب گئی تو سب کا ایک جیسا حال ہو گا۔
جبکہ مضاربت میں بھی اگر نفع اور نقصان کی شراکت سرمایہ کاری کی مناسبت سے ہو تو یہ تجارت یا بیع(معاہدہ)کے اصولوں کی پابندی ہو گی لیکن اگر مضاربت میں سرمایہ کارنقصان سے برء ت اختیار کرتے ہوئے ساری رقم طلب کرے اور اس کے لئے تمام جائز یا ناجائز ذرائع استعمال کرے تو یہ رباء کی بدترین صورت ہے۔
جو عموماً حکومتی مالیاتی اداروں میں دیکھنے میں آتی ہے۔وہ اس طرح کی اگر یہ مالیاتی ادار ے اگر ڈوب جائیں تو ان کے قانوں کے مطابق سرمایہ کاروں کو متناسب نقصان نکال کر، اصل زر دیا جاتا ہے یا بالکل نہیں دیا جاتا۔لیکن اگر ان سے کاروبار کے لئے سرمایہ لینے والوں کا کاروبار، ناگہانی آفات کی وجہ سے نقصان کا شکار ہو جائے تو یہ ادارے نہایت بے دردی سے اصل زر، بشمول Interest لیتے ہیں اس صورت میں یہ Interest منافع نہیں بلکہ(Usury) رباء ہے۔
اگر کوئی فرد، افراد یا ادارہ اپنا سرمایہ،غیر پیداواری عمل سرمایہ کاری (ایسے اخراجات کے لئے قرض)کے لئے دے جو سرمایہ لینے والے کی ضرورتوں (مثلاً مکان بنانے کا قرضہ، بیٹی کی شادی وغیرہ)کے لئے استعمال ہو اور اس سے افزائشِ دولت ممکن نہ ہو تو ایسی سرمایہ کاری پر، ضروری اخراجات کے علاوہ اور اندیشہ ء افراط زر کی محفوظ رقم کے علاوہ، بھاری شرح وصول کرنا رباء ہے۔
کیونکہ مقروض نے وہ رقم اپنی اچانک ضرورت کو پورا کرنے کے لئے قرض لی ہے۔ نیز ایسے ضرورت مندوں سے لئے گئے قرض کی مالیت سے زیادہ رہن کے طور پر کچھ رکھنا اور وقت پر قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں رہن کو قرق کرنا اور مروج قیمت سے کم پر فروخت کر کے اپنی رقم کی وصولیابی کے لئے مقروض کو نقصان پہنچاتے ہوئے حاصل کی گئی رقم رباء ہے۔
کتاب اللہ کے مطابق رہن صرف مندرجہ ذیل صورت میں رکھا جاسکتا ہے:
وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّـهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ﴿2/283﴾
اور اگر تم سفر میں ہو اور تمھیں (اپنی مطابقت کو تحریر میں لانے کے لئے) کاتب میسر نہ ہو تو پس (کوئی چیز) بطور رہن (اپنے) قبضہ میں رکھو۔ پس جس نے کسی کو (ر ہن کا) امین بنایا ہو۔تو (جب دیگر شرائط پوری ہو جائیں) جس کو امین بنایا ہو وہ (رہن میں) رکھائی گئی امانت کو لوٹا دے۔ اور چاہیئے کہ اللہ سے ڈرا جائے۔اور شہادت (رہن کی سو فیصد ی واپسی) کو نہیں چھپاؤ اور جس نے (شہادت) کو چھپایا۔ تو اِس کا قلب اثم (گناہ) میں ہوا۔اور اللہ کو تمھارے اعمال کا علم ہے
غیر پیداواری عمل سرمایہ کاری میں اگر کوئی فرد، افراد یا ادارہ اپنا تمام سرمایہ اپنے پاس تجوری میں بند کرکے رکھے اور اسے گردش میں آنے سے روکے اور اسے ملکی خام دولت میں شامل کرنے سے اس لئے چھپائے کی اس پر ٹیکس یا زکوٰۃ منہا ہو۔ تو یہ عمل ذخیرہ اندوزی ء سرمایہ میں شامل ہوگا۔ اِس طرح انہوں نے رقم کے ایک کثیر حصے کو ملکی خام دولت سے منہا کر دیا۔اب حکومت کو نہیں معلوم کہ آیا یہ دولت ملک میں موجود ہے یا کسی ناگہانی آفت کی وجہ سے ضائع ہوگئی ہے۔ جس کی وجہ سے ملک میں افراط زر کا رجحان پیدا ہوگا۔
ہمارے موجودہ معاشی نظام میں Interestکی فیصدقیمت کا جو تعین کیا جاتا ہے وہ اسے ہرگز رباء کے زمرے میں نہیں لاتا۔ کیونکہ وہ افراد جو معاشی ترقی میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر گردشِ زر کی رفتا ر اگر تیز ہو تو منافع کی رفتار بھی تیز ہو جاتی ہے لہذا وہ سرمائے کو مختلف تجارت اور مضاربت کی ایسی ایسی صورتوں میں گردش دیتے ہیں جس سے سرمائے پر منافع زیادہ سے زیادہ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن سرمائے کی اِس گردش کو تسلسل نہیں کبھی تو یہ انتہائی بالا حدوں کو چھوتی ہے اور کبھی یہ زیریں حد پر یاتو ساکن رہتی ہے اور یا چیونٹی کر رفتار سے سرکتی ہے لیکن اِس کی سالانہ اوسطاً گردش 10 تا 30 فیصد منافع کھینچ لیتی ہے۔ لہذا منافع کی سالانہ اوسط نکالنا اسے رباء کی صفت میں کھڑا نہیں کرتا۔ صرف ایک واحد شرط سرمائے سے حاصل ہونے والے منافع کو رباء میں تبدیل کرتی ہے اور وہ اِس سرمائے سے غیر پیداواری قرض پر منافع لینا ہے۔
اگر ہم منافع کی متعین شرع کی وجہ سے اِسے رباء قرار دیں اور دلیل یہ دیں کہ تجارت میں منافع کی شرع کا تعین نہیں کیا جاسکتا تو یہ بات قطعی بے بنیاد ہو گی کیونکہ گذشتہ حسابیاتی گوشواروں کی مدد سے کوئی بھی اگلے سال کا محفوظ شرح منافع calculateکر سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ کوئی بھی مارکیٹنگ کرنے والا شخص اپنی خدمات سے حاصل ہونے والی گذشتہ سالانہ آمدنی کا اگلے سال ہونے والے سالانہ فیصد آمدنی کا حساب کر سکتا ہے۔
کمرشل بینک جو افراد یا اداروں کو پیداواری سرمایہ کاری کے لئے سرمایہ فراہم کرتے ہیں وہ اُن سے مروجہ دستور کے مطابق اُن سے 18% سے زائدمنافع لیتے ہیں۔
اِس لئے گئے منافع میں، کمرشل بینکوں کو سرمایہ فراہم کرنے والے افراد یا ادارے حصہ دار شامل ہوتے جن کو وہ 10%سے کم منافع دیتے ہیں باقی منافع وہ بیمہ (غیر یقینی حالات سے تحفظ کے لئے)+ اخراجات+ تنخواہیں وغیرہ کے لئے رکھ لیتے ہیں۔ کمرشل اداروں کو غیر پیداواری سرمایہ مہیانہیں کرنا چاہیئے۔
مضاربت(Sleeping Partnership) اور قرض پر دی گئی رقم کے ڈوبنے سے سرمایہ دار کی جو کیفیت ہوتی ہے۔ وہ اللہ نے کتاب اللہ میں درج کر دی ہے۔
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ جو الربٰوا کھاتے ہیں وہ قائم نہیں رہ سکتے سوائے اُس (شخص) کی طرح جو شیطان کے لمس کے باعث مخبوط الحواسی پر قائم ہو۔۔۔۔۔۔“
یہ غیر پیداواری سرمایہ، کاروباری معاشرے کے لئے ایک بدترین روگ ہے۔
----- ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا---
”۔۔۔ (ان کی یہ مخبوط الحواس حالت) وہ اس لئے کہ! وہ کہتے ہیں۔ کہ بے شک ”البیع“ مثل ”الرِّبَا“ہے۔۔۔۔
--- وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّـهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿البقرة: 275﴾
اور اللہ نے” البیع“ کو حلال اور ”الربٰو“ کو حرام کیا۔
پس جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے موعظت آگئی اور وہ رک گیا تو جو گذر گیا۔اُس کا وہ امر(فیصلے کے لئے) اللہ پر ہے - اور جو عاد (دشمنی پر) رہا وہ اصحاب النار ہیں ہمیشہ اُس میں رہیں گے
اسی لئے اس قسم کے غیر پیداواری کاروبار سے سختی کے ساتھ منع کیا گیاہے۔
----- فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ۖ (2/279)
--- اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے۔ پس تمھیں اجازت ہے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ( بحیثیت اولی الامر ) حرب کی۔
-------- تمت بالخیر ------------
نوٹ :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (3/130)
اے ایمان والو! تم دوگنا اور چارگنا ”الربٰو“ مت کھاؤ۔ اور اللہ سے تقویٰ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ ۔
وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (3/131)
اور تقویٰ کرو اُس آگ سے جو کافرین کے لئے تیار ہے ۔
وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (3/132)
اللہ اور الرسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (2/278)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو تو الربوٰ میں سے جو بقایا ہے اسے چھوڑ دو ۔
فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ۖ
اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے۔ پس تمھیں اجازت ہے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ حرب کی۔
وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (2/279)
اور اگر تم توبہ کرو۔ تو تمھارے لئے اموال کے رؤس ہیں۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم ہو!
وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (2/280)
اور اگروہ عسرت والا ہو(جس پر اموال کے رؤس میں سے بقایا ہے) تو آسانی کی طرف منتظر رہو۔ اور اگر تم (اس کی آسانی تک) تصدیق کرو تو تمھارے لئے خیر ہے اگر تمھیں علم ہو
----- فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ۖ (2/279)
--- اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے۔ پس تمھیں اجازت ہے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ حرب کی۔
اس حرب کا کیا نتیجہ نکلے گا؟
وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّـهِ ۖ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (2/281)
اور تم اللہ سے ڈرو، ایک دن جس میں تم اللہ کی طرف رجوع کرو گے۔ پھر ہر نفس کو پورا (بدلہ) دیا جائے گا جو اس نے کمایا اور ان کے ساتھ ظلم نہیں کیا جائے گا۔
اگر تم مومن ہو تو الربوٰ میں سے جو بقایا ہے اسے چھوڑ دو، تو تمھارے لئے اموال کے رؤس ہیں۔نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم ہو!
اموال کے رؤس
اگر ہم وہ تمام اموال (اصل زر) جس میں کسی بھی قسم کا منافع شامل ہو۔ اُسے چھوڑنے کا حکم ہے اور نہ چھوڑنے پراللہ اور اس کے رسول کے ساتھ حرب کی تنذیر ہے۔ اب وہ ایسا کون سا عمل ہے جس سے اموال میں دوگنا اور چو گنا منافع غیرحقیقی(رباء) شامل ہو جاتا ہے۔
تجارت میں باہمی صحت مندانہ مقابلے کے باعث منافع کی سالانہ شرح (10-20%) اتنی نہیں ہو تی کہ وہ راس المال سے بڑھ سکے لیکن اگر تجارت یا بیع(معاہدہ) میں بھی منافع کی شرح راس المال سے دو گنا یا چار گنا ہو جائے تو وہ منافع غیرحقیقی ہو کر رباء میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ریاست میں اقتصادی بھونچال آنا شروع ہو جاتا ہے ۔ رباء کی کمائی پر پلنے والوں کی قوت خرید بڑھ جاتی ہے -
انسانی معاشی نظام میں شامل وہ تمام اموال جن کے منافع ان کے اصل اموال سے بڑھ جاتے ہیں وہ افراطِ زر اور معاشی عدمِ توازن کو فروغ دیتے ہیں۔ مثلاً:
1- جائیداد کا کاروبار۔
2- فاضل مکانوں کی تعمیر (برائے آمدنی کرایہ جات)۔
3- غذا کی اجناس کی خام اور تیار شدہ حالتوں میں قیمتوں میں بے تحاشا فرق اور
4- انسانی مجبوری سے ناجائز فائدہ۔
معاشرے سے رباء ختم کرنے کی سب سے بڑی ذمہ داری انفرادی ہے اور اگر یہ عمل انفرادی طور پر ختم نہ ہو سکے تو رباء کا استعمال کرنے والوں سے حرب ہو گی اور یہ کام اولی الامر کا ہو گا۔
دولت کی پیداوار میں چار عناصر کار فرما ہوتے ہیں۔زمین، محنت، سرمایہ اور تنظیم۔
زمین اور سرمایہ، مال کا اعلانیہ (Direct)حصہ ہیں۔ جبکہ محنت اور تنظیم سرّی (Indirect) حصہ ہے۔
لہذا اِن چاروں کے اشتراک سے جو دولت پیدا ہوتی ہے۔وہ انِ چاروں میں ایک خاص تناسب کے حساب سے تقسیم ہوتی ہے۔ ماضی میں سب سے پہلے انسان نے اپنے محدود سرمائے سے ذاتی کاروبار شروع کیا۔
پھر کاروبارکی وسعت نے اسے شراکت (دو یا دو سے زائد) پر مجبور کیا۔
پھر عمر رفتہ یا کسی اور بندش نے اسے سفر کی صعوبتوں کے باعث مضاربت (ایکٹو پارٹنر(ز) اور سلیپنگ پارٹنر(ز)) کی راہ دکھائی۔
انسانی معیشت کا یہ عمل ترقی کرتا رہا۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ پیداواری ادارے وجود میں آئے اور ان کے کام کی نوعیت فرد واحد یا چند افراد کی دلچسپیوں سے بڑھ کر اقوامی یا کثیر الاقوامی فوائد پر پھیل گئی۔
آفاقی سچائی کے قوانین کے تحت یہ توسیع عمل سرمایہ کاری اپنے حیطہء عمل کو کرہ الارض تک پھیلاتا رہا۔ چنانچہ بڑے بڑے پیداواری ادارے بہت بڑے پیمانے پر کام کرنے لگے۔ اتنے بڑے پیمانے پر سرمایہ مہیا کرنا کسی فردِواحد کے بس کی بات نہیں رہی اور یوں سرمایہ مہیا کرنے کے لئے بنک وجود میں آئے۔ ان کا مقصد ملکی معیشت کو فروغ دینے کے لئے، لوگوں کو اس بات کی ترغیب دینا ہو اکہ وہ انہیں اس بات پر آمادہ کریں کہ لوگ اپنی بچتیں اپنے گھروں میں دفینے، زیورات اور جائیداد کی صورت میں رکھنے کے بجائے اُن کے پاس امانتاً رکھوائیں اور اس طرح مرتکز کی گئی رقومات سے قومی اور نجی پیداواری اداروں کو سرمایہ مہیا کیا جائے۔ تاکہ وہ یہ سرمایہ اپنے کاروبار میں استعمال کریں۔ اب صورت ِحال یہ بنی کہ ملک کے ہر امیر اور غریب نے اپنی بچت قومی بنکوں نے یہ سرمایہ کاروبار کے لئے فرد۔افراد اور اداروں کو مہیا کیا جس سے گردشِ زر وجود میں آئی-
قومی معیشت سطح بلند کرنے کے لئے بڑی بڑی فیکٹریاں اور کارخانے تعمیر کئے گئے۔ ان فیکٹریوں اور کارخانوں نے نہ صرف ملک میں کثیر افراد کو روزگار مہیا کیا بلکہ ملکی خام مال سے تیار ہونے والی مصنوعات، ملک میں مہیا کرنے کے علاوہ برآمد کرنے سے زرِ مبادلہ کی وصولیوں کو استحکام پہنچا۔ بینکوں نے جوسرمایہ کاروبار کے لئے فرد۔افراد اور اداروں کو مہیا کیاتو ان کے جواب میں اُن سے منافع (Interest) وصول کیا جسے عرف العام میں سود کا نام دے کر متعارف کرایا گیا۔ جو نہ تو بلیک منی کی تعریف میں آتا ہے اور نہ ہی رباء میں۔
بینکوں نے اپنے اس منافع کا کچھ حصہ معاوضے کے طور پر (بینک کی عمارات کا کرایہ اور اس سے متعلق دیگر اخراجات ، افراد کی تنخواہیں، غیر یقینی حالات سے تحفظ کے لئے کچھ حصہ، افراطِ زر کی وجہ سے زر کی قیمت میں کمی کا فرق، وغیرہ) رکھ کر باقی تمام منافع ان افراد میں تقسیم کردیا جن کی بچتیں بنکوں میں جمع تھیں۔
سرمائے کی یہ گردش پیداواری ہے۔اس گردشِ زر کی وجہ سے پیدا ہونے والی منافع (Interest)کہلاتی ہے۔ اس تمام عمل میں تجارت کی جو شکل سامنے آئی وہ مضاربت کہلاتی ہے۔ یعنی Sleeping Partnership کیونکہ بنکوں میں سرمایہ جمع کروانے والوں کا کردار Sleeping Partner ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا عمل اگر بنک کے علاوہ فرد واحد کرے یا دو یا دو سے زیادہ افرا د ہر صورت میں یہ عمل پیداواری سرمایہ کاری کا کہلاتا ہے۔ اس قسم کا ایک اور عمل جس میں سارے سرمایہ کاری کرنے والے افراد باہم مل جل کر کوئی بھی پیداواری کاروبا ر کریں۔ جس میں سب کی شراکت ہو تو یہ شراکتی کاروبار ہو گا۔اس میں نفع اور نقصان کی شراکت سرمایہ کاری کی مناسبت سے ہو گی۔اگر اس میں لگی رقم ڈوب گئی تو سب کا ایک جیسا حال ہو گا۔
جبکہ مضاربت میں بھی اگر نفع اور نقصان کی شراکت سرمایہ کاری کی مناسبت سے ہو تو یہ تجارت یا بیع(معاہدہ)کے اصولوں کی پابندی ہو گی لیکن اگر مضاربت میں سرمایہ کارنقصان سے برء ت اختیار کرتے ہوئے ساری رقم طلب کرے اور اس کے لئے تمام جائز یا ناجائز ذرائع استعمال کرے تو یہ رباء کی بدترین صورت ہے۔
جو عموماً حکومتی مالیاتی اداروں میں دیکھنے میں آتی ہے۔وہ اس طرح کی اگر یہ مالیاتی ادار ے اگر ڈوب جائیں تو ان کے قانوں کے مطابق سرمایہ کاروں کو متناسب نقصان نکال کر، اصل زر دیا جاتا ہے یا بالکل نہیں دیا جاتا۔لیکن اگر ان سے کاروبار کے لئے سرمایہ لینے والوں کا کاروبار، ناگہانی آفات کی وجہ سے نقصان کا شکار ہو جائے تو یہ ادارے نہایت بے دردی سے اصل زر، بشمول Interest لیتے ہیں اس صورت میں یہ Interest منافع نہیں بلکہ(Usury) رباء ہے۔
اگر کوئی فرد، افراد یا ادارہ اپنا سرمایہ،غیر پیداواری عمل سرمایہ کاری (ایسے اخراجات کے لئے قرض)کے لئے دے جو سرمایہ لینے والے کی ضرورتوں (مثلاً مکان بنانے کا قرضہ، بیٹی کی شادی وغیرہ)کے لئے استعمال ہو اور اس سے افزائشِ دولت ممکن نہ ہو تو ایسی سرمایہ کاری پر، ضروری اخراجات کے علاوہ اور اندیشہ ء افراط زر کی محفوظ رقم کے علاوہ، بھاری شرح وصول کرنا رباء ہے۔
کیونکہ مقروض نے وہ رقم اپنی اچانک ضرورت کو پورا کرنے کے لئے قرض لی ہے۔ نیز ایسے ضرورت مندوں سے لئے گئے قرض کی مالیت سے زیادہ رہن کے طور پر کچھ رکھنا اور وقت پر قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں رہن کو قرق کرنا اور مروج قیمت سے کم پر فروخت کر کے اپنی رقم کی وصولیابی کے لئے مقروض کو نقصان پہنچاتے ہوئے حاصل کی گئی رقم رباء ہے۔
کتاب اللہ کے مطابق رہن صرف مندرجہ ذیل صورت میں رکھا جاسکتا ہے:
وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّـهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ ﴿2/283﴾
اور اگر تم سفر میں ہو اور تمھیں (اپنی مطابقت کو تحریر میں لانے کے لئے) کاتب میسر نہ ہو تو پس (کوئی چیز) بطور رہن (اپنے) قبضہ میں رکھو۔ پس جس نے کسی کو (ر ہن کا) امین بنایا ہو۔تو (جب دیگر شرائط پوری ہو جائیں) جس کو امین بنایا ہو وہ (رہن میں) رکھائی گئی امانت کو لوٹا دے۔ اور چاہیئے کہ اللہ سے ڈرا جائے۔اور شہادت (رہن کی سو فیصد ی واپسی) کو نہیں چھپاؤ اور جس نے (شہادت) کو چھپایا۔ تو اِس کا قلب اثم (گناہ) میں ہوا۔اور اللہ کو تمھارے اعمال کا علم ہے
غیر پیداواری عمل سرمایہ کاری میں اگر کوئی فرد، افراد یا ادارہ اپنا تمام سرمایہ اپنے پاس تجوری میں بند کرکے رکھے اور اسے گردش میں آنے سے روکے اور اسے ملکی خام دولت میں شامل کرنے سے اس لئے چھپائے کی اس پر ٹیکس یا زکوٰۃ منہا ہو۔ تو یہ عمل ذخیرہ اندوزی ء سرمایہ میں شامل ہوگا۔ اِس طرح انہوں نے رقم کے ایک کثیر حصے کو ملکی خام دولت سے منہا کر دیا۔اب حکومت کو نہیں معلوم کہ آیا یہ دولت ملک میں موجود ہے یا کسی ناگہانی آفت کی وجہ سے ضائع ہوگئی ہے۔ جس کی وجہ سے ملک میں افراط زر کا رجحان پیدا ہوگا۔
ہمارے موجودہ معاشی نظام میں Interestکی فیصدقیمت کا جو تعین کیا جاتا ہے وہ اسے ہرگز رباء کے زمرے میں نہیں لاتا۔ کیونکہ وہ افراد جو معاشی ترقی میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر گردشِ زر کی رفتا ر اگر تیز ہو تو منافع کی رفتار بھی تیز ہو جاتی ہے لہذا وہ سرمائے کو مختلف تجارت اور مضاربت کی ایسی ایسی صورتوں میں گردش دیتے ہیں جس سے سرمائے پر منافع زیادہ سے زیادہ حاصل ہوتا ہے۔ لیکن سرمائے کی اِس گردش کو تسلسل نہیں کبھی تو یہ انتہائی بالا حدوں کو چھوتی ہے اور کبھی یہ زیریں حد پر یاتو ساکن رہتی ہے اور یا چیونٹی کر رفتار سے سرکتی ہے لیکن اِس کی سالانہ اوسطاً گردش 10 تا 30 فیصد منافع کھینچ لیتی ہے۔ لہذا منافع کی سالانہ اوسط نکالنا اسے رباء کی صفت میں کھڑا نہیں کرتا۔ صرف ایک واحد شرط سرمائے سے حاصل ہونے والے منافع کو رباء میں تبدیل کرتی ہے اور وہ اِس سرمائے سے غیر پیداواری قرض پر منافع لینا ہے۔
اگر ہم منافع کی متعین شرع کی وجہ سے اِسے رباء قرار دیں اور دلیل یہ دیں کہ تجارت میں منافع کی شرع کا تعین نہیں کیا جاسکتا تو یہ بات قطعی بے بنیاد ہو گی کیونکہ گذشتہ حسابیاتی گوشواروں کی مدد سے کوئی بھی اگلے سال کا محفوظ شرح منافع calculateکر سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ کوئی بھی مارکیٹنگ کرنے والا شخص اپنی خدمات سے حاصل ہونے والی گذشتہ سالانہ آمدنی کا اگلے سال ہونے والے سالانہ فیصد آمدنی کا حساب کر سکتا ہے۔
کمرشل بینک جو افراد یا اداروں کو پیداواری سرمایہ کاری کے لئے سرمایہ فراہم کرتے ہیں وہ اُن سے مروجہ دستور کے مطابق اُن سے 18% سے زائدمنافع لیتے ہیں۔
اِس لئے گئے منافع میں، کمرشل بینکوں کو سرمایہ فراہم کرنے والے افراد یا ادارے حصہ دار شامل ہوتے جن کو وہ 10%سے کم منافع دیتے ہیں باقی منافع وہ بیمہ (غیر یقینی حالات سے تحفظ کے لئے)+ اخراجات+ تنخواہیں وغیرہ کے لئے رکھ لیتے ہیں۔ کمرشل اداروں کو غیر پیداواری سرمایہ مہیانہیں کرنا چاہیئے۔
مضاربت(Sleeping Partnership) اور قرض پر دی گئی رقم کے ڈوبنے سے سرمایہ دار کی جو کیفیت ہوتی ہے۔ وہ اللہ نے کتاب اللہ میں درج کر دی ہے۔
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ جو الربٰوا کھاتے ہیں وہ قائم نہیں رہ سکتے سوائے اُس (شخص) کی طرح جو شیطان کے لمس کے باعث مخبوط الحواسی پر قائم ہو۔۔۔۔۔۔“
یہ غیر پیداواری سرمایہ، کاروباری معاشرے کے لئے ایک بدترین روگ ہے۔
----- ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا---
”۔۔۔ (ان کی یہ مخبوط الحواس حالت) وہ اس لئے کہ! وہ کہتے ہیں۔ کہ بے شک ”البیع“ مثل ”الرِّبَا“ہے۔۔۔۔
--- وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّـهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿البقرة: 275﴾
اور اللہ نے” البیع“ کو حلال اور ”الربٰو“ کو حرام کیا۔
پس جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے موعظت آگئی اور وہ رک گیا تو جو گذر گیا۔اُس کا وہ امر(فیصلے کے لئے) اللہ پر ہے - اور جو عاد (دشمنی پر) رہا وہ اصحاب النار ہیں ہمیشہ اُس میں رہیں گے
اسی لئے اس قسم کے غیر پیداواری کاروبار سے سختی کے ساتھ منع کیا گیاہے۔
----- فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ ۖ (2/279)
--- اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے۔ پس تمھیں اجازت ہے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ( بحیثیت اولی الامر ) حرب کی۔
-------- تمت بالخیر ------------
قرض ، سود ، منافع اور الرِّبَا -قسط 5
قرض ، سود ، منافع اور الرِّبَا - قسط 1
نوٹ :
قرض ، سود ، منافع اور الرِّبَا - قسط 1 میں نے مئی 2014 میں لکھی تھی - اُس کے بعد مزید لکھنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ بلکہ یوں کہیں کہ ٹائیپنگ کی ہمت نہیں ہوئی -
یہ مضمون میں نے 1999 میں لکھا تھا ۔ جو اگست 1998 میں شروع ہونے والے ، اسلامی قانون کورس - بین الاقوامی یو نیورسٹی اسلام آباد - کے 24 یونٹ کا آخری یونٹ تھا ( جس میں مجھ نالائق کو 45/100 نمبر ملے تھے )
یہ مضمون میں نے 1999 میں لکھا تھا ۔ جو اگست 1998 میں شروع ہونے والے ، اسلامی قانون کورس - بین الاقوامی یو نیورسٹی اسلام آباد - کے 24 یونٹ کا آخری یونٹ تھا ( جس میں مجھ نالائق کو 45/100 نمبر ملے تھے )
اگلا مضمون ، یونٹ 10 کا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں