" آوا، تاریخ اپنے آپ کو کسے دھراتی ہے " چم چم نے پوچھا
میری شہزادی یہ ایک بہت پرانا قصہ ہے " بوڑھے نے دور خلاؤں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔
میری شہزادی یہ ایک بہت پرانا قصہ ہے " بوڑھے نے دور خلاؤں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔
" آوا ، سٹوری سنائیں ، پلیز " چم چم بولی،
"
یہ اُن دنوں کی بات ہے" بوڑھا بولا ،
" غالباً نمّو چوتھی جماعت میں تھا ۔ اور درختوں پر اقبال کے شاھین کی طرح بسیرا کرنا اور اسماعیل میرٹھی کے پرندوں کی طرح اس ڈال سے اُس ڈال تک جانا اور دوستوں کے ساتھ، " باندَر کِلّا" کھیلنا اُس کے مشغلوں میں سر فہرست تھا -بہار آئی ، تو ایبٹ کے درخت پھولوں سے بھر گئے ، ہفتے بعد ، پھولوں کے نیچے ، خوبانیاں ، ھاڑیاں ، بادام ، سیب ، اخروٹ، انگور ، ناشپاتیاں ، آڑو، آلوچے ، آلو بخارے اور سنجلیاں نمودار ہونے لگیں ۔ اب انتظار تھا کہ یہ کب اتنی بڑی ہوں کہ کھائی جا سکیں ۔
ایک دن بعد از دوپہر کا ذکر ہے کہ نمّو نے کمرے کی کھڑکی کے شیشے سے جھانک کر سے " سٹوو " پر دیگچی میں کچھ پکتے دیکھا ، اور اس کی ڈیڑھ سال بڑی آپا پاس بیٹھی تھی ۔
تھوڑی دیر بعد آپا نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ، دیگچی سے کچھ نکالا اورخالص چاندی کے (دادی کی نشانی) اُس پیالے میں ڈالا جس میں نمّو کے ابا دہی پیتے تھے جو چائے کی چھ پیالیوں کے برابر تھا ، پھر آپا نے چینی کے پیالے میں چھ چاول کے چمچ چینی ڈالی ، چمچ سے ھلایا اور پیالے پر شیشے کی رکابی الٹ کر ڈالی ، ابھی کاروائی جاری تھی کی نمّو نے چھاپہ مارا اور آپا کو رنگے ھاتھوں پکڑ لیا ۔
" یہ کیا ہے " نمّو نے پوچھا
" مربہ ہے اور کیا ! " آپا اپنی پاپائیت جھاڑتی ہوئی بولی ۔
" مجھے چکھاؤ ، ورنہ امّی کو بتاؤں گا " نمّو نے دھمکی دی
امی چھوٹے بھائی اور بہن کے ساتھ محلے کے خیر سگالی دورے پر نکلی ہوئی تھیں ۔ آپا پڑوس میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ گھر گھر کھیل رہی تھی ۔
" اچھا چمچ لاؤ " آپا بولی ۔
پاس سالن کی دیگچی کا چمچ پڑا تھا ، نمّو نے وہ اُٹھا کر آگے کر دیا ۔
" اتنا بڑا چمچ " آپ غصے سے بولی ۔
" میں امی کو بتاؤں گا " نمّو نے دھمکی دی
" اچھا یہ لے منحوس " آپا جل کر بولی ۔
نّمو نے وہ ، مربّہ چائے کی پیالی میں ڈالا اور بولا ۔
"اور دو ورنہ امی کو بتاؤں گا کہ آپا نے مجھے منحوس بولا" ۔
" اچھا یہ لے اور مر " آپا نے بلیک میل ہوتے ہوئے ، دوسرے چمچ کی قربانی دی ۔
سفید پیالے میں ، ہلکے زردئی رنگ کا مربّہ اپنی الگ بہار دکھلا رہا تھا ۔
"یہ کس کا ہے ؟ " نمّو نے پوچھا ۔
ھاڑیوں کا " آپا بولی ۔
اور اپنا پیالہ اُٹھا کر سہیلیوں میں چلی گئی اور بھیانکر غلطی یہ کر گئی ، کہ جس دیگچی میں خوبانیاں ابالیں تھیں اُسے دھویا نہیں ۔ شاید اُس کا خیال تھا کہ ، " بیٹ مین چاچا " دھو دے گا ۔
" بیٹ مین چاچا " نمّو کے ابا کی وردی دھوبی سے استری کروانے گیا تھا ۔
توچم چم ، نمّو نے وہ لذیذ مربّہ خوب مزے سے چاٹ چاٹ کر نہ صرف کھایا بلکہ ، چمچ اور پیالہ بھی چاٹ کر چمکایا -
آپا سے پہلے ، امی گود میں چھوٹی بہن کی انگلی پکڑے ،گھر کی طرف آتی دکھائی دیں ، نمّو اُس وقت اپنے برآمدے میں " چینجو" کھیل رہا تھا ۔ کہ چھوٹا تیزی سے دوڑتا ہوا اُس کے پاس آیا ۔
" لالہ لالہ ، میں نے بسکٹ کھائے " چھوٹے بھائی نے معلومات دیں
" اچھا ، تو کیا ہوا ، میں نے مربّہ کھایا " نمّو کے منہ سے بے ساختہ نکلا
" کہاں سے لیا ؟ " چھوٹے نے تنک کر پوچھا، تو نمّو کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔
لیکن تیر کمان سے نکل کر شائد امی کے کانوں میں پہنچ چکا تھا ، اِس سے پہلے کہ امی کا سوال ہوتا ، نمّو نے دوڑ کر برآمدے سے چھلانگ لگائی اور سامنے کھیلتے ہوئے ، وحید اور مشتاق بھائی کی طرف دوڑا ۔ تو چھوٹا بھی اُس کے پیچھے بھاگا ، امی گھر میں چلی گئیں ۔
کوئی دس منٹ بعد آپا نے ، دونوں بھائیوں کو آواز دی ، کہ امی گھر بلا رہی ہیں ۔ نمّو ، جب آپا کے نزدیک پہنچا ، تو آپا نے پوچھا ، " تم نے امی کو بتا دیا ؟"
" نہیں، میں نے نہیں بتایا " ، نمّو بولا ۔
"تو پھر کس نے بتایا " آپا غصے میں بولی
" مجھے کیا پتا ؟ " نمّو نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔ جب تینوں امی کے سامنے حاضر ہوئے ، تو امی نے دیگچی اُٹھا کر آپا کو دکھاتے ہوئے غصے میں کہا ،
" میں نے کتنی دفعہ کہا ہے ، کہ اکیلے میں آگ کا کام نہیں کرنا ۔ تو پھر کیوں کیا ؟ "
" امی ہم گھر گھر کھیل رہے تھے ہر سہیلی ، کچھ نہ کچھ بنا کر لائی تھی ۔ میں بھی مربّہ بنا کر لے گئی تھی " آپا نے صفائی پیش کی ۔
" اورلالہ تھا نا ، میں اکیلی نہیں تھی "آپا نے جواز دیا
" آئیندہ نہ کرنا ورنہ ماروں گی " امی بولیں
" جی اچھا " آپا بولی
" امی میں بھی مربّہ کھاؤں گا " چھوٹا بھائی بولا ۔
" کل کھانا آج نہیں " امی بولیں
دوسرے دن دس بجے ، نمّو گھر ے پاس لگے ہوئے درخت سے ھاڑیاں توڑ کر لایا ۔
آپا کو بولا " آپا ۔ وہ مربّہ بنا دو" ،
وہ اُس وقت سہیلیوں کے " چینجو " کھیل رہی تھی، بولی ، " تم بڑی دیگچی میں آدھا پانی رکھ کر اُس میں خوبانیاں ڈالو اور سٹوو پر رکھ دو "
نمّو نے ایسا ہی کیا ۔ اور ہر تھوڑی دیر بعد دیگچی میں جھانکتا ، ھاڑیاں ابلنا شروع ہوئیں ، لیکن زردئی رنگ نہیں بن رہا تھا ۔ کیوں نہیں بن رہا ۔ آپا سے جا کر پوچھتا ہوں ۔
باہر آیا ، سامنے گروانڈ میں ، آپا سے پوچھا ۔ آپا مربّہ نہیں بن رہا " آپا سے پوچھا ۔
" تم ٹہرو میں آتی ہوں " آپا بولی ۔اور گھر کی طرف دوڑی ، تھوڑی دیر بعد واپس آئی ۔
" جاؤ بن گیا ہے ، مربّہ کھا لو " مسکراتے ہوئے بولی ۔ آپا یہ مسکراہٹ سخت مشکوک قسم کی تھی ۔
خیر نمّو گھر میں گیا ، چھوٹا پہلے ہی بیٹھا تھا ، امی سہیلیوں کے پاس گئیں تھیں ، یہ امی کی دو ہندوستانی سہیلیاں تھیں اور تیسری امی ۔ اِن تینوں ہندوستانی سہیلیوں کی بہت گاڑھی چھنتی تھی ۔
نمّو نے چینی کے دو چائے پینے والے پیالوں میں ، نفاست سے مربّہ نکالا، سویاں کھانے والا چمچ چھوٹے کو دیا اور خود لیا ۔ چٹائی پر آمنے سامنے بیٹھ کر دونوں بھائیوں نے اپنے اپنے پیالوں کی طرف دیکھا ،
" اِس کا رنگ زردے کی طرح کیوں نہیں ہوا " نمُو نے سوچا ،" شاید زیادہ نہیں پکا خیر " ابھی سوچ میں تھا کہ چھوٹے کی آواز آئی ،
" لالہ یہ کڑوا ہے "
" کڑوا کیسے کڑوا ؟ میں نے خود آٹھ چمچ چینی ڈالی ہے " نمّو بولا
مربّہ چکھا ، واقعی بہت کڑو تھا ۔ بالکل کونین کی طرح ،
لیکن کل تو میٹھا تھا ۔ یہ کیوں ہوا ؟
آپا نے کل کہا تھا ، کہ ھاڑیوں کا مربہ ہے
اور آج وہ بولی کہ خوبانیاں آدھی دیگچی پانی میں ابال لو !
یا شاید میں نے ھاڑیوں کے بیج نہیں نکالے اِس لئے کڑوا ہو گیا ۔
ارے ھاں ، یہی بات تھی !
نمّو کے ذہن میں گراریایں چل رہی تھیں ۔ نتیجے پر پہنچنے کے بعد ، نمّو نے دونوں پیالے کارنس پر رکھے ،
گھر سے باہر آیا تو دیکھا کہ آپا اور اُس کی سہیلیاں " پِٹّو گرم " کھیل رہی ہیں ، نمّو کا دل بھی چاھا کہ وہ بھی کھیلے لیکن پھر اُسے یہ سننا پڑتا ۔
گیارہ بجے امی گھنٹہ بھر کی گپ شپ کے بعد ، چھوٹی کے ساتھ واپس آگئیں ۔ آپا ، نمّو اور چھوٹا بھی گھر میں داخل ہوئے ۔
" امی لالہ نے مربّہ بنایا وہ کڑوا ہو گیا " چھوٹا بولا ۔
" امی اِس نے ھاڑیوں کا مربہ بنایا ہے " آپا جھٹ بولی ۔
" آپا ، تم نے کل مجھے کہا تھا کہ ھاڑیوں کا مربہ ہے " نمّو فوراً بولا
" لیکن ھاڑیوں سے مربّہ اتنا کڑوا نہیں ہوتا " امی نے ، مربّہ چکھتے ہوئے کہا ۔اور آپا کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں ،
" تم نے اِس میں کونین ملائی ہے ؟ "
آپا کو نہیں معلوم تھا کی امی اتنی جلدی بات کی تہہ تک پہنچ جائیں گی ۔
"تو مائی سوئیٹ بے بی ، اُس دوپہر ، آپا روتی جائے اور مربّہ کھاتی جائے اور ساتھ فریاد بھی کرتی جائے ۔
امی اب کونین نہیں ملاؤں گے ۔ پیاری امی ۔ معاف کر دیں "
یہ اُن دنوں کی بات ہے" بوڑھا بولا ،
" غالباً نمّو چوتھی جماعت میں تھا ۔ اور درختوں پر اقبال کے شاھین کی طرح بسیرا کرنا اور اسماعیل میرٹھی کے پرندوں کی طرح اس ڈال سے اُس ڈال تک جانا اور دوستوں کے ساتھ، " باندَر کِلّا" کھیلنا اُس کے مشغلوں میں سر فہرست تھا -بہار آئی ، تو ایبٹ کے درخت پھولوں سے بھر گئے ، ہفتے بعد ، پھولوں کے نیچے ، خوبانیاں ، ھاڑیاں ، بادام ، سیب ، اخروٹ، انگور ، ناشپاتیاں ، آڑو، آلوچے ، آلو بخارے اور سنجلیاں نمودار ہونے لگیں ۔ اب انتظار تھا کہ یہ کب اتنی بڑی ہوں کہ کھائی جا سکیں ۔
ایک دن بعد از دوپہر کا ذکر ہے کہ نمّو نے کمرے کی کھڑکی کے شیشے سے جھانک کر سے " سٹوو " پر دیگچی میں کچھ پکتے دیکھا ، اور اس کی ڈیڑھ سال بڑی آپا پاس بیٹھی تھی ۔
تھوڑی دیر بعد آپا نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ، دیگچی سے کچھ نکالا اورخالص چاندی کے (دادی کی نشانی) اُس پیالے میں ڈالا جس میں نمّو کے ابا دہی پیتے تھے جو چائے کی چھ پیالیوں کے برابر تھا ، پھر آپا نے چینی کے پیالے میں چھ چاول کے چمچ چینی ڈالی ، چمچ سے ھلایا اور پیالے پر شیشے کی رکابی الٹ کر ڈالی ، ابھی کاروائی جاری تھی کی نمّو نے چھاپہ مارا اور آپا کو رنگے ھاتھوں پکڑ لیا ۔
" یہ کیا ہے " نمّو نے پوچھا
" مربہ ہے اور کیا ! " آپا اپنی پاپائیت جھاڑتی ہوئی بولی ۔
" مجھے چکھاؤ ، ورنہ امّی کو بتاؤں گا " نمّو نے دھمکی دی
امی چھوٹے بھائی اور بہن کے ساتھ محلے کے خیر سگالی دورے پر نکلی ہوئی تھیں ۔ آپا پڑوس میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ گھر گھر کھیل رہی تھی ۔
" اچھا چمچ لاؤ " آپا بولی ۔
پاس سالن کی دیگچی کا چمچ پڑا تھا ، نمّو نے وہ اُٹھا کر آگے کر دیا ۔
" اتنا بڑا چمچ " آپ غصے سے بولی ۔
" میں امی کو بتاؤں گا " نمّو نے دھمکی دی
" اچھا یہ لے منحوس " آپا جل کر بولی ۔
نّمو نے وہ ، مربّہ چائے کی پیالی میں ڈالا اور بولا ۔
"اور دو ورنہ امی کو بتاؤں گا کہ آپا نے مجھے منحوس بولا" ۔
" اچھا یہ لے اور مر " آپا نے بلیک میل ہوتے ہوئے ، دوسرے چمچ کی قربانی دی ۔
سفید پیالے میں ، ہلکے زردئی رنگ کا مربّہ اپنی الگ بہار دکھلا رہا تھا ۔
"یہ کس کا ہے ؟ " نمّو نے پوچھا ۔
ھاڑیوں کا " آپا بولی ۔
اور اپنا پیالہ اُٹھا کر سہیلیوں میں چلی گئی اور بھیانکر غلطی یہ کر گئی ، کہ جس دیگچی میں خوبانیاں ابالیں تھیں اُسے دھویا نہیں ۔ شاید اُس کا خیال تھا کہ ، " بیٹ مین چاچا " دھو دے گا ۔
" بیٹ مین چاچا " نمّو کے ابا کی وردی دھوبی سے استری کروانے گیا تھا ۔
توچم چم ، نمّو نے وہ لذیذ مربّہ خوب مزے سے چاٹ چاٹ کر نہ صرف کھایا بلکہ ، چمچ اور پیالہ بھی چاٹ کر چمکایا -
آپا سے پہلے ، امی گود میں چھوٹی بہن کی انگلی پکڑے ،گھر کی طرف آتی دکھائی دیں ، نمّو اُس وقت اپنے برآمدے میں " چینجو" کھیل رہا تھا ۔ کہ چھوٹا تیزی سے دوڑتا ہوا اُس کے پاس آیا ۔
" لالہ لالہ ، میں نے بسکٹ کھائے " چھوٹے بھائی نے معلومات دیں
" اچھا ، تو کیا ہوا ، میں نے مربّہ کھایا " نمّو کے منہ سے بے ساختہ نکلا
" کہاں سے لیا ؟ " چھوٹے نے تنک کر پوچھا، تو نمّو کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔
لیکن تیر کمان سے نکل کر شائد امی کے کانوں میں پہنچ چکا تھا ، اِس سے پہلے کہ امی کا سوال ہوتا ، نمّو نے دوڑ کر برآمدے سے چھلانگ لگائی اور سامنے کھیلتے ہوئے ، وحید اور مشتاق بھائی کی طرف دوڑا ۔ تو چھوٹا بھی اُس کے پیچھے بھاگا ، امی گھر میں چلی گئیں ۔
کوئی دس منٹ بعد آپا نے ، دونوں بھائیوں کو آواز دی ، کہ امی گھر بلا رہی ہیں ۔ نمّو ، جب آپا کے نزدیک پہنچا ، تو آپا نے پوچھا ، " تم نے امی کو بتا دیا ؟"
" نہیں، میں نے نہیں بتایا " ، نمّو بولا ۔
"تو پھر کس نے بتایا " آپا غصے میں بولی
" مجھے کیا پتا ؟ " نمّو نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔ جب تینوں امی کے سامنے حاضر ہوئے ، تو امی نے دیگچی اُٹھا کر آپا کو دکھاتے ہوئے غصے میں کہا ،
" میں نے کتنی دفعہ کہا ہے ، کہ اکیلے میں آگ کا کام نہیں کرنا ۔ تو پھر کیوں کیا ؟ "
" امی ہم گھر گھر کھیل رہے تھے ہر سہیلی ، کچھ نہ کچھ بنا کر لائی تھی ۔ میں بھی مربّہ بنا کر لے گئی تھی " آپا نے صفائی پیش کی ۔
" اورلالہ تھا نا ، میں اکیلی نہیں تھی "آپا نے جواز دیا
" آئیندہ نہ کرنا ورنہ ماروں گی " امی بولیں
" جی اچھا " آپا بولی
" امی میں بھی مربّہ کھاؤں گا " چھوٹا بھائی بولا ۔
" کل کھانا آج نہیں " امی بولیں
دوسرے دن دس بجے ، نمّو گھر ے پاس لگے ہوئے درخت سے ھاڑیاں توڑ کر لایا ۔
آپا کو بولا " آپا ۔ وہ مربّہ بنا دو" ،
وہ اُس وقت سہیلیوں کے " چینجو " کھیل رہی تھی، بولی ، " تم بڑی دیگچی میں آدھا پانی رکھ کر اُس میں خوبانیاں ڈالو اور سٹوو پر رکھ دو "
نمّو نے ایسا ہی کیا ۔ اور ہر تھوڑی دیر بعد دیگچی میں جھانکتا ، ھاڑیاں ابلنا شروع ہوئیں ، لیکن زردئی رنگ نہیں بن رہا تھا ۔ کیوں نہیں بن رہا ۔ آپا سے جا کر پوچھتا ہوں ۔
باہر آیا ، سامنے گروانڈ میں ، آپا سے پوچھا ۔ آپا مربّہ نہیں بن رہا " آپا سے پوچھا ۔
" تم ٹہرو میں آتی ہوں " آپا بولی ۔اور گھر کی طرف دوڑی ، تھوڑی دیر بعد واپس آئی ۔
" جاؤ بن گیا ہے ، مربّہ کھا لو " مسکراتے ہوئے بولی ۔ آپا یہ مسکراہٹ سخت مشکوک قسم کی تھی ۔
خیر نمّو گھر میں گیا ، چھوٹا پہلے ہی بیٹھا تھا ، امی سہیلیوں کے پاس گئیں تھیں ، یہ امی کی دو ہندوستانی سہیلیاں تھیں اور تیسری امی ۔ اِن تینوں ہندوستانی سہیلیوں کی بہت گاڑھی چھنتی تھی ۔
نمّو نے چینی کے دو چائے پینے والے پیالوں میں ، نفاست سے مربّہ نکالا، سویاں کھانے والا چمچ چھوٹے کو دیا اور خود لیا ۔ چٹائی پر آمنے سامنے بیٹھ کر دونوں بھائیوں نے اپنے اپنے پیالوں کی طرف دیکھا ،
" اِس کا رنگ زردے کی طرح کیوں نہیں ہوا " نمُو نے سوچا ،" شاید زیادہ نہیں پکا خیر " ابھی سوچ میں تھا کہ چھوٹے کی آواز آئی ،
" لالہ یہ کڑوا ہے "
" کڑوا کیسے کڑوا ؟ میں نے خود آٹھ چمچ چینی ڈالی ہے " نمّو بولا
مربّہ چکھا ، واقعی بہت کڑو تھا ۔ بالکل کونین کی طرح ،
لیکن کل تو میٹھا تھا ۔ یہ کیوں ہوا ؟
آپا نے کل کہا تھا ، کہ ھاڑیوں کا مربہ ہے
اور آج وہ بولی کہ خوبانیاں آدھی دیگچی پانی میں ابال لو !
یا شاید میں نے ھاڑیوں کے بیج نہیں نکالے اِس لئے کڑوا ہو گیا ۔
ارے ھاں ، یہی بات تھی !
نمّو کے ذہن میں گراریایں چل رہی تھیں ۔ نتیجے پر پہنچنے کے بعد ، نمّو نے دونوں پیالے کارنس پر رکھے ،
گھر سے باہر آیا تو دیکھا کہ آپا اور اُس کی سہیلیاں " پِٹّو گرم " کھیل رہی ہیں ، نمّو کا دل بھی چاھا کہ وہ بھی کھیلے لیکن پھر اُسے یہ سننا پڑتا ۔
منڈے کھیلن کُڑیاں نال
نَک وَڈا وَن چھریاں نال
اور یہ بہت بڑی بے عزتی کی بات تھی ایک لڑکے کے لئے ۔ نَک وَڈا وَن چھریاں نال
گیارہ بجے امی گھنٹہ بھر کی گپ شپ کے بعد ، چھوٹی کے ساتھ واپس آگئیں ۔ آپا ، نمّو اور چھوٹا بھی گھر میں داخل ہوئے ۔
" امی لالہ نے مربّہ بنایا وہ کڑوا ہو گیا " چھوٹا بولا ۔
" امی اِس نے ھاڑیوں کا مربہ بنایا ہے " آپا جھٹ بولی ۔
" آپا ، تم نے کل مجھے کہا تھا کہ ھاڑیوں کا مربہ ہے " نمّو فوراً بولا
" لیکن ھاڑیوں سے مربّہ اتنا کڑوا نہیں ہوتا " امی نے ، مربّہ چکھتے ہوئے کہا ۔اور آپا کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں ،
" تم نے اِس میں کونین ملائی ہے ؟ "
آپا کو نہیں معلوم تھا کی امی اتنی جلدی بات کی تہہ تک پہنچ جائیں گی ۔
"تو مائی سوئیٹ بے بی ، اُس دوپہر ، آپا روتی جائے اور مربّہ کھاتی جائے اور ساتھ فریاد بھی کرتی جائے ۔
امی اب کونین نہیں ملاؤں گے ۔ پیاری امی ۔ معاف کر دیں "
بوڑھا اپنی بڑھیا اورچم چم ، لڈّو کی ماں اور لڈّو کو اِس گھر میں اپنے والدین اور بہنوں اور بھائی کے ساتھ رہنے والے نمّو کے واقعات بتاتے ہوئے ۔
٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں