اللہ تعالی نے الرسولﷺ کو اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے بھیجا جو لوگوں پیدا ہوا۔ الرسولﷺ نے یہ اختلاف ’’الکتاب“ سے دور کیا جو ہدایت اور رحمت ہے جبکہ لوگ اپنے اختلاف اپنے آباء واجداد کے خود ساختہ رسوم و رواج، اسلاف کی فلاسفی اور ان کی ان لکھی ہوئی کتابوں سے دور کرتے جن میں تضاد در تضاد ہوتا اور ایک گروہ دوسرے گروہ کے آباء واجداد اور اسلاف کے بنائے ہوئے قوانیں اور ضابطوں کو قبول ہی نہیں کرتا ۔ جبکہ اس گروہ کے نزدیک اس کے اسلاف اور آباء واجداد کے قوانین باعث فخر و افتخار ہوتیکہ ان کے آبا ء واجداد نے انسانی اختلافات دور کرنے کے لئے بڑی بڑی اور ضخیم کتابیں لکھی ہیں۔ یہ اور بات کہ وہ خود تو اس پر عمل بہت کم کرتے لیکن دوسروں کو اس پر عمل کرنے اور اپنے گروہ میں شامل کرنے کے لئے قتل و غارت پر کمر بستہ رہتے ۔ جب الرسول ﷺ نے ان کے سامنے اللہ کے حکم سے’’الکتاب“ رکھی کہ اپنے اختلاف اس سے دور کرو۔ توانہیں آباء داجداد اور سلف صالحین کی کتابوں کے مقابلے میں ”الکتاب“ (نعوذ باللہ) ایک مبہم ، مجمل اور الجھانے والی نظر آئی ۔ اور یہ ایک جامد عمل نہیں بلکہ ایک مسلسل عمل ہے جب بھی اسوہء رسول پر عمل کرتے ہوئے۔ کسی بھی قسم کا اختلاف ’’الکتاب“ سے دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ تو اسے انسانی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جائے گا۔( کیونکہ اس میں کوئی ”باب الحیل“ نہیں ہے ) لوگوں کے لئے کتاب اللہ ایسی کتا ب ہے جو زمانے کی جدیدیت کا ساتھ نہیں دے سکتی ۔ کیوں کہ یہ ان کے نزدیک کتاب اللہ ایک خاص وقت ۔ خاص علاقے۔ خاص معاشرتی بود و باش اور ایک خاص نسل کے لوگوں کے لئے ہے۔اس میں کئی احکام دوسری امتوں کے لئے ہیں اور پرانے قصے ہیں اور کئی احکام منسوخ ہو گئے ہیں۔لہذا اب اگر اُن پرانے اور منسوخ احکام کو کتاب اللہ سے قلم زد کر دیا جائے تو پھر کتاب اللہ مفصل ہو جائے گی۔ چنانچہ اب لوگوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ وہ کتاب اللہ کو موجودہ زمانے کے مطابق ڈھال لیں تاکہ یہ ہر خاص و عام کے لئے قابل قبول ہو جائے ۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ ایک گروہ کہتا ہے کہ ہاں۔ دوسرا کہتا ہے کہ نہیں! جھگڑا بڑھانے اور لایعنی بحثوں میں پڑنے کے بجائے آیئے کتاب اللہ سے دیکھتے ہیں ۔
وَاتْلُ مَا أُوحِیَ إِلَیْْکَ مِن کِتَابِ رَبِّکَ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہِ
”اور اپنے”رب کی کتاب“ میں سے جو تجھ پر وحی ہوئی ہے تلاوت کر اس (رب کی کتاب) کے کلمات کا کوئی بدل نہیں۔
وَلَن تَجِدَ مِن دُونِہِ مُلْتَحَداً (18/27)
اور تو اس (رب کی کتاب) کے علاوہ کوئی ملتحد(ل۔ح۔د) نہ پائے گا۔
رب کی کتاب میں لکھے ہوئے ”من اللہ“ کلمات کا کسی بھی فرد کے یعنی ”من دون اللہ“کلمات سے کوئی بدل ممکن نہیں۔ صرف رب کی کتاب میں لکھے ہوئے کلمات ہی کی تلاوت کا حکم ہے ! تو پھر رب کی کتاب میں دئے گئے احکامات کو زمانے کے مطابق ڈھالنے کے متعلق کیسا اجتحاد (ج۔ح۔د)؟
قُلْ إِن تُخْفُواْ مَا فِیْ صُدُورِکُمْ أَوْ تُبْدُوہُ یَعْلَمْہُ اللّٰہُ وَیَعْلَمُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأرْضِ
کہہ! تم اپنے سینوں میں جو کچھ خفیہ رکھتے ہو یا ظاہر کرتے ہو اللہ کو اس کا علم ہے۔ اور جو کچھ السماوات اور الارض میں ہے اس کا بھی علم رکھتا ہے۔
وَاللّہُ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ(3/29)
”اور اللہ ہر شے پر قدیر ہے۔
اللہ کو سموات اور الارض میں جو کچھ ہے اس کا علم ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ علم ایک محدود زمانے اور اس سے متعلق لوگوں تک ہے ۔ کیا اس علیم اور خبیر کو (نعوذ باللہ) یہ علم نہ تھا کہ انسان اتنی ترقی کرے گا کہ معاشرتی بود و باش اونٹ کی کھال سے نکل کر سیمنٹ اور سنگ مرمر کے محلات میں منتقل ہو جائے گی۔ چند سکوں کا وزن نہ اٹھا سکنے والے اربوں روپوں کا وزن کاغذ کے ایک حقیر ٹکڑے پر اٹھا سکیں گے۔ تصورات میں آسمان میں، انسانوں کو اٹھائے ہوئے جنوں کو دیکھنے والے خود آہنی جنوں کے کندھوں پر آسمانوں کی سیر کریں گے۔ آہ۔ ہماری کتابوں نے ہمیں ہمارے اعمال کو مزین کر کے دکھایا ہوا ہے۔ ہمارے”رب کی کتاب“ پیچھے رہ گئی اور انسانی کتابیں اس سے کہیں آگے نکل گئیں ،جدید ایجادات۔ نئی اختراعات۔ مختلف علوم سب ہمارے نزدیک ”کتاب اللہ“سے زیادہ اہم ہیں جبھی تو ہم نے ”کتاب اللہ“ کو پس پشت ڈالا ہوا ہے۔
فَخَلَفَ مِن بَعْدِہِمْ خَلْفٌ وَرِثُواْ الْکِتَابَ یَأْخُذُونَ عَرَضَ ھَذَا الأدْنَی
پس خلف کیا ان کے بعد الکتاب کے وارثوں نےخلف، وہ اسے(الکتاب کو) ادنیٰ عرض پکڑتے ہیں
وَیَقُولُونَ سَیُغْفَرُ لَنَا وَإِن یَأْتِہِمْ عَرَضٌ مِّثْلُہُ یَأْخُذُوہُ
اور کہتے ہیں ہمارے لئے البتہ مغفرت ہے۔ اگر ان کے پاس اس (الکتاب) کے مثل عرض آئے، وہ اس کوپکڑ لیتے ہیں (اور اس سے لوگوں کو درس دیتے ہیں)۔
أَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْْہِم مِّیْثَاقُ الْکِتَابِ أَن لاَّ یِقُولُواْ عَلَی اللّٰہِ إِلاَّ الْحَقَّ وَدَرَسُواْ مَا فِیْہِ
کیا ان سے الکتاب کے لئے ”میثاق“نہیں لیا گیا کہ وہ اللہ کے اوپر حق کے علاوہ کچھ نہ کہیں گے اور اس کا درس دیں جو اس (الکتاب) میں ہے؟۔
وَالدَّارُ الآخِرَۃُ خَیْْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُونَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ (7/169)-
ان لوگوں کے لئے جو اللہ سے ڈرتے ہیں بہتر دارالآخرت ہے۔ پس کیا تمھیں عقل نہیں۔
نبیﷺ رباء کی آیات وحی ہوئیں انہیں سات سال تک ان پر عمل کرنے کا موقع نہیں ملا (یہ ایک تاریخی ایرانی روایت ہے)۔ ہم وارث الکتاب ہیں اور ہم سے یہ میثاق الکتاب لیا گیا کہ ہم اللہ پر الحق کے سواء کچھ نہیں کہیں گے۔ نبی ﷺ لگائے گئے اس کذب کو ہم کتاب اللہ کی سے دیکھتے ہیں۔جس میں نبی ﷺ وہی وحی بیان کر رہے ہیں جو ان پر ہوئی ہے۔ جو کہ لازمی ہے کہ نبی ﷺ کی نُطق نہیں۔بلکہ اللہ کی منطق ہے
لاَّ أَقُولُ لَکُمْ عِندِیْ خَزَآءِنُ اللّٰہِ ۔
٭۔ نہ میں تم سے کہتا ہوں میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں !
إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا یُوحَی إِلَیَّ
٭۔ میں تو اسی کی اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر وحی ہوئی۔
وَلا أَعْلَمُ الْغَیْْبَ
٭۔ نہ یہ کہ میں عالم الغیب ہوں۔
قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الأَعْمَی وَالْبَصِیْرُ
کہہ! کیا بے بصیرت اور با بصیرت دونوں برابر ہو سکتے ہیں۔
وَلا أَقُولُ لَکُمْ إِنِّیْ مَلَکٌ
٭۔ نہ میں تم سے کہتا ہوں کہ میں مَلَک ہوں۔
أَفَلاَ تَتَفَکَّرُونَ (6/50)
٭۔ کیا تم تفکر نہیں کر سکتے؟“
نبی ﷺ نے ہر اس وحی کی خود اتباع کی جو اس پر نازل ہوئی ۔ یہ ہے کتاب اللہ کی روایت۔ بلکہ، نبی ﷺ نے کسی بھی وحی پر عمل معطل نہیں رکھا اور اللہ کے اس حکم پر عمل کیا۔
یَا أَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ مِن رَّبِّکَ
اے الرسول! ان پر جو تیرے رب کی طرف سے تجھ پر نازل ہوا ہے آشکارا (Tansmit) کر
وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ
اگر تو نے ایسا نہیں کیا تو، تو نے اس کی رسالت کی تبلیغ نہیں کی۔ اور اللہ تجھے لوگوں (کی خفگی، ان سے خوف اور ان کی ہلڑ بازی) سے بچائے گا۔
إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْکَافِرِیْنَ (5/67)
بے شک اللہ قوم الکافرین(جو اللہ کا حکم نہیں مانتے)کی ہدایت نہیں کرتا“۔
من اللہ روایت ہے کہ رباء حرام ہے۔ اور اس آیت کی وحی جونہی الرسولؐ پر ہوئی اس نے خود اس پر فورا ً عمل کیا اور لوگوں پر اللہ کا یہ حکم آشکارا کیا۔ الرسولؐ کا یہ عمل کتاب اللہ میں الحمد سے لے کر والناس تک دی گئی ہر وحی پر تھا۔من دون اللہ، الرسول ؐ کے عمل کی مخالفت کرتے ہوئے اُن ﷺ پر کذب باندھ رہا ہے۔ بہرحال، کتاب اللہ کے مطابق رباء حرام ہے ۔ یہ اللہ کا فتوی ہے اور اس کا کوئی بدل نہیں!
۔۔۔۔۔۔ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَیْْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَاَ۔۔۔۔۔ (2/275)
۔ وہ اس لئے کہ! وہ کہتے ہیں۔ کہ بے شک ”البیع“ مثل ”الربٰو“ہے۔ اور اللہ نے” البیع“ کو حلال اور ”الربٰو“ کو حرام کیا۔۔۔۔۔۔
اللہ نے ” البیع “ کو حلال اور ” الربٰو “ کو حرام کیا۔
اللہ نے ”ایتاء الزکوٰۃ “ کو حلال اور ”ایتاء الرباء“کو حرام کیا۔
رِجَالٌ لَّا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَلَا بَیْْعٌ عَن ذِکْرِ اللَّہِ وَإِقَامِ الصَّلَاۃِ وَإِیْتَاء الزَّکَاۃِ
مرد جنہیں تِجَارَۃٌ اور بَیْْعٌ - ذکر اللہ، َإِقَامِ الصَّلَاۃِ اور إِیْتَاء الزَّکَاۃِ سے لھو نہیں کر سکتی۔
یَخَافُونَ یَوْماً تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ (24/37)
اور وہ خوف زدہ ہوتے ہیں، یوم سے جس میں الْقُلُوبُ اورالْأَبْصَار ، َتَقَلَّب ہوں گے
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا نُودِیْ لِلصَّلَاۃِ مِن یَوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا إِلَی ذِکْرِ اللَّہِ وَذَرُوا الْبَیْْعَ
اے ایمان والو! جب یَوْمِ الْجُمُعَۃ کی الصَّلَاۃکے لئے ندا دی جائے ۔ پس ذِکْرِ اللَّہِ کے لئے سعی کرو اور الْبَیْْعَ کو چھوڑ دو
ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ (62/9)
وہ تمھارے لئے خیر ہے اگر تمھیں علم والے ہو۔
کتاب اللہ کے مطابق، البیع۔الربٰو اور تجارت انسانی معاشی جد و جہد کے اہم عوامل ہیں۔ان میں البیع اور الربٰو انسانی بصیرت کے مطابق تقریباً ہم صفت ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭ قرض ، سود ، منافع اور الرِّبَا ٭٭٭٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭ قرض ، سود ، منافع اور الرِّبَا ٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں